تاریخ بتاتی ہے کہ جب انسان غاروں میں قبائل کی صورت میں رہتا تھا تو اسے بار بارمخالف قبائل اور درندوں سے مقابلہ کرنا پڑتا تھا۔ جب ایسا موقع سامنے آتا تو اس کے اندر کی تمام توانائی ابھر آتی تھی، اس کے اندر ایک لاوا ابل پڑتا تھا اور وہ فتحیابی کے حصول کے لیے دیوانہ وار لڑتا تھا۔
اس کے بعد زرعی دور آیا تو قبائل اقوام میں بدل گئے، بڑی بڑی سلطنتیں وجود میں آئیں اور ان کے درمیان بڑے پیمانے پر جنگیں جاری رہیں۔ ایک طویل عرصہ جنگ وجدل میں مصروف رہنے کی وجہ سے فاتح ہونے کی خواہش انسان کی فطرت کا حصہ بن گئی۔
اب وہ دور گزر چکا ہے اور دنیا نسبتاً امن کی منزل حاصل کر چکی ہے۔ لیکن مقابلہ اور فتح حاصل کرنے کی جبلت ابھی تک انسان میں زندہ ہے۔ اسی فطری خواہش کی تکمیل کے لیے مختلف گیمز منعقد ہوتی ہیں جن میں خون خرابہ کیے بغیر دو گروہ فاتح کا حظ حاصل کرنے کے لیے مقابلہ کرتے ہیں۔
ان گروہوں کے پیچھے اقوام کی ہمدردی ہوتی ہے، لوگ دعائیں مانگ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی ٹیم کو فتح میسر ہو اور جب کھیل میں جیت ہو جائے تو جشن منائے جاتے ہیں اور ہار نصیب ہو تو پوری قوم اداس اور پژمردہ ہو جاتی ہے۔
اگر تمثیلی انداز میں دیکھا جائے تو دیگر تمام کھیلوں کی نسبت کبڈی کا کھیل ایسا ہے جو انسانی زندگی سے بہت مماثلت رکھتا ہے۔ دو ٹیموں کے درمیان ایک لکیر حدفاصل کے طور پر کام کرتی ہے۔ دونوں اطراف سے ایک کھلاڑی اس لکیر کو عبور کر کے مخالف میدان میں قدم رکھتا ہے تو کچھ علم نہیں ہوتا کہ وہ وہاں سے فتحیاب ہو کر لوٹے گا یا پھر ناکامی اس کے دامن کو تارتار کر کے واپس بھیجے گی۔
انسانی زندگی میں بھی یہی صورتحال ہے۔ لکیر کی ایک طرف کمفرٹ زون ہے جہاں تحفظ اور آسائش موجود ہے، اسی لکیر کی دوسری جانب خطرات سے بھرپور نامعلوم مستقبل ہے جس میں قدم رکھنے کی صورت میں بہت بڑی کامیابی بھی مل سکتی ہے اور انتہائی درجے کی ناکامی بھی نصیب ہو سکتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر لوگ لکیر عبور کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔ وہ اپنے ہی میدان میں رہتے ہیں۔ وہ کمفرٹ زون کو توڑنے کی کوشش نہیں کرتے، ذلت بھری ملازمت میں پھنسے رہتے ہیں، دم توڑتے کاروبار کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ناکام رشتوں کی اداسیوں میں گھرے رہتے ہیں مگر لکیر کی دوسری جانب قدم رکھنے کی جرات نہیں دکھاتے۔
دنیا کے امیرترین افراد میں شامل ایلان مسک نے ایک انٹرویو میں بتایا تھا کہ اس کی کامیابیاں تو دنیا کو نظر آ رہی ہیں مگر اس دوران اسے جتنی ناکامیاں ہوئی تھیں وہ سب سے چھپی رہتی ہیں۔
آپ اپنے اردگرد موجود کسی بھی انتہائی کامیاب انسان کی زندگی کا جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ اس نے بار بار خطرے کی لکیر عبور کی ہے، کئی بار وہ ناکام واپس لوٹا ہے لیکن جب وہ فتحیاب ہو کر واپس آتا ہے تو اس کی زندگی میں کئی پوائنٹس بڑھ چکے ہوتے ہیں جن کی بدولت وہ اپنے ساتھیوں سے بلند تر رہتا ہے۔
ایسے لوگ نت نئے تجربات کرنے سے نہیں گھبراتے، وہ اپنا کمفرٹ زون بار بار توڑتے ہیں، سٹیٹس کو کا بوسیدہ لباس انہیں نہیں بھاتا، وہ ناکامیوں سے نہیں گھبراتے۔ کبڈی کے کھلاڑی کی طرح بار بار لکیر عبور کرکے نامعلوم مستقبل میں قدم دھرتے ہیں اور اس بہادری کے نتیجے میں وہ دیگر انسانوں سے ممتاز ٹھہرتے ہیں۔
فرض کریں کہ کبڈی کھیلنے والی ایک ٹیم لکیر عبور کرنے سے یکسر انکار کر دے تو اس کا نتیجہ ہار کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔ مخالف ٹیم کو واک اوور مل جائے گا۔
زندگی بھی اسی طرح کام کرتی ہے۔ جب تک نامعلوم سمندروں کی غواصی نہ کی جائے، لہروں کے تھپیڑوں سے نہ ٹکرایا جائے، طوفانوں سے نہ کھیلا جائے، بڑی کامیابیاں نصیب نہیں ہوتیں۔
اگر رشتوں کی بات کریں تو وہاں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ایک خونخوار، اخلاقیات سے عاری باس اور کمزور دل ملازم کے درمیان انتہائی غیرمتوازن رشتہ ہوتا ہے۔ ایک کے پاس اختیار کا زعم اور نقصان پہنچانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے تو دوسرے کے دامن میں مالی نقصان کا خوف، ملازمت چھن جانے کے اندیشے اور عزت نفس کی مستقل پامالی کے واقعات پڑے ہوتے ہیں۔
زیادہ تر افراد اسی بے جوڑ رشتے کے دھاگوں میں الجھے تمام عمر بتا دیتے ہیں۔ ہر وقت کا ذہنی دباؤ انہیں نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے، بال وقت سے پہلے جھڑ جاتے ہیں، جسم کو طرح طرح کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں مگر وہ لکیر کے اس پار جانے کی ہمت نہیں کرتے۔ وہ ملازمت ترک کر کے کچھ عرصہ کی تکلیف برداشت کرنے سے گھبراتے ہیں، نامعلوم کا خوف ان کے حواس پر اسقدر طاری رہتا ہے کہ وہ زندگی پر طاری جمود کی چادر اتار پھینکنے کی جرات سے محروم رہتے ہیں۔
یہی صورتحال دیگر کئی رشتوں میں ہے جن میں اذیتوں کی تیزابی بارش جسم کے ایک ایک حصے کو جلاتی رہتی ہے مگر جرات رندانہ کی کمی کے باعث وہ اسی کرب میں پوری عمر بتا دیتے ہیں۔ زبان شکوے کرتی رہتی ہے مگر ذات کے اندر پھیلے خوف کے گھمبیر سائے لکیر عبور کر کے نئی زندگی کی شروعات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔
کاروبار کرنے والے اشخاص ہوں، شہرت کی رنگینیوں میں مست افراد ہوں یا سیاست کے راہگزر کے مسافر، ان تمام میں وہی عروج پر جاتے ہیں جو نت نئے رستے تلاش کرنے کی جرات رکھتے ہیں۔ وہ ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں کو ترک کر کے صحرا کے تپتے میدانوں میں نکل جاتے ہیں، ہموار پگڈنڈیوں کو ٹھکرا کر پتھریلے رستوں اور پھسلن سے بھری چٹانوں کا رخ کرتے ہیں۔ وہ خوف کی اس لکیر کو عبور کر لیتے ہیں جو دیگر انسانوں کے حواس پر طاری رہتی ہے۔
اس نئے سفر میں کچھ عرصہ تکالیف بھی برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ صحرا میں نخلستان کی تلاش سراب کی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں، کٹی پھٹی چٹانوں پر چلتے ہوئے قدم بھی زخمی ہو جاتے ہیں مگر وہ حوصلہ نہیں ٹوٹنے دیتے، وہ نامعلوم سے گھبراتے نہیں بلکہ اس کی جستجو میں مست و مگن رہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں انہیں انعام بھی بہت بڑے ملتے ہیں، کامیابیاں بھی غیرمعمولی نصیب ہوتی ہیں اور سرفرازیوں کے تاج بھی انہی کے سر پر سجتے ہیں۔
اخلاقیات کے میدان میں یہی بات صاد آتی ہے۔ جو لوگ کامیابی کے شارٹ کٹ تلاش کرنے کے شائق ہوتے ہیں وہ اس لکیر کو چھو کر واپس لوٹ آتے ہیں۔ وہ مادی مفادات کے حصول کے لیے رشتوں کو قربان کردیتے ہیں، دوستوں کو دغا دیتے ہیں، سازشوں کے جال بنتے ہیں اور معمولی کامیابیوں پر راضی ہو جاتے ہیں۔ وہ لکیر کی اپنی جانب کھیل رہے ہوتے ہیں۔
وہ مخالف ٹیم کے بجائے اپنے ہی ساتھیوں کے ساتھ پنجہ آزمائی شروع کر دیتے ہیں، اپنے دوستوں کو پچھاڑنے پر تل جاتے ہیں۔
اس کے برعکس جو شخص اخلاقی اصولوں کو اپنی ذات کا حصہ بنا لیتا ہے وہ اس وقت لکیر کے اس پار چلا جاتا ہے جب تھکے ہارے ساتھی اس مہم جوئی سے گریزاں ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ دنیا کے سامنے ہیرو کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ ان کے گلے میں ستائش کے ہار اور تحسین کی مالائیں پہنائی جاتی ہیں۔
ایسے نوجوان جو زندگی کے سفر کی تیاری کر رہے ہیں، انہیں یہ بات ذات کی گہرائیوں میں اتار لینی چاہیے کہ زندگی انہی کو نوازتی ہے جو خطرات سے کھیلنے میں لطف محسوس کرتے ہیں، جو نامعلوم کا خوف نہیں پالتے بلکہ آگے بڑھ کر اسے خوش آمدید کہتے ہیں۔ رنگارنگ قسم کی وادیوں میں گھومنے والے کے پاس ایسا تجربہ آ جاتا ہے جس سے سیدھے رستوں پر چلنے والے محروم ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ تمام عمر ان کے کام آتا رہتا ہے اور اسی کی بدولت وہ اپنے ساتھیوں سے ممتاز اور منفرد ٹھہرتے ہیں۔ بڑی کامیابیوں کے حصول میں یہ تجربہ اس کا سب سے بڑا ساتھی ہوتا ہے۔
کبڈی کے میدان کی لکیر نامعلوم کے خوف کی لکیر ہے، حوصلے اور بزدلی کے درمیان ایک حدفاصل ہے جو کشتیاں جلانے کا حوصلہ رکھنے والوں کو کسی خوبصورت دوشیزہ کی طرح اپنی جانب بلاتی ہے۔ اس سے نہیں گھبرانا چاہیئے بلکہ دیوانہ وار اس سے ہمکنار ہو جانا چاہیئے۔
یہی جرات رندانہ ہے جو علی سدپارہ کو مرنے کے بعد بھی دنیا کے لیے ہیرو قرار دینے پر مجبور کر دیتی ہے، میجر عزیز بھٹی جیسے شیرجوان پیدا کرتی ہے، قائداعظم محمد علی جناح کی شکل میں مجسم ہوتی ہے اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے تاریخی کردار پیدا کرتی ہے۔