کانٹ اور حضرت ابراھیمؑ والی قربانی
عظیم جرمن فلاسفر عمانوئیل کانٹ حضرت ابراہیمؑ کی قربانی پر یہ اعتراض اٹھاتا ھے کہ جب یہووا خدا نے ابراہیم سے کہا کہ میرے لیے اپنی سب سے پیاری چیز کو قربان کر دو تو حضرت ابراہیمؑ کو چُھری پکڑ کر خدا کا حکم پورا کرنے کی بجائے اسی وقت خدا سے یہ سوال کرنا چاہیئے تھا کہ اے خدا! تُو مجھے امتحان میں کیوں ڈال رھا ھے؟ تُو تو علیم ھے اور ھر چیز کا جاننے والا ھے، تو پھر یہ آزمائش کیوں؟
ابراہیمؑ کا اپنے بیٹے اسحاق یا اسماعیل کے گلے پر تیز دھار چُھری چلانے کا عمل کانٹ کے نزدیک انسانوں کے حوالے سے ایک غیر اخلاقی عمل ھے۔ اور ایسا صرف اور صرف ایک کوتاہ نظر، دماغی عارضے میں مبتلا سرسام کا مریض ھی کر سکتا ھے۔ ابراہیمؑ نے اپنے سگے بیٹے کے گلے پر چھری چلا کر خدا کی جانب تو اپنی ذمہ داری پوری کر لی تھی مگر خدا سے سوال نہ کرکے نوع انسانی کی جانب اپنی ذمہ داری سے انحراف کیا تھا۔ جسے اگر انسانیت کا عظیم جرم کہا جائے تو بے جا نہ ھو گا۔
ایک اور فلسفی دریدا نے اپنی کتاب "دی گفٹ آف ڈیتھ" میں کانٹ کے اس نکتے کو بہترین انداز میں اٹھایا ھے۔ اور انسانی حمایت کو اوّلیت دیتے ھوئے کہتا ھے کہ اگر ایک پیغمبر، خدا سے یہ درخواست کرتا کہ مجھے اس آزمائش میں مت ڈالو، تو یہ ان کا انسانیت پہ بہت بڑا احسان ھوتا۔ دریدا کی دلیل یہ ھے کہ ایک کی جانب ذمہ داری کی تکمیل دوسرے کی جانب غیر ذمہ داری کی شرط پر ھی ممکن ھے۔ یا تو آپ خدا کو رکھ لیں یا انسانیت کو۔ اور اگر ابراہیم ؑ ایک زیرک اور دور اندیش نبی ھوتے تو آج معصوم اور بے زبان جانور ایک فضول وحشیانہ رسم کے نام پر یوں قربان نہ ھوتے۔ جب کبھی انسانیت قائم رہ کے اپنی معراج پر پہنچے گی، تو بیشک ھزاروں سال سے جاری جانوروں کا قتل حضرت ابراہیم ؑ کے سر ھی تھوپا جائے گا۔ اور انہیں ایک شفیق باپ کی بجائے ایک ذہنی مریض کہہ کر پکارا جائے گا۔
#میربَبَّرعلی ممبر پوسٹ گریجویٹ ریسرچ لائبریری
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“