سوال نمبر۱: سر آپ طویل عرصے سے جرمنی میں مقیم ہیں،جہاں کی زندگی پاکستان کی زندگی سے بے حد مختلف ہے۔آپ یورپ اور بالخصوص جرمنی میں اردو ادب کے معیار اور مقدار کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟
جواب: جرمنی سمیت یورپ میں معیاری اردو ادب کی صورتِ حال اچھی نہیں ہے۔مجلسی سطح کی رنگ بازی زیادہ ہے،شوبزکی چکا چوند نے سنجیدہ ادب سے بے تعلق کر دیا ہے۔بہت ہی سطحی قسم کا کام کرنے والے تقریبات کا انعقاد کرکے ’’عظیم‘‘بنے ہوئے ہیں۔میں تو ایک عرصہ سے یہاں کے منفی رویوں کے خلاف مسلسل لکھ رہا ہوں لیکن اب تو انڈوپاک میں بھی عمومی فضا ایسی ہی بنتی جا رہی ہے۔حال ہی میں میں نے ایک مضمون لکھا تھا’’جرمنی میں اردو کی بقا اور سماجی و ثقافتی حیثیت کا مسئلہ‘‘۔۔۔اس میں کھلے جعلی شاعروں سے قطع نظر کرتے ہوئے میں نے چند ایسے شعراء کے نام گنوائے تھے جو کم از کم وزن میں تو شعر کہتے ہیں۔بعد میں انہیں میں سے بعض شعراء کے بے وزن اشعار کا سامنا کرنا پڑا اور خود سے شرمندہ ہونا پڑا۔۔۔۔یہ اردو ادب کی عمومی صورتِ حال کا ذکر ہے۔باقی سنجیدہ اور بامعنی ادبی کام کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کے سب عام طور پر مروجہ تقریبات اور بے معنی ہجوم سے دور رہتے ہیں۔
سوال نمبر۲: آج کے دور میں جب ادبی رسائل مسلسل اپنی مقبولیت کھو رہے ہیں اور اسی سبب شعری اور نثری ادب کو نقصان پہنچ رہا ہے۔معیاری علمی،ادبی پروگراموں کا انعقاد بھی کم ہوتا جا رہا ہے۔اس وجہ سے نئی ادبی تصانیف کی پذیرائی نہیں ہوتی۔آپ کے نزدیک اس مسئلے کا کیا حل ہے؟
جواب:ادبی رسائل کی مقبولیت کم ہو رہی ہے اور بعض مدیران کی ساکھ بھی خراب ہو رہی ہے۔وجوہات بہت ساری ہیں۔کتب و رسائل کا مطالعہ کم سے کم تر ہوتا جا رہا ہے۔ان کے مقابلہ میں جدید میڈیائی یلغارمیں سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع سے لے کر ویڈیو کلپس تک مقبولیت کے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔ نظریات اور فکری مسائل کسی مدیر کا مسئلہ نہیں رہے ،ترجیحات میں مختلف النوع مفادات کا حصول شامل ہے۔اس تگ و دو میں اچھے ادبی رسائل بھی نمبر دو قسم کے ادیبوں کو اہمیت دے کر بہتر اور معیاری ادیبوں کو نظر انداز کرنے لگے ہیں،سو ایسے رویے رسائل اور ادبی کتب کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ادبی پروگراموں میں بھی پسند اور ناپسند کا معیار ذاتی مفادات اور ترجیحات ہیں۔اسی لیے ان کا معیار بھی گرتا جا رہا ہے۔ان مسائل کا کوئی حل نہیں کیونکہ جو اصل حل ہے وہ موجودہ اردوادبی معاشرے میں نافذ کرنا بہت مشکل ہے۔
سوال نمبر۳: ’’جدید ادب ‘‘ کو یورپ اور امریکہ میں ایک موقر ادبی مجلے کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ابلاغ کے جدید ذرائع نے اس مجلے کی مقبولیت میں کیا کردار ادا کیا ہے؟
جواب:آپ کے پہلے توصیفی جملے کو آپ کی ذاتی رائے سمجھتا ہوں،مجھے ایسا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔میں نے اپنے ذوق وشوق کے مطابق ایک ادبی رسالہ جاری کیا اور بس۔۔۔ہاںابلاغ کے جدید ذرائع نے بہت فائدہ پہنچایا۔پہلا فائدہ تو یہ کہ میں پورا رسالہ ان پیج فائل میں خود ہی سیٹ کر کے پریس میں بھیجتا تھااور اس پر میری مدیرانہ گرفت پوری طرح قائم تھی۔انٹرنیٹ پر جدید ادب کی فراہمی نے بھی بہت فائدہ پہنچایا۔علمی حلقوں میں جدید ادب کی بڑی سطح پر پذیرائی ہوئی۔مثلاََ آن لائن جدید ادب کے بعض مضامین سے استفادہ کرکے مصر کی ایک یونیورسٹی کے ریسرچر ہانی السعید نے مجھ سے رابطہ کیا اور میرا جی پر اپنا مقالہ مکمل کرنے میں تعاون چاہا۔اسی طرح پاکستان سے ساجدہ پروین نے میراجی پر پی ایچ ڈی کی تو جدید ادب کے آن لائن میرا جی نمبر سے استفادہ کیا اور اپنے مقالہ میں اس کا بھر پور اور طویل ذکر بھی کیا۔جدید ادب پر اورخود میرے بارے میں بعض یونیورسٹیوں میں جو کام ہوا ان میں سے بیشتر کے ریسرچرز نے براہِ راست مجھ تک پہنچنے سے پہلے مجھے انٹرنیٹ پر ڈھونڈا اور پڑھا اور بعد میں رابطہ کیا۔سو جدید ادب کی اور مجھ گنہگار کی قبولیت میںجدید ذرائع ابلاغ کا بہت بڑا حصہ شامل ہے اور یہ سراسر اللہ پاک کے فضل وکرم کا نتیجہ ہے۔پاکستان میں ہوتا تو شاید ان جدید ذرائع ابلاغ تک رسائی کے قابل ہی نہ ہوتا۔
سوال نمبر ۴: جدید ادب کا آغاز ۱۹۷۸ء میں ہوا،جو ۱۹۸۶ء تک پاکستان سے شائع ہوتا رہا۔اس رسالے کی جرمنی سے اشاعت کا کچھ حال بتائیں گے؟
جواب:پہلے جدید ادب کو جرمنی سے ۱۹۹۹ء میں شائع کرنے کی کوشش کی۔تب میں انٹرنیٹ کے معاملہ میں بالکل اناڑی تھااور ان پیج سے بھی ابھی شناسائی نہیں ہوئی تھی۔چنانچہ جرمنی سے اپنا جمع شدہ میٹر پاکستان میں بھیج دیتا تھا۔وہاں کے دوست وہاں کا میٹر ملا کر اسے اپنے حساب سے ترتیب دے دیتے تھے۔تب صرف دو شمارے نکالنے سے ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ رسالہ میری مدیرانہ سوجھ بوجھ سے کافی مختلف لگ رہا ہے۔چنانچہ پھر رسالہ بند کردیا۔۲۰۰۳ء تک جب ان پیج سے بھی کچھ شناسائی ہو گئی اور انٹرنیٹ کی بھی کچھ سمجھ آ گئی تب میں نے جدید ادب کا نئے سرے سے اجراء کیا۔ شروع کے دو شمارے تجرباتی نوعیت کے رہے تاہم بعد میں رسالے پر میری ادارتی گرفت قائم ہو گئی،اور میں اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق رسالہ جاری کر سکا۔
سوال نمبر ۵: کسی زندہ ادبی شخصیت پر خاص نمبر کا اجراء اور سب سے پہلے انٹرنیٹ پر کسی ادبی رسالے کی فراہمی،پھر نت نئے ادبی مباحث میں شرکت،ادبی معرکہ آرائیاں،ان سب حوالوں سے خود کو اور جدیدادب کو کس مقام پر دیکھتے ہیں؟
جواب: جدیدادب خان پور کے زمانے میں جوگندر پال نمبر شائع کیا تھا۔صرف اس کے بارے میں کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا کے کسی زندہ ادیب پر پاکستان سے چھپنے والا پہلا نمبر تھا۔باقی دو سجاد ظہیر نمبر اور میرا جی نمبرتھے جو دونوں کے صد سالہ یومِ پیدائش کی مناسبت سے شائع کیے گئے۔ان نمبرز کے علاوہ متعدد سینئر اور نئے لکھنے والے شاعروں اور ادیبوں کے گوشے شائع کیے۔جدیدادب جرمنی میں ڈاکٹر وزیر آغا کے لگاتار دو گوشے شائع کیے۔باقی یہ تو بہر حال جدید ادب کا اعزاز ہے کہ پہلا ادبی رسالہ تھا جو بیک وقت انٹرنیٹ پر بھی دستیاب تھا اور کتابی صورت میں بھی موجود تھا۔
جی ہاں بعض ادبی مباحث اور ادبی معرکہ آرائیاں بھی ہوئیں۔یہ سب کچھ علمی و ادبی زبان میں ہو اور دلائل اور شواہد کے ساتھ ہو تو ادب کے لیے نیک فال ہے۔سوچ کے نئے در وا ہوتے ہیں۔یہ مباحث جدید ادب خان پور کے پہلے شمارے سے شروع ہوئے اور آخر تک ہوتے رہے۔بلکہ بعض مباحث ہی معرکہ آرائی کا رنگ اختیار کر گئے۔ان ساری سرگرمیوں سے جہاں علم میں اضافہ ہوا وہیں خود کو متحرک رکھنے کی توفیق بھی ملی۔ادب میں پاکستانیت کے مسئلہ سے لے کر ڈاکٹر گوپی چند نارنگ صاحب کے سرقات تک جدید ادب میں جو کچھ چھپا وہ اب ادبی تاریخ کا حصہ ہے۔مجھے اطمینان ہے کہ جدید ادب کواور مجھے ادب کی غیرجانبدار اور ایماندارتاریخ اچھے لفظوں میں یاد کرے گی۔
سوال نمبر ۶:جدید ادب کے شماروں کے تنقیدی جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وقت کے تقاضوں کے مطابق اس کی پیش کش میں جدت لانے کی کوشش کی ہے۔
جواب: میں آپ کی اس بات کو یوں کہہ لیتا ہوں کہ جیسے جیسے وقت کے ساتھ میرا ادبی شعور بہتر ہوتا گیا،اس کے اثرات میری تحریروں میں بھی آتے گئے اور جدید ادب کی ادارت میںبھی وہ ادبی شعوردکھائی دیتا رہا۔تاہم اپنی پہلی ادبی محبت ڈاکٹر وزیر آغا سے میں نے نہ تو کسی خاص سن میں اپنی راہ الگ کی اور نہ ہی ان کی وفات کے بعد ان کی محبت سے منکر ہوا ۔ان کا ذکر اور ان کا حوالہ میرے لیے ہمیشہ اعزاز رہے گا۔
سوال نمبر ۷: آپ نے پاکستان میں بھی اور پاکستان سے باہر بھی مشقت سے بھری ہوئی عملی زندگی گزاری ہے۔اور اسی دوران ادب کی تخلیق،تنقیداور تحقیقی کام کے علاوہ ادارت کی مشقت سے بھی گزرے اور تمام شعبوں میں کامیابیاں حاصل کیں۔اپنی ان کامیابیوں کے بارے میں کیا کہیں گے؟اور ان کامیابیوں میں کس کے عمل دخل کو زیادہ تسلیم کرتے ہیں؟
جواب:جی مشقت بھری عملی زندگی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے میری حیثیت سے کہیں زیادہ ادبی کام کرنے کی توفیق دی ہے،سو یہ سراسر اللہ تعالی کا فضل و احسان ہے۔اس کے بعد اگر دیکھوں تو امی،ابو کی دعائیں،ماموں ناصر کی ہمت افزائی اور میری اہلیہ مبارکہ کی ہر قدم پر ساتھ دینے کی وفائیں،میرے سارے علمی و ادبی منصوبوں کی تکمیل کا باعث ہیں۔مبارکہ نے خان پور کے زمانے میں جدید ادب کے لیے اپنا سارا زیور دے دیا تھا۔بعد میں اللہ تعالیٰ نے پہلے سے بھی زیادہ زیور عنایت کر دیا۔اب مبارکہ کی وفات کے بعد ان کا سارا زیور جیسے مجھے تکتا رہتا ہے اور ان کے پیچھے سے جیسے مبارکہ کی آواز آتی ہے کہ جدید ادب کے چند اور شمارے نکال لو،میں ہوں نا!۔۔۔۔لیکن اب میں نے اس زیور کو سنبھال کر رکھا ہے اور تقسیم طے کر دی ہے کہ میری وفات کے بعد یہ میرے خاندان کی کن بچیوں کو کس حساب سے دے دیا جائے۔معذرت چاہتا ہوں مبارکہ کی وفات ابھی حال ہی میں ہوئی ہے اسی لیے تھوڑا سا جذباتی ہو کر موضوع سے کچھ ہٹ گیا ہوں۔
سوال نمبر۸:جدید ادب کے بعض شماروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے ادب میں سرقہ کے خلاف قابلِ ذکر کام کیا۔پھر ادب کے نام پر منفی کام کرنے والوں کو بھی آپ نے آڑے ہاتھوں لیا۔یہ ساری جدوجہد آپ کو کیسی محسوس ہوئی؟
جواب:ادب میں جعل سازی اور سرقہ دونوں کے خلاف میں نے مسلسل کام کیا ہے۔بعد میں اندازہ ہوا کہ طاقت ور لوگ اپنی جھوٹی ساکھ قائم رکھنے کے لیے اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ مافیا کاروپ دھار لیتے ہیں۔جعلی لوگوں سے لے کر ادبی سارقوں تک سب نے جیسے مافیا جیسا نیٹ ورک بنا رکھا ہے۔مجھے خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں مطمئن ہوں کہ میں نے بعض برائیوں کے اندھیروں کے مقابلہ میں اپنے حصے کی ایک نہیں ،کئی شمعیں جلائی ہیںجو ادب کی تاریخ میں روشن رہیں گی۔
اب احساس ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ جیسے بری طرح کرپشن کے کینسر میں مبتلا ہے ویسے ہی ادبی دنیا میں بھی اس کے اثرات موجود ہیں۔میں اس کینسر کا علاج نہیں کر سکا لیکن میں نے یہ تو ظاہر کر دیا کہ ہمارا ادب مذکورہ برائیوں کے حوالے سے کینسر کی کس سٹیج پر ہے۔تو میری طرف سے میرا اتنا کام بھی کافی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔