کہنے والے کہتے ہیں کہ مسجد وزیرخان کے مینار پر سرزد ہوئی گستاخی کے کارن مہاراجہ رنجیت سنگھ اور مائی موراں کو جان کے لالے پڑ گئے تھے کہ انہیں مسجد کے احاطے میں دفن میراں بادشاہ سید محمد اسحاق گزرونی کی بددعا لگ گئی تھی۔
لاہور پر سکھوں کی حکومت کی بسم اللہ مسلمانوں پر بہت بھاری پڑی تھی۔ لاہور کی تمام مساجد بشمول بادشاہی مسجد یا تو اصطبل بنادی گئی تھیں یا پھر گولہ بارود کے ڈپو۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ شہر لاہور کے سر سے اللہ اکبر کی صداؤں نے اپنا آنچل اُٹھا لیا تھا۔
صرف ایک مسجد اپنی اصل شکل میں برقرار تھی، دہلی گیٹ والی مسجد وزیر خان، مگر وہاں سےبھی اذان کی صدا بلند نہیں ہوتی تھی کہ مہاراجہ نے اس مسجد کو اپنے شغلِ ناؤ نوش و دیگر مشاغل کے لیے منتخب کرلیا تھا۔
رنجیت سنگھ کےدربار کی لکھت پڑھت کافی بہترحالت میں مختلف واسطوں سے ہم تک پہنچتی ہے۔
دربار کی کارروائی پر مبنی فارسی کے کچھ تراشوں کو کرنل گیرٹ اور جی ایل چوپڑا نے ایک کتاب کی شکل میں ڈھالا تھا، نام تھا ’ایونٹس ایٹ دا کورٹ آف رنجیت سنگھ : 1817 ۔ 1810‘۔ یہاں ہمیں خوشحال سنگھ درباری کی زبانی 1811 کی ایک سہانی صبح کا ذکر ملتا ہے
جب مہاراج بہادر دہلی گیٹ کے قرب میں ایک ناچ گرل یعنی طوائف کے بیٹے کی شادی کی تقریب سے محظوظ ہونے تشریف لائے تو مسجد وزیرخان میں ایک بلند مقام پر شاہی نشست بنائی گئی۔ مورخ کمال ڈھٹائی سےلکھتا چلا جاتا ہے کہ مہاراجہ موصوف اسی نشست سےدن چڑھے تک شراب اور مجرےدونوں سے شغل فرماتے رہے
ہمارے پڑھنے والوں کو یقیناً اس میں گستاخی کا عنصر نظر آیا ہوگا، ہمیں بھی آیا ہے۔ ضرور کوئی مصلحت رہی ہوگی کہ مولویان و مُلاّنِ لاہور خاموش رہے۔ غالباً اسی خاموشی کی شہ پاکر مہاراجہ اور پہلی مسلمان مہارانی نے مسجد کے ایک مینار پر ایک نیا چاند چڑھا دیا۔
یہاں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پہلی مسلمان مہارانی سے کچھ تعارف حاصل کرلیا جائے۔
اگر آپ واہگہ بارڈر پر ہیں توواہگہ ۔ اٹاری کی چوکی سے شمال کی سمت پاک بھارت سرحد اک افقی خط کھینچتی لگ بھگ چھ کلومیٹر کے بعد پل کنجری جا پہنچتی ہے۔
گئے وقتوں میں یہ لاہور سے سفر کرتے مہاراجہ اور درباریوں کے قافلے کا پڑاؤ یعنی سفری قیام گاہ تھی۔ گزرے وقت کی نشانیوں میں سےایک بارہ دری اور ایک تالاب کچھ کچھ ثابت کچھ شکستہ آج بھی ماضی میں بیتے شاہی پڑاؤ کی کہانیاں کہتے ہیں۔
___
picture by Sukhpreet Singh | Flickr
تو صاحبو کہتےہیں کہ شیرِ لاہور رنجیت سنگھ جبکہ ابھی جوان تھا امرتسر کے نواحی گاؤں کی طوائف موراں کا اسیر ہوا کہ جب وہ ناچتی تو مورنی کا سا سماں باندھتی اور اسی بارہ دری کےایک در سے مہاراجہ ایک وارفتگی میں اسے دیکھتا۔
رنجیت سنگھ کےلاہور سےباہر کےاس سفری پڑاؤمیں مہاراجہ کی ہردلعزیزطوائف موراں بہ انتظام خاص لاہورسےیہاں بلوائی جاتی۔ ایک ایسی ہی محفلِ رقص وسرودمیں شرکت کی بےتابی میں موراں جوذراتیزقدم ہوئی توبراہواس سبک خرامی کاکہ پاؤں کاایک جوتا راستےمیں پڑتےبرساتی نالےکے کٹھور پانیوں کی نذرہوگیا کہنےوالےکہتے ہیں کہ مہاراجہ کےحکم پرموراں کےراستےمیں حائل ہونے والےاس نالے پر ترنت ایک پلیا تعمیرکروائی گئی۔ صاحب سچ کڑواہوتاہے اورزبانِ خلق بھی۔ موراں اور مہاراجہ کا زمانہ تو بیت گیا مگر یہ جگہ آج بھی ایک طوائفانہ سہولت کے پیش نظرتعمیرکی گئی پلیا کےحوالے سے پل کنجری کہلاتی ہے۔
ہماری موراں طوائف بعد میں مہاراجہ کے حرم میں پہلی مسلمان مہارانی بنی۔ تاریخ میں موراں کا ذکر خال خال ہی ملتا ہے۔ کچھ حقیقت اور کچھ کہانی کے روپ میں چلی روایتیں ہیں جو رنجیت سنگھ کی موراں سے محبت کا ذکر کرتی ہیں اور بتلاتی ہیں کہ امورِ سرکار میں موراں کو کچھ خاص دخل تھا۔
مگر صاحب سب کچھ یقین کرنے لائق تو نہیں ہوتا۔ راویِ رنگین بیاں تو یہ بھی روایت کرتے ہیں کہ رنجیت سنگھ نے اپنی منظورِ نظر طوائف کے اعزاز میں سکہ بھی جاری کیا تھا۔ تفصیل اس کی کچھ یوں بنتی ہے کہ نانک شاہی روپیہ جو امرتسر کی ٹکسال میں ڈھلتا تھا اس کے پڑے رُخ پر کی چھپائی میں ایک بڑی تبدیلی کرتے ہوئے پتوں کی شاخ کو بیری کی جھاڑی دار ٹہنی سے بدل دیا گیا۔ یہ سکے بیر شاہی روپیہ کہلانے لگے۔ لگ بھگ انہی دنوں میں نظر بچا کے بیری کے پتوں کے بالکل نیچے ایک مور کی شبیہہ ڈھالی گئی۔ گویا سکھ دربار نے مہاراجہ کی منظورِ نظر مہارانی کوسرکاری قبولیت کا درجہ دے دیا۔
یہ موراں شاہی سکے بازار میں آتے ہی پکڑے گئے اور خالصہ پنتھ نے انہیں سکھ مذہب کی گستاخی تصورکرتے ہوئے مہاراجہ کو طلب کرلیا۔ ایک تو موراں شاہی روپیہ ختم کرکے ٹکسال دوبارہ نانک شاہی ڈیزائن ڈھالنے لگی …
___
picture:
@SikhCoins
اور دوسرا کہنے والے کہتے ہیں کہ اس توہین کی پاداش میں رنجیت سنگھ کو اکال تخت میں کوڑوں کی سزا ملی۔ مہاراجہ کی پیٹھ پر کوڑوں کے نشان پڑے یا نہیں یہ موضوع ہماری اس کہانی سے لگّا نہیں کھاتا تو ہم واپس مسجد وزیر خان کے مناروں کو پلٹتے ہیں۔
مہاراجہ کو موراں سے انسیت تو تھی مگر دربار سے باہر بھرے بازار میں رنجیت سنگھ کی اپنی مسلمان مہارانی سے، معاف کیجیےگا شہوت بھری چھیڑ خانی کے چرچے تھے۔ ایک دن اسی مستی بھری چھیڑخانی میں دونوں، یعنی مہاراجہ اور مہارانی مسجد وزیر خان کے ایک مینار پر چڑھ گئے اور تاریخ کہتی ہے کہ اہالیانِ لاہورایک محبوب مسجدکےاونچےمینارپرنامناسب دست درازی کےچشم دیدگواہ بن گئے۔کچھ کےلیےتو یہ جنسی حرکت ایک قابلِ گرفت دست درازی تک ہی محدود رہی مگرہمارےلاہورکے قصہ گومجیدشیخ بتاتےہیں شاہ اوربادشاہ بیگم نےکچھ دن اور رات مسجدکوحجلۂ عروسی بنائےرکھا۔
pic: http://blog.chughtaimuseum.com
مہاراجہ خالصہ پنتھ کی گستاخی کے بعد اب اسلام کی گستاخی کا مرتکب ہوا تھا اور مائی موراں اس میں برابر کی شریک تھی۔ اہالیانِ لاہور کی صفوں میں جو بے چینی پھیلی سو پھیلی کہتے ہیں کہ اس حرکت کے بعد مہاراجہ اور مہارانی کے جسموں میں کچھ ایسے مروڑ اُٹھے کہ جان کے لالے پڑگئے۔
صاحبانِ کشف کے ہاں یہ مسجد وزیر خان کے احاطے میں مدفون فارس کے پیر گزرونی کی بددعا تھی۔ کچھ یہی خبر دربارکے جوتش بھی لائے اور کہتے کہ بادشاہ اور بیگم دونوں تائب ہوئے۔ رنجیت سنگھ نے مسجد وزیر خان کی بحالی کے احکامات کے ساتھ مسجد میں غریبوں کے لیے لنگر کھولنے کا حکم بھی دیا۔
ہماری مہارانی نے نیت کی کہ وہ لاہور میں ایک عالیشان مسجد کا ڈول ڈالے گی۔ تو یوں سکھی دربار کی دولت سے دہلی گیٹ سے شاہ عالمی کی طرف ایک مسجد تعمیر کی گئی۔
اگر آپ اندرون لاہور میں لوہاری دروازے سے داخل ہوتے ہیں تو کوچہ کبابیاں کے ساتھ ہی پرانے وقتوں کا چوک چکلہ ہے۔
اس کے ساتھ ہی جو تنگ سی گلی شاہ عالمی کی طرف نکلتی ہے چوک چکلہ بازار کہلاتی تھی۔ یہیں شہر لاہور کا سب سے پہلا بازارِ حسن آباد ہوا تھا اور ہماری موراں طوائف اسی چوک چکلہ بازار کی رہائشی تھی۔ بعد میں قلعہ آباد ہوا تو شاہوں کی سہولت کی خاطر بازارِ حسن قلعے اور مسجد کی چھاؤں میں ٹبی بازار کو سدھار گیا۔
صاحبو ہمیں بازارِ حسن سے کیا لینا تو واپس پرانے چوک چکلہ بازار کو پلٹتے ہیں۔ بازار کی یہ گلی جہاں شاہ عالمی کی قربت کو پہنچتی ہی وہیں گزرے وقتوں کی ایک مسجد آج بھی کھڑی ہے۔
لوگ اسے مسجد موراں سرکار کہتے ہیں۔
___
picture:
@aliusman739
لاہور کے تاریخ شناس سید لطیف ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک اونچائی پر بنائی اس مسجد کےایک طرف دکانیں اور دوسری طرف درویشوں اور طالبعلموں کے لیے حمام اور رہائشی کمرے بھی تھے۔ مسجد کے جنوبی دروازے کے ماتھے کا جھومر تاریخِ تکمیل کا پتہ دیتی ایک رباعی درج تھی۔
___
picture:
@aliusman739
بفضل ایزد دا رائے افلاک
جو موراں مسجدے اراست بر خاک
بتاریخ بنایش گفت ھاتف
شدہ تعمیر للہ مسجد پاک
اپنی تعمیر کے دنوں میں لوگوں نے اسے طوائف والی مسجد کہا۔ صاحبو وہ بھلے وقت تھے لوگوں کو ان کے پیشے سے پکارے جانے پر نہ تو جذبات مجروح ہوتے تھے اور نہ ہی ایمان۔ آج کے لوگ اسے مسجد موراں سرکار کے نام سے یاد کرتے ہیں
اور تو اور چوک چکلہ بازار کا نام پاپڑ منڈی رکھ چھوڑا ہے۔ گئے وقتوں کا ہمارا چوک چکلہ شرعی داڑھی رکھ چکا ہے اور ایک دستارفضیلت اوڑھ آج کا چوک بخاری ہے۔
پُل کنجری پر بھی سرحد پارکےلوگوں کےجذبات مجروح ہوتےتھے تو انہوں نےاسےپُل موراں کہناشروع کردیا۔ مگرصاحبو ہمارےلیےتو آج بھی پرانےنام ویسےہی تروتازہ ہیں کہ ان کےدم سےیہ کہانیاں زندہ ہیں۔
کل کاپُل کنجری آج کابھی پُل کنجری ہے۔ فرق یہ ضرور ہےکہ کل کا شاہی پڑاؤ آج کاایک سرحدی گاؤں ہے جہاں اب ہندوستانی سرحدی چوکی ہے۔ صاحبو بہت دن نہیں گزرے کہ پُل کنجری کے معرکے میں دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے ہوئی تھیں اور کچھ یاد رہ جانے والی لڑائی لڑی گئی تھی۔ کچھ دن اور کہ ہم اپنے پڑھنے والوں کو پُل کنجری سے شجاعت کی ایک داستان سنائیں گے۔
فی امان اللہ۔
___