کپتان اعظم کے نام ایک خط
عزت مآب عمران خان صاحب،
قبلہ، خواہش توتھی کہ آپ کو وزیر اعظم کہہ کر مخاطب کروں، مگر مناسب جانا کہ اس معصومانہ خواہش کو آپ کی حلف برداری کی تقریب تک ٹال دیا جائے۔ یوں بھی راقم الحروف سمیت کئی گمنام لکھاری اِس ’’تاریخ ساز‘‘ لمحے کی پہلے ہی پیش گوئی کر چکے تھے، جن کے بھروسے آپ کے چاہنے والے عرصے سے آپ کو وزیر اعظم عمران خان ہی کہہ کر پکار رہے ہیں۔
آپ کی مصروفیات کا اندازہ ہے، اِس لیے مبارک باد اور نیک تمناؤں کے اظہار میں وقت ضایع کیے بنا مدعے پر آتا ہوں۔ معاملہ یہ ہے جناب کہ اوروں کے برعکس، یعنی وہ جنھیں آپ نے عبرت ناک شکست دی، عوام کوآپ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں ، آپ ان کے ہیروجو ٹھہرے۔اسی عقیدت میں وہ آپ سے معجزوں کی توقع کرنے لگے ہیں۔
عوام کو لگتا ہے، جیسے آپ کی قیادت میں پاکستانی ٹیم نے ورلڈ کپ جتوا کر قوم کا سر فخر سے بلند کیا، آپ نے شوکت خانم جیسا کارنامہ انجام دیا، موروثی سیاست کا دائرہ توڑ کر سرخرو ہوئے، ویسے ہی آپ کے اقتدار میں آتے ہی نیا پاکستان ابھر آئے گا۔ ہر نیا دن بہتری کی جانب گامزن ہوگا، ہر صبح خوشگوار، ہر شام سحر انگیزہوگی اورایسی ہی صبحوں اور شاموں سے گزرتے ہوئے بالآخر ہم اُس لازوال لمحے میں داخل ہوجائیں گے، جب یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر دوڑنے لگے گا۔
جانتا ہوں، یہ امیدیں بوجھ ہیں۔ توقعات وزنی ہیں، مگر کیا کیجیے، آپ کی شخصیت بھی تو اساطیری ہے۔ میاں صاحب اور آصف علی زرداری کے برعکس، آپ کی کسی سورما کی طرح پرستش کی گئی۔ آپ سے عوام کوانوکھی، پراسرار قسم کی توقعات ہیں۔ اور پھرخود آپ نے بھی توہمیشہ خواب دیکھنے کی تلقین کی ہے، بڑا سوچنے کی راہ سجھائی ہے۔ اب بڑا سوچنے کی ذمے داری آپ پر آن پڑی ہے صاحب۔ اور یہ بھاری ذمے داری ہے۔ امید ہے، آپ اِسے بڑی سنجیدگی سے نبھائیں گے۔
سنیے، اقتدار بڑی ظالم چیز ہے۔ جو الیکٹیبلز آپ کوگھیرے ہوئے ہیں، انھیں آپ کا نظریہ نہیں، اپنا مفاد عزیز۔ انھیں آپ کی بائیس سالہ جدوجہد کی کہانی سے، تخت کی جاودانی زیادہ بھاتی ہے۔ سو جب آپ انھیں کوئی منصب سونپیں، ذمے داریاں بانٹیں، وزارتیں دیں، تو پہلے ٹھونک بجا کر دیکھ لیں۔ یہ وزیر، سفیر آپ کا چہرہ بنیں گے، اگر انھوں نے اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھائے، تو تذکرہ آپ کا ہوگا اور جو وہ غافل نکلے، تو تنقید کی زد میں آپ آئیں گے۔
ماضی کریدنا ٹھیک نہیں، مگر آپ کی طرز سیاست پر ہونے والے چند اعتراضات خود میں خاصا وزن رکھتے ہیں۔ آپ نے اوروں سے بڑے جلسے کیے، اوروںسے زیادہ تقریروں سے ہمیں فیض یاب کیا۔ مگر ان تقاریر میں ،جنھیں نصاب کا حصہ بنانے کی افواہ زیر گردش ہے، کہیں کہیں آپ تلخ ہوگئے،لہجے میں ترشی آگئی، کچھ ایسا کہہ گئے، جو سماعتوں پر گراں گزرا۔دست بستہ درخواست ہے، مستقبل میں الفاظ کا چناؤ ٹھیک ویسے کریں، جیسے عوام نے آپ کو چنا۔ یعنی سوچ بچار کے بعد۔احتیاط اور تحمل سے۔ ویسے آپ نے بہ طور متوقع وزیراعظم، بنی گالہ سے جو تقریر کی، جس سے مودی، ٹرمپ اور پوتن حواس باختہ ہوگئے ، اُس سے آپ کے مقامی مخالفین کے رویے میں کچھ لچک ضرور آئی ہے۔ البتہ سفر طویل ہے۔کیوں کہ اب آپ کو جلسوں کی ضرورت نہیں ، توماضی میں اُدھر ہونے والی بدمزگی، دھکم پیل، تھپڑتماچوں سے بھی آپ کی جان چھوٹی۔کم بخت ناقدین کو تنقید کا سرا ہی نہیں ملے گا۔
اچھا، کچھ عاقب نااندیشہ یہ کہتے ہیں، آپ نے یہ انتخاب تنہا نہیں لڑیا،غیرمرئی قوتیں ساتھ تھیں۔ ہمیں یقین ہے ، اُن کا اشارہ بزرگان دین کی دعاؤں، نیک تمناؤں کی سمت ہے۔البتہ اگریہ شر انگیز کسی اور جانب اشارہ کرتے بھی ہیں، تب بھی ہمیںبھرپور امید،آپ اپنے نیک عمل سے یہ تاثر زائل کرکے سویلین بالاد ستی کے اُس سنہری سفر کا آغاز کریں گے، جس کے آغازکا شریف خیال آپ کے پیش رو کو نااہل ہونے کے بعد آیا تھا۔ ہماری دعا ہے،آپ ایسی کوئی آفت آنے سے قبل ہی ’’نظریاتی‘‘ ہوجائیں۔
اچھا،عالمی مالیاتی اداروں سے متعلق آپ خاصے بلند و بانگ دعوے داغ چکے ہیں، جن کا پورا ہونا، فقیرکے آپ پر 99 فی صد یقین کے باوجود، کٹھن معلوم ہوتا ہے۔وزیر خزانہ کوئی ہو، کتنی ہی اُس کی عمر پر ہو، اُسے دشوارگزارگھاٹیوں سے گزرنا ہوگا، ناپسندیدہ ، متنازع فیصلے کرنے ہوں گے، مگر یقین ہے، آپ عوام کو سمجھا بجھا لیں گے، وہ شریف آپ سے محبت جوکرتے ہیں۔مان ہی لیں گے۔
آپ کا مزید وقت نہیں لوں گا، خبر ہے، آپ کو اپوزیشن کے ممکنہ احتجاج سے نمٹنے کے لیے غور و خوص کرنا ہے، اُن کے دھرنوں، جلسوں سے نبردآزما ہونا ہے، آپ جی لگا کر تیاری کریں۔ حالات کو اپنے قابو میں رکھنا ضروری ہے ، پاکستان کی تاریخ گواہ ہے، جب جب حالات بگڑتے ہیں،عزیز ہم وطنوں پر بگاڑ نافذ ہوجاتا ہے اور پھر کئی سال تک رہتا ہے۔
ویسے مجھے آپ کے مخالفین سے مایوسی ہوئی۔ انھیں آپ ہی سے کچھ سیکھنا چاہیے تھا۔ آپ کو بھی تو 2013کے انتخابات پر اعتراضات تھے، مگر آپ نے کس شائستگی سے فقط چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا، کسی صبرکے ساتھ پورے سوا برس انتظار کیا، جب شنوائی نہیں ہوئی، تو دنیا کی تاریخ کا پرامن ترین دھرنا دے کر، 136 روز تک جاری رہنے والی لازوال تقریر کا ریکارڈ قائم کیا۔دوسری جانب آپ کے مخالفین ہیں، حلف نہ اٹھانے کی دھمکی کے ساتھ آغاز کر رہے ہیں۔
خیر، ان میں سے اکثریت کو تو نشست ہی میسر نہیں، حلف بھلا کیا اٹھائیں گے۔ نظر نہیں اٹھاسکتے۔ آپ کے ایک ہی وار نے انھیں سسٹم سے اکھاڑ پھینکا ۔ آپ کی جے ہو۔ درخواست اتنی ہے، اب اقربا پروری، بدعنوانی، انتقامی سیاست کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکیں۔ کراچی سے خیبر تک، سب نے آپ کے حق میں فیصلہ سنایا، سب کانچ کے سپنے آپ سے وابستہ ۔ سب پرنم نگاہیں آپ پر ٹکی ہیں۔
یہ ٹی 20 یا ون ڈے مقابلہ نہیں۔ ایک ٹیسٹ میچ ہے۔ آپ کو طویل اسپیل کروانے ہیں۔پانچ گھاٹیں عبور کرنی ہیں۔ غربت، شعبۂ تعلیم و صحت کی بدحالی، بدامنی اور بے روزگاری کو بچھاڑنا ہے۔
مخالفین پر آپ کو جتنی تنقید کرنی تھی، وہ آپ نے گزشتہ پانچ برس میں کر لی، اب تعمیر کی سمت قدم بڑھائیں۔
آپ کا خیرخواہ
نمک کا آدمی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“