میں پری انجینئرنگ کا طالب علم تھا اکتوبر کے مہینے میں پیپروں سے تقریبا چھ ماہ پہلے میر ے پاس ایک سٹوڈنٹ آیا جس کا نام خرم شہزاد تھا(موجودہ پنجاب یونیورسٹی، کمیکل انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ میں پروفسیر) اس نے مجھے کہا کہ قاسم صاحب میں نے آپ سے فرسٹ ایئر کا میتھ کا پڑھنا ہے کیا آپ مجھے یہ پڑھا دیں گے میں ان دنوں فارغ تھا میں نے کہا کہ میں پڑھا دوں گا میں خود بھی اکیڈمی جاتا ہوں اکیڈمی جانے سے پہلے آپ میرے پاس آ جایا کرنا۔ایک مہینہ گزر گیا اس نے کہا کہ مجھے مزید پڑھا دیں میں نے اسے مزید ایک ماہ پڑھا دیا تیسرے ماہ اس نے پھر کہا آپ مجھے مزید پڑھا دیں کیونکہ مجھے سمجھ بہت آتی ہے اور آپ کے سمجھانے کا انداز بہت شاندار ہے میں نے اسے مزید پڑھا دیا۔ اسی دوران میرے سیکنڈ ایئر کے پیپر ہو گئے رزلٹ کے بعد میں انجینئرنگ کی تیاری کرنا شروع کر دی جبکہ خرم شہزاد سیکنڈ ایئر میں چلا گیا ۔
ایک دن خرم شہزاد دو تین سٹوڈنٹ لے کر میرے پاس آیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمیں پڑھا دیں میرے ساتھ یہ مسئلہ تھا کہ میرے گھر میں جگہ نہیں تھی ۔ گھر کا گیراج تھا جس میں تھوڑی سی جگہ تھی خیر میں گھر کی دو تین کرسیاں رکھ کر انہیں پڑھانا شروع کر دیا ۔ شروع کے دو تین سالوں میں صرف میتھ پڑھاتا تھا ہم پانچ یا چھ شیٹیں لگاتے اور اس میں کاربن پیپر رکھ لیتے میں انہیں سمجھاتا اور وہ لکھتے جاتے ۔ طالب علموں کی تعداد بڑھنے لگ پڑی ڈیڑھ سال کے اندر پچاس کے قریب طالب علم ہو گئے ساتھ ہی یہ مسئلہ آیا کہ کاربن پیپر والے طریقہ کار کا چلنا مشکل ہو گیا ۔ طالب علموں کے کچھ گروپ بن جاتے تھے میں ایک گروپ کو پڑھاتا جبکہ دوسرا گروپ انتظار کرتا تھا ایک ہی سوال کو میں کئی دفعہ کرواتا اس سے یہ ہوا کہ میرا وقت بہت زیادہ لگنے لگ پڑھا میں نے اس کا یہ حل تلاش کیا کہ میں نے ایک وائٹ بورڈ خرید لیا جو آج بھی میرے پاس موجود ہے دو بائی تین اس کا سائز تھا اس کو میں نے گیراج کے دروازے کے ساتھ لٹکا کر وائٹ بورڈ پر سمجھاناشروع کر دیا۔گروپ کی شکل میں میتھ کے طالب علم آتے اور پڑھتے اسی طرح یہ سلسلہ تین یا چار سال چلتا رہا ۔
جب طالب علموں کی تعداد سو سے زائد ہو گئی تو مجھے جس چیلنج کا سامنا کر نا پڑھا وہ جگہ تھی میں نے یہ کیا کہ میں نے گھر والوں کو درخواست کی کہ ڈرائینگ روم میرے حوالے کر دیں کیونکہ میں کچھ ٹیوشن سے میں کچھ کمانے لگ پڑھا ہوں میں چاہتا ہوں کہ میں پڑھاتا رہوں اور سا تھ ہی ساتھ پڑھتا رہوں ۔ میری والدہ کی طبیعت ذرا سخت ہے تو انہوں نے یہ طے کیا کہ شام کو ہمیں ویسے ہی ڈرائینگ روم چاہیے جیسا ہم نے صبح کے وقت تجھے دیا تھا میں ایک طویل عرصہ تک اس ڈرائینگ روم کو صاف کر کے اپنے گھر والوں کو دیا کرتا تھا ۔ اسی دوران کچھ فزکس کے طالب علم آنے لگ پڑے مجھے اس بات کا بہت جلدی پتا چل گیا کہ مجھے بات سمجھانے کی بہت اچھی صلاحیت ہے ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ کہاں میں میتھ پڑھاتا تھا اور کہاں میرے پاس ورائٹی آنے لگ پڑی جیسے سائیکالوجی کا گروپ بن گیا مجھے کسی نے کہا کہ آپ نے سائیکالوجی پڑھی ہوئی ہے میں نے جواب دیا نہیں اس نے کہا کہ پھر آپ کیسے پڑھاتے ہیں میں نے کہا جنہیں پڑھا رہا ہوں انہوں نے بھی نہیں پڑھی ہوئی اس کا مطلب ہے اگر میں سائیکالوجی پڑھ لوں تو میں پڑھا سکتا ہوں اس سے یہ ہوا کہ جو بھی مضمون ہوتا میں اسے پڑھتا ،تیار کرتا اور پڑھانے لگ پڑتا اور یوں طالب علموں کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہو گئی گھر کے لحاظ سے یہ تعد اد بہت زیادہ تھی ۔
(The Success Story of Qasim Ali Shah Academy)