کنور ناراین کے بہانے …..
کنور ناراین چلے گئے .ہندی کا ایک قد آور شاعر پنچ تتو میں ولین ہو گیا …لیکن وہ اپنے پیچھے ادب کا ایسا انمول خزانہ چھوڑ گیا ہے ،جو ہماری ادبی وراثت کا حصّہ ہے .صدمہ اس بات کا ہے کہ ابھی ، اس پر آشوب ماحول میں کنور ناراین کی موجودگی ہمارے لئے طاقت ثابت ہوتی ..لیکن یہ بھی ہے کہ کنور اس سیاسی خوفناک فضا میں جیتے تو بھلا کیسے جیتے ..؟ انکا ایک انٹرویو یاد آ رہا ہے ….انٹرویو کے دوران وہ کہیں کھو گئے تھے ..پھر آھستہ سے بولے ..کھیلونگا آگ سے ..ایک بار پھر تاریخ نے ہمیں قید کر لیا ہے ..میری بھر پور نفرت کرنے کی طاقت ان دنوں کمزور پڑنے لگی ہے ..
لیکن وہ کس سے نفرت کرنا چاہتے تھے ؟
بعد میں اسی خیال کو انہوں نے اپنی ایک نظم میں پیش کیا —
میں عیسایوں سے نفرت کرنے چلا تو سامنے شیکسپئرآ گئے /
مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا
تو غالب سامنے آ گئے
میری بھر پور نفرت کرنے کی طاقت ان دنوں کمزور پڑنے لگی ہے
گیان پیٹھ انعام یافتہ کنور ناراین کی مشکل یہ تھی کہ بازار کا خوف اجگر کی طرح انھیں نگل رہا تھا .وہ ایک خاموش تماشایی بن گئے تھے ..وہ الفاظ سے جو کام لینا چاہتے تھے ،موجودہ سیاست میں ممکن نہیں تھا ..اس لئے انہوں نے اپنی ایک نظم میں خاموشی سے اعلان کیا ..
— بہت کچھ دے سکتی ہے کویتا
کیونکہ بہت کچھ ہو سکتی ہے کویتا
زندگی میں /
اگر ہم اسے جگہ دیں
جیسے پھلوں کو جگہ دیتے ہیں پیڑ
جیسے تاروں کو جگہ دیتی ہے رات
ہم محفوظ رکھ سکتے ہیں اس کے لئے
اپنے اندر ایک گوشہ
جہاں زمین اور آسمان
جہاں انسان اور خدا کے درمیان
فاصلہ کم سے کم ہو ..
کنور تو انسان اور خدا کے درمیان کے فاصلے کو ختم کرنا چاہتے تھے ..لیکن موجودہ سیاست نے انسان اور انسان کے درمیاں مذھب کا جو زہر گھول دیا ،اسے برداشت کرنا کنور ناراین جیسوں کے بس کی بات نہیں تھی
.
اب تو حال یہ ہے کہ سیاست گاہے تک آ گیی ہے ..جانوروں کی مذہبی تقسیم ہو چکی ہے .مسلمانوں کی ہلاکت اب عام ہے ،جس پر مرکزی حکومت کچھ بولنا بھی پسند نہیں کرتی .بابری مسجد کا فیصلہ لیا جا چکا ہے .ڈیجیٹل انڈیا کے خواب کو پورا کرنے کا ادھیکار سادھو سنیاسی ،یوگی بھوگی اور تانترکوں کو دیا جا چکا ہے .ہمارا ملک ١٥ وین صدی کے
آشرم میں نیے ہندوستان کا بھوگ لگا رہا ہے ..ساری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے .اور شعبدہ باز مسلم ہلاکت کے مہرے چل رہے ہیں .فسطائیت گاؤ رکشکوں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہے .
انہیں کون سمجھاہے کہ گاہے کا جتنا احترام ہندو کرتے ہیں ،مسلمان اس سے کم محبت نہیں کرتے …آپ گاہے کی پوجا کریں ،عبادت کریں ،یہ آپکا مسلہ ہے لیکن آپ مسلمانوں سے گاہے چھین لیں تو یہ خوفناک سازش ہے .کیونکہ دور دراز گاؤں ،یا پورے ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی آبادی کا انحصار بھی گاہے پر رہا ہے .یادووں یا گوالوں کے طرز پر صدیوں سے مسلمانوں کی بڑی آبادی گاہے کے روزگار سے وابستہ رہی ہے .گاؤں شہر کے نکڑ ،چوراہے ،ہائی وے ،گاؤں کی منڈیروں پر جس طرح گاؤ رکشکوں کے مسلح دستے مسلمانوں پر حملے کر رہے ہیں ،اس سے صاف ظاہر ہونے لگا ہے کہ آپ ملک کے کروڑوں مسلمانوں کو بے روزگار بنانا چاہتے ہیں .
راجستھان کے ضلع الور میں مسلم مویشی تاجروں پر حملہ بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ مسلمانوں کو خوش حال دیکھنا نہیں چاہتے .ان معاملوں میں پولیس تماشائی نہیں ہوتی بلکہ پولیس بھی مسلمانوں کا شکار کرتی ہے .کویی مسلمان روزگار کے لئے اگر گاہے یا بھینس لے کر جا رہا ہے تو اسے ہلاک کرنے کا حق آپکو کس نے دیا ؟
ہزاروں مناظر ہیں ،جنکی چیخ پورا ہندوستان سن رہا ہے .
مودی سن رہے ہیں .انکی کابینہ سن رہی ہے ..سارا عالم سن رہا ہے …
کنور ناراین بھی سن رہے تھے …لیکن انکی مجبوری تھی …کہ ..مسلمانوں سے نفرت کرنے چلا ..تو تو غالب سامنے آ گئے ….
وہ اس ماحول میں کیا کرتے .نوے سال کے ہو چکے تھے …چپکے سے شیکسپیر اور غالب کے دیس چلے گئے —
انکی ایک نظم کا اقتباس دیکھئے ..
کیا وہ ہاتھ
جو لکھ رہا /
اتنا ہی ہے ؟
جتنا دکھ رہا ہے
یا اس کے پیچھے بھی ایک ہاتھ ہے ..؟
کنور کو پتہ تھا کہ نہیں دکھنے والے ہاتھ نے گجرات کے رول ماڈل سے نکل کر ہندوستان کو اپنی لیبارٹری بنا لیا ہے …کہتے ہیں ،ان دنوں وہ اداس رہنے لگے تھے .وہ جانتے تھے ،بہت کچھ دے سکتی ہے کویتا ..لیکن یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ سچ بولنے والے کویوں کو وقت کی ایک خوگناک لیبارٹری میں یا تو قتل کیا جا رہا تھا یا خوف کے انجکشن لگاہے جا رہے تھے .
کنور کو دونوں صورتیں منظور نہیں تھیں ..وہ اٹھے اور غالب سے ملنے چلے گئے ..نفرتوں کا حساب لینے —
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔