کندھے پہ پڑی چادر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جمشید ناصر پنجاب یونیورسٹی کا طالب علم تھا اور اردو میں ایم اے کر رہا تھا۔ جمشید ناصر اپنے وقت کا بہتریں افسانہ نگار تھا ، ملک کے ادبی پنڈت اس کو اردو کا بہترین افسانہ نگار بنتا دیکھ رہے تھے ، شہر کی کوئی ادبی محفل ادبی اجلاس جمشید ناصر کے بغیر ناکمل سمجھا جاتا تھا ، جمشید ناصر جہاں بہترین افسانہ نگار تھا وہیں وہ بلا کا جملہ باز بھی تھا اس لیے یونیورسٹی کی بھی کوئی محفل اس کے بغیر ناکمل ہوتی ،
دوسرے شہروں سے آئے لوگ جہاں اسکے تازہ افسانے اپنے شہروں کو لے کر جاتے وہیں وہ اس کے محفلوں میں کہے جملے بھی تبرک کے طور پہ ساتھ لے کر جاتے تھے ۔ یونیورسٹی میں طالب علموں کی بنی ہر یونیں جمشید ناصر کو اپنی یونین میں شامل کرنے کی کوشش میں لگی رہتیں ۔ مگر جمشید ناصر بغیر کسی یونیں میں شامل ہوئے ان کو یونیں کے اجلاسوں اور جلسوں کے لیے اسکریپٹ لکھ کر دے دیتا ایسا اگر وہ بائیں بازو کے نظریات رکھنے والی یونین کے لیے کرتا تو دائیں بازو کے نظریات رکھنے والی یونین کو بھی اسکریپٹ لکھ کر دے دیتا ۔
جمشید ناصر کی ایک اور خصوصیت اس کا لباس تھا ، کسی نے آج تک جمشید ناصر کو پینٹ کورٹ پہنے نہیں دیکھا تھا ، وہ ہر وقت سفید کرتا ۔ سفید پاجامہ اور کندھوں پہ سفید چادر ڈالے رہتا ، اس کا دائیں بازو چادر کے باہر ااور بائیں بازو ہمیشہ چادر کے اندر ہوتا ، وہ کلاس روم میں ، ادبی جلسوں میں اور اپنے کمرے میں ہر وقت اسی لباس اور چادر میں نظر آتا جہاں اس کا دائیں بازو چادر کے باہر اور بائیں بازو چادر کے اندر ہوتا ۔
اُن دنوں کلاس روم میں ،ہونیورسٹی کی کنٹین میں اور یونیورسٹی کے ساتھ بہنے والے نہر کے کنارے لڑکے لڑکیوں اکٹھے بیٹھنے اور ایک ساتھ ٹہلنے پہ پابندی نہیں لگی تھی حاتاکہ اسلامی جمعیت کے طالب عم بھی لڑکیوں کے ساتھ اکٹھے گھومتے نظر آتے تھے ، قانونی طور پہ تو آج بھی ایسی کوئی پابندی نہیں ہے مگر ضیا کے دور میں لڑکیوں کو لڑکوں کے ساتھ گھومنے پہ ان کے سر کے بال کاٹ دیے جاتے تھے ۔
زلیخا ان دنوں جمشید ناصر کے ساتھ اکثر گھومتی نظر آتی تھی ، اب زلیخا نے بھی جمشید ناصر کے ساتھ شہر کی ادبی محفلوں میں جانا اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا تھا ، اور ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دن یونیورسٹی کی کنٹین میں زلیخا نے پانچواں چائے کا کپ اور ساتواں سگریٹ پیتے جمشید ناصر سے کہا
،، جمشہد تم شادی کیو نہیں کر لیتے ؟ ۔۔ جمشید نے بغیر زلیخا کی طرف دیکھے کہا ،، مثلا کس سے کروں ؟ ۔۔ اور لیخا نے سگریٹ کا لمبا کش لیا اور کہا
،، مثلا مجھ سے ،، اور جمشید ناصر نے زلیخا کے ہاتھ سے سُلگتا سگریٹ پکڑا اور سگریٹ پینا شروع کر دیا ، جمشید ناصر نے زندگی میں اج پہلی بار سگریٹ پیا تھا اس کے بعد زلیخا جب بھی جمشید ناصر سے شادی کی بات کرتی جمشید اس سے سگریٹ لے کر پینا شروع کر دیتا۔
اور پھر ایک دن زلیخا جمشید ناصر کو اپنے گھر لے گئی تاکہ اُسے اپنے ماں باپ سے ملوا سکے ۔ اور پھر ایک دن زلیخا کے گھر والوں نے اپنے چند عزیزوں کو گھر میں بلوا زلیخا کی ماں نے بہت اعلی انگوٹھی خریدی اور جمشید ناصر کو گھر آنے کی دعوت دے۔
جمشید ناصر سفید کرتا ، سفید پاجامہ اور سفید چادر کندھے پہ ڈالے زلیخا کے گھر چلا گیا اور اس کا دائیں بازو چادر سے باہر اور بائیں بازو چادر کے اندر تھا ۔ اور جب زلیخا کے ایک بزرگ نے جمشید ناصر کو انگوٹھی پہنانے کے لیے جمشید ناصر کو بائیں ہاتھ آگئے کرنے کے لیے کہا اور جمشید ناصر نے جب چادر کندھے سے آُتاری تو پتہ چلا جمشید ناصر کا تو بائیں بازو ہی نہیں ہے ، بائیں بازو سے جوڑا جمشید ناصر کا تو بائیں ہاتھ ہی نہیں ہے اور جمشید ناصر کے بائیں ہاتھ کی تو کوئی انگلی ہی نہیں ہے جس میں انگوٹھی پہنائی جا سکے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“