ہماری عقل کا بڑا کام ہمیں آج زندہ رکھنا ہے، بھوک، پیاس، جذبات جیسے سگنلز کی شکل میں۔ پرانی چیز کو بھول جانا یا نئی چیز کا عادی ہو جانا بھی اسی کا نتیجہ ہیں۔ بھول جانا ایک طرف تو زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہے لیکن اس کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔ ہم دنیا میں جس دور اور جس جگہ پر آنکھ کھولتے ہیں، سمجھ لیتے ہیں کہ دنیا بس ایسے ہی ہے۔ تاریخ کو پڑھنے میں یا اپنے سے مختلف لوگوں کو جاننے میں بھی مسئلہ دماغ کے کام کرنے کی اسی طریقے سے ہے۔
بیسویں صدی کے شروع میں ایک وائرس نے دنیا میں تیس کروڑ انسان مار دئیے۔ آج تک ہونے والی تمام جنگوں میں ہونے والی تمام ہلاکتوں کو جمع کیا جائے تو بھی اتنی تعداد نہیں۔ آج یہ وائرس دنیا میں موجود نہیں۔ یہ چیچک تھی۔ پچھلی صدی کے درمیان پولیو سے دنیا میں موجود خوف و ہراس اتنا زیادہ تھا کہ ایک سروے میں لوگوں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا خوف اسے کہا۔ دنیا میں ایک آدھ جگہ کے علاوہ اس کو مٹا دیا گیا۔ انیسویں صدی میں شہروں میں ستر فیصد سے زیادہ آبادی کو ٹی بی ہو جایا کرتا تھا۔ امریکہ کی آبادی کا پندرہ فیصد سے زائد ٹی بی کے ہاتھوں مرتا۔ اب یہ بیماری ترقی یافتہ ممالک میں نہیں۔ ویکسین میڈیکل کا سب سے بڑا ہتھیار ہیں۔ یہ پرانی باتیں نہیں، پھر بھی اتنی جلد بھلا دی گئیں کہ مغربی دنیا میں بھی لوگ آسانی سے ان کے خلاف پروپیگنڈے کا شکار ہو کر ان کا استعمال کم کر چکے۔ کئی بیماریاں اب واپس آ رہی ہیں۔ جسے خود نہیں دیکھا تھا، وہ ذہن میں جگہ نہ بنا پایا تھا۔ کمزور یادداشت ہمیشہ فائدہ نہیں دیتی۔
قحط سے بڑی آبادیاں تباہ ہو جایا کرتی تھیں۔ دنیا بھر میں پورے علاقوں کا صفایا اس وجہ سے ہوا ہے۔ بنگال اور جنوبی ہند میں پڑنے والے قحط زیادہ پرانے نہیں۔ زراعت کے روایتی طریقے اتنی بڑی آبادی کو مسلسل سپورٹ کر ہی نہیں سکتے تھے۔ معمولی سا موسمی تبدیلی سب کچھ تباہ کر دیتی تھی۔ دنیا کی آبادی کا پہلا ایک ارب ہونے میں لاکھ سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور انیسویں صدی میں انسانوں کی تعداد پہلی بار ایک ارب ہوئی۔ اگلی ساڑھے چھ ارب تک ہم صرف دو سو سال میں پہنچے ہیں۔ پچھلے قحط بھول گئے۔ آج آرگینک فوڈ یا قدرتی طریقوں سے غذائیت لینے، جینیاتی تبدیلیوں سے تبدیل شدہ خوراک کے خلاف مزاحمت، مصنوعی طریقوں سے ڈر اس چکر کو الٹ کرنا چاہتا ہے۔ ہماری اجتماعی کمزور یادداشت کی وجہ سے یہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔
دنیا کو بس آج جیساسمجھنے کا اثر کئی اور جگہ نظر آیا۔ جب ہم نے دنیا کے ماضی کوسمجھنا شروع کیا تو علم ہوا کہ دنیا ہمیشہ سے ایسی نہ تھی۔ اس خیال کی ہماری سطحی عقل مزاحمت کرتی تھی۔ بڑے پیمانے پر اس کا مذاق اڑایا گیا۔ اس مزاحمت کو کری ایشنزم کا نام دیا گیا۔ (بعض اوقات اس کو کوئی مذہبی خیال سمجھا جاتا ہے لیکن اس کا تعلق مذہب سے نہیں، صرف ہماری عقل کی حد سے ہے)۔
ہم دنیا کے دوسرے حصوں یا زمانوں میں رہنے والوں کے بارے میں پڑھتے ہیں اور عقل کا بڑا اور سطحی حصہ ان سب کو اپنے موجودہ کانٹیکسٹ کے مطابق جج کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ذہن نے یہی کانٹیکسٹ سیکھا ہے۔ اپنے سے مختلف لوگوں یا ماضی کے لوگوں پر رائے زنی آج کے وقت اور اپنی جگہ پر بیٹھ کر کرنے والے، باقی لوگوں کو کمتر انسان سمجھ لیتے ہیں۔ اپنے سے مختلف کلچر کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ نسلی تفاخر، تعصبات اور بہت سی جنگوں کے پیچھے ہمارے ذہن کے کام کرنے کے اس طریقے کا ہاتھ ہے۔
جو تمام عمر دیکھا، اس سے ہٹ کر کچھ دیکھ لینا ہمیں چوکنا اور محتاط کر دیتا ہے۔ کیونکہ ہم نہیں جانتے کہ یہ محفوظ ہے کہ نہیں۔ دماغ کے کام کرنے یا یہ طریقہ ہمیں اپنی بقا کے لئے فائدہ دیتا ہے۔ حقیقت جاننا یا دنیا کو سمجھنا چھپا دیتا ہے۔ لیکن اس دوسرے حصے کا استعمال کرنے کے لئے بڑی کوشش کرنا پڑتی ہے۔
ساتھ لگی تصویر امریکہ میں ہونے والے ویکسین سے پہلے اور بعد کے بیماریوں کے اعداد و شمار ہیں۔