کپڑے کی دکان پر خاتون کہتی ہے، اِس سے اچھا دکھاؤ۔
دکاندار چھوٹے کو آواز دیتا ہے۔۔۔ اِسی میں جو بڑھیا والا ہے، وہ لانا اوپر سے۔
لڑکا کچھ دیر میں اِسی کپڑے کا ایک اور تھان لے آتا ہے، دکاندار اس کی قیمت پہلے سے سو، دوسو زیادہ بتاتا ہے اور خاتون وہی پہلے والا کپڑا کچھ مہنگا لے کر خوشی خوشی گھر جاتی ہے۔
دکاندار نے بَڑھیا کہہ دیا، قیمت بھی زیادہ تھی۔ خاتون کو اطمینان ہوگیا کہ اچھا سودا کیا۔
ایسا ہی اطمینان انہیں "مشہور" برانڈ کے سوٹ لے کر ہوتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ وہ مشہور تو اشتہار بازی سے ہوئے ہوتے ہیں۔ اشتہار بازی لوگوں کے ذہن خریدنے کا فن یا سائنس ہے۔ اشتہار مشہور ضرور کرتے ہیں، معیار میں کچھ فرق نہیں لاتے۔ ہاں، مشہوری کیلئے تو اتنے ضروری کہ ڈالڈا کو بھی اشتہار دینا پڑتا ہے، حالانکہ کوئی ستر اسی سال سے ہر بناسپتی گھی ڈالڈا ہی کہلاتا ہے۔ لان کے اشتہار کا جادو یوں سر چڑھتا ہے کہ ان برانڈز کی خوبیاں خواتین خود تصنیف کرکر کے سناتی ہیں آخر ہزار ،ڈیڑھ ہزار کی چیز پانچ ہزار میں خریدنے کا گھر والوں بلکہ خود کو بھی کوئی جواز تو دینا ہوتا ہے۔
انہیں شاید یہ بھی گمان ہونے لگتا ہے کہ وہ یہ پہن کر اشتہار والی ماڈل جتنی خوبصورت لگیں گی۔ اور ماڈل کو اگلے سال کسی اور کمپنی سے زیادہ پیسوں کی آفر ہوجائے تو وہ پچھلے برانڈ کو ہاتھ بھی نہیں لگاتی۔ ہماری ماؤں بہنوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ صرف ایک بڑے اخبار میں صرف ایک دن کے اشتہار پر پانچ سے دس لاکھ روپے لگ جاتے ہیں ۔ پھر اتنے اخبار، ٹی وی اشتہار علیحدہ۔۔۔ اشتہاری مہم کروڑوں کی ہوجاتی ہے۔ اور ظاہر ہے یہ ساری رقم قیمت میں شامل کردی جاتی ہے اور خواتین کے اطمینان کا باعث بنتی ہے۔
اب ٹرمز چل رہی ہیں برانڈڈ اور لوکل۔۔۔۔ گویا جنہیں برانڈڈ کہا جارہا ہے، وہ غیر ملکی ہیں۔ جنہیں آپ لوکل کہہ رہے ہیں، برانڈ تو ان کا بھی کوئی نہ کوئی ہوتا ہے، بس اشتہار بازی نہ ہونے کی وجہ سے مشہور اتنے نہیں ہوتے۔ یہ زائد خرچ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے بنانے والے نسبتا" کم نرخ پر بیچ سکتے ہیں۔ ورنہ کپڑا اور ڈیزائن تو آپ کے سامنے ہوتا ہے۔ اچھا لگ رہا ہے تو اچھا ہی ہے، چاہے بہت مشہور برانڈ کا ہے یا کم مشہور کا۔ نہ زیادہ مشہور برانڈ والے دیسی گھی ڈالتے ہیں نہ کم مشہور والوں کی ( بقول ام مریم لائلپوری) ناک بہہ رہی ہوتی ہے۔
زیادہ اچھی پراڈکٹ دینا نئی اور غیر معروف کمپنی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے کہ لوگ متاثر ہوں، وہ اسے یاد رکھیں، ساکھ بنے اور اگلے سال فروخت زیادہ ہو۔ مشہور برانڈز کی تو وہ مثال ہوتی ہے جیسے کہتے ہیں شیورلٹ کار پٹرول نہ بھی ہو تو ایک دو کلومیٹر ساکھ کے سہارے بھی چل جاتی ہے۔
لان وغیرہ کے سلسلے میں اچھا نظر آنا ، اچھا لگنا ہی کافی ہے۔ پائیداری تو بالکل irrelevant بات ہے۔ کون ہے جو مشہور برانڈ خریدتی ہے اور اگلے سیزن بھی وہی پہنتی ہے۔ پھر تو وہ کام والیوں کو دان ہوجاتے ہیں۔
پھر پائیداری تو اکتاہٹ بھی پیدا کرتی ہے۔ تین ہزار کی جوتی ڈیڑھ سال چلنے سے بہتر نہیں کہ اس عرصے میں ہزار ہزار والی نئے نئے ڈیزائن کی تین نئی جوتیاں لے لی جائیں۔
"