کچھ سال پہلے سنڈے ٹائمز آف لندن نے ایک تجربہ کیا۔ اس کے ایڈیٹروں نے کچھ ناولوں کے ابتدائی ابواب کے ہاتھ سے لکھے مسودے بیس پبلشر اور ان کے ایجنٹس کو بھجوائے۔ یہ وہ ناول تھے جو بُکر پرائز جیت چکے تھے۔ یہ پرائز عصری فکشن کا سب سے بڑا انعام سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک ناول نائیپال کا لکھا ہوا “اِن فری سٹیٹ” ادب کا نوبل انعام جیت چکا تھا۔ دوسرا سٹینلی مڈلٹن کا لکھا ہوا ناول “ہالیڈے” تھا۔ اگر ان کو پڑھنے والوں کو پتا ہوتا کہ یہ کس ناول کے باب ہیں تو یقینی طور پر اس سے متاثر ہوتے لیکن کوئی ان کو پہچان نہ سکا۔ تو پھر نتیجہ کیا نکلا؟ ان میں سے انیس نے ان کو ناقابلِ اشاعت کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ جس ایجنٹ نے ان میں سے مڈلٹن کا ناول قبول کیا تھا، اس نے نائیپال کے ناول کے بارے میں یہ تبصرہ بھیجھا، “ایک اچھی کوشش ہے اور منفرد کام ہے۔ اگرچہ کہ یہ اچھے معیار کی لکھائی ہے لیکن ایسا ادب پڑھنے والوں کی مارکیٹ نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ ہم اس پر آگے نہیں بڑھ سکیں گے۔”
جو ڈور صلاحیت اور کامیابی کو باندھتی ہے، وہ ڈھیلی اور لچک دار ہے۔ کامیاب کتابیں ہوں یا کامیاب لوگ۔ ان کی کامیابی کی وجوہات ڈھونڈنا اور ان کی صلاحیت کو سراہنا اس لئے آسان ہوتا ہے کہ وہ کامیاب ہیں۔ اپنے شعبے میں جدوجہد کرنے والوں میں ہمارے لئے یہ ڈھونڈنا آسان ہوتا ہے کہ ان میں کیا کسر رہ گئی، کیونکہ وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ صلاحیت کامیابی کی ضامن نہیں اور نہ ہی کامیابی کا مطلب خاص یا انوکھی صلاحیت کا ہونا ہے۔
یہ حقیقت کم افسوسناک نہیں کہ کسی بھی شعبے میں کامیاب ہونے والوں کو کوئی سپرہیرو سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ ہم کئی مرتبہ خود اپنے آپ کو جج کرنے کا معیار بھی کامیابی بنا لیتے ہیں۔ جان کینیڈی ٹول ایک مصنف تھے۔ ان کا ہر مسودہ ہر بار ریجیکٹ ہوتا رہا۔ انہوں نے بالآخر دلبرداشتہ ہو کر خودکشی کر لی۔ اس وقت تک انہوں نے ایک مسودہ ایک پبلشر کو بھجوایا ہوا تھا۔ یہ ان کی پہلی کتاب تھی جو شائع ہوئی لیکن اس وقت وہ اس دنیا میں نہیں رہے تھے۔ اس کتاب کا نام” کنفڈرسی آف ڈنسس” تھا اور یہ ایک بیسٹ سیلر تھا۔
اگر کسی کو بھی جج کرنے کا معیار کامیابی سے زیادہ صلاحیت اور کوشش بنانا مشکل ہے کیونکہ کامیابی نظر آتی ہے۔ کامیاب ہونے کے جو گُر ابھی تک پتا لگے ہیں، ان میں سے سب سے بڑا وہ ہے جس کی مدد سے ٹیکنالوجی کمپنیوں نے پچھلی دو سے تین دہائیوں میں نہ صرف ٹیکنالوجی کو، بلکہ معیشت اور بزنس کو بھی یکسر بدل کر رکھ دیا ہے۔ اس کا ایک سطر میں خلاصہ آئی بی ایم کے تھامس واٹسن کی طرف سے، “اگر کامیابی کا امکان بڑھانا ہے، تو ناکامی کا ریٹ دگنا کرنا ہو گا۔”
مستقبل کی ہم ٹھیک ٹھیک پیشگوئی نہیں کر سکتے اور اس کو کنٹرول تو بالکل بھی نہیں۔ ایک چیز ہمارے ہاتھ میں ہے۔ ہم کامیاب ہونے کا امکان بڑھا سکتے ہیں۔ صرف یہ طے ہے کہ کامیابی ہاتھ پر ہاتھ دھرنے والے کے لئے نہیں۔ کامیاب ہونا کسی کو یا اپنے آپ کو جج کرنے کا معیار بھی نہیں۔ اور اگر آپ خود کامیاب ہیں تو اس میں بھی آپ کا اتنا کمال نہیں جتنا آپ کا خیال ہے۔ بری قسمت کے نہ ہونے کا سب سے زیادہ ہے۔ حادثہ، بیماری، جنگ یا قحظ کی غیرموجودگی تو اس کامیابی کے ہونے کے امکانات کی لڑی کی صرف ابتدا تھی۔
یہ اس کتاب سے
Drunkard’s Walk by Leonard Mlodinow