کندھے پہ سر رکھنا منع نہیں ہے۔
اپ نے سفر کے دوران کسی نہ کسی کو کسی کو اسکے پاس والی سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص کے کندھے کا سہارا لیتے ہوئے تو ضرور دیکھا ہوگا۔ اور وہ کندھا محبوب کا شوہر کا باپ کا بھائی کا دوست کا یا پھر اجنبی ہمسفر مسافر کا بھی ہوسکتا ہے۔ اسوقت میں اپنے جگری یار یاسر کو لیکر اپنے دوست الفت قریشی کی شادی میں شرکت کرنے کیلئے ہری پور جارہا ہوں یاسر کی انکھ لگ چکی ہے اور اسوقت آرام سے میرے کندھے پر سر رکھ کر سو رہا ہے۔
یاسر میری دعوت پر کل میرے پاس پشاور آیا ہوا ہے۔ میں نے اور یاسر نے اسلام آباد میں ہاسٹل لائف میں بہت اچھا وقت ساتھ گزارا ہے اسی لیے یاسر کو بہت عرصے بعد اپنے پاس پاکر میں بہت خوش ہوں۔ اور اسی خوشی میں ہم رات دیر تک گپیں شپیں مارتے رہے پھر کچھ دیر کیلئے ہم نے موبائل ہاتھ میں تھام لیا۔ میں تو یار دوستوں کے پیغامات کے جواب دینے کے بعد سو گیا لیکن یاسر نجانے کس کے ساتھ لگا رہا۔ خیر لگا تو میں بھی رہتا ہوں لیکن وہ میری صحت کا بہت خیال رکھتی ہے اس لیے اسکے کہنے پر میں تو جلدی سوگیا۔
خیر یہ تو نجی باتیں ہیں ان باتوں کو یہی چھوڑییے۔ میں آج سفر کے حوالے سے اہم تجربات میں سے ایک اہم خوشگوار تجربے پر بات کرنے لگا ہوں۔ اکثر سفر پر مجھے نیند کی شکایت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں کالے چشمے لگا کر سوجاتا ہوں تاکہ باہر کی روشنی انکھوں پر اثر انداز نہ ہو۔ کچھ دن پہلے ایک فوتگی پر مجھے اپنے گاؤں کرک جانا ہوا۔ میں نے ماسک پہن لیا اور کالے چشمے لگا دیئے۔ ماسک اس لیے کہ گردوغبار سے محفوظ رہوں۔ کیونکہ گرمی کیوجہ سے ادھا شیشہ کھلا رکھا تھا کیونکہ کمبخت نے اے سی نہیں چلایا تھا اور اگر پیٹرول ایک روپے بھی مہنگا ہوجاتا ہے تو یہ سارے کمبخت کرایہ زیادہ وصول کرنے لگ جاتے ہیں لیکن اے سی نہیں چلا کے دینگے۔ بہرحال چونکہ میں مسلسل چوبیس گھنٹوں سے جاگ رہا تھا اس لیے میں نے سفر میں نیند کرنے کا من بنا لیا۔ کوچ کی فرنٹ سیٹ پر ہم دو مسافر ایک دوسرے کیلئے اجنبی تھے۔ لیکن نیند آنے کے باعث میں نے سیٹ کی پشت پر سر رکھ لیا۔ اور انکھیں بند کرلیے۔ پشاور سے درہ ادم خیل کب پہنچے مجھے معلوم نہیں ہوسکا۔ لیکن اس دوران میرا سر سرکتا ہوا اجنبی ہمسفر کے کندھے پر آرام کررہا تھا۔ درہ آدم خیل میں چیک پوسٹ کیوجہ سے میرے ہمسفر اجنبی نے مجھے اٹھایا۔ شناختی مرحلے کے بعد جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں نے اجنبی ہمسفر سے معذرت کی اور اسے بتایا کہ میں مسلسل چوبیس گھنٹوں سے جاگ رہا ہوں اس لیے انکھ لگ گئی اور نجانے کب اپکے کندھے پر سر رکھ گیا۔
اس نے خوشدلی سے میری معذرت رد کی۔ بہرحال یہ پہلی بار ایسا ہوا کہ میں نے سفر میں کسی کے کندھے پر رکھا حالانکہ اکثر سفر میں میرا کندھا میری سیٹ کے دائیں بائیں بیٹھے ہوئے اجنبی ہمسفر کے لیے حاضر ہوتا ہے۔
سفر پر جانے والوں میں سے کچھ تو میری طرح رات کی ڈیوٹی کرکے سفر پر نکلے ہوتے ہیں یا پھر بیشتر صبح سویرے جاگنے کیوجہ سے کم نیند لینے کے باعث نیند کی آغوش میں چلے جاتے ہیں جبکہ انہیں یہ احساس اچھی طرح سے ہوتا ہے کہ سفر میں کوئی جیب پر ہاتھ بھی صاف کرسکتا ہے۔ لیکن تھکاوٹ کے اگے انسان بے بس ہوتا ہے۔ اور جب گاڑی چلتی ہے تو ماں کی گود میں پڑے رہنے جیسا احساس ہونے لگتا ہے جس میں جھولے بھی پڑتے ہیں اور ہوا کا شور لوری کا کام بھی کرتی ہے۔ اور یہ سب انسان کو نیند کی دنیا میں لیجانے کیلئے کافی ہوتا ہے۔ اس لیے اکثر ایسے ہمسفر مسافروں کیلئے میرا کندھا حاضر ہوتا ہے اور میں انکی نیند کا خیال کرتے ہوئے ہلتا ویلتا بھی نہیں ہوں تاکہ انکی نیند خراب نہ ہو اور اس دوران میں انکی جیبوں پر تحفظ کی نظر بھی رکھتا ہوں کہ اس پار کا مسافر کہیں میرے کندھے کا سہارا لینے والے مسافر کا سارا سفر بے مزہ نہ کر دے۔
اور آخر میں سب سے اہم بات کرتا چلوں کہ ہم اس دنیا میں نظریات اور خیالات میں اختلاف ہونے کے باعث ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں اور اسی بنا پر ہم ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتے پر سفر ہی ایک واحد ایسا ذریعہ ہے جہاں ہم سب پہلی بار ایک دوسرے سے کچھ گھنٹوں کیلئے ملتے ہیں اور پھر کبھی نہ ملنے کیلئے ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ جب کبھی بھی کوئی اجنبی ہمسفر میرے کندھے پر سر رکھتا ہے تو میں سوچنے لگتا ہوں کہ اگر اس اجنبی ہمسفر کی سوچ سے میں اگاہ ہوتا اور اسکی سوچ سے اختلاف کے باعث کیا میں اس کیلئے اپنا کندھا حاضر کر پاتا؟
تو میرا دل مجھے جواب دیتا ہے کہ بلکل اگر میں اپکی ہر بات سے نفرت کروں اور اپکو روئے زمین پر بوج قرار دوں تو پھر بھی میرا کندھا اپ کے سر کیلئے تکیے کا کام کریگا۔
ایسا کیوں ہوتا ہے ہم میں سے بیشتر مسافر ایسا کیوں سوچتے ہیں میرے خیال سے ہم سب مذہب قوم نسل زبان سے ہٹ کر ایک دوسرے کے اپنے ہیں۔ لیکن اس اپنائیت کا احساس ہم جیسوں کو شاید سفر میں ہوتا ہے کیونکہ جب اپ تھک جاتے ہیں تو اسکا مطلب اپ ایک معصوم پاک بچے کی مانند نظر اتے ہیں اور اپ پر ظاہر ہے پیار ائیگا اور یہ پیار عمر کو نہیں دیکھتا کہ اپ بڑے ہیں یا چھوٹے اور یہی اس پیار کی خاصیت ہے اگر اپ چھوٹے بھی ہوئے تو تب بھی اپکو بزرگی کا احساس ہونے لگتا ہے بھلے اپکے کندھے پر کسی سفید ریش ہمسفر کا سر ہی کیوں نہ پڑا ہو جو سیٹ کی پشت سے سڑکتا ہوا اپکے کندے پر اکر دراز ہوگیا ہو۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔