ناکامی کامیابی کی پہلی سیڑھی ہوتی ہے ۔آپ میں سے اکثر لوگوں نے یہ جملہ سنا ہوگا ۔اور شاید کئی بار سنا ہو۔" لیکن کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ ناکامی کو کامیابی کی پہلی سیڑھی کیوں کہا جاتا ہے ؟۔ آج میں اپنے اس آرٹیکل میں اسی بارے میں بات کرنے جا رہا ہوں ،فرض کیجئے کہ آپ کو کہیں جانا ہے ۔لیکن آپ کو اپنی منزل کی طرف جانے کا صحیح راستہ نہیں معلوم ۔" آپ کی منزل کی طرف دس راستے جاتے ہیں ۔جس میں ایک راستہ صحیح ہے اور باقی کے نو راستے آگے جا کر ایک بند گلی پر ختم ہو جاتے ہیں ۔آپ منزل پر پہنچنے کیلئے کسی ایک راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔لیکن وہ آگے جا کر ایک بند گلی پر ختم ہو جاتا ہے ۔آپ کو مایوسی ہوتی ہے ۔کہ آپ ناکام ہوگئے ۔لیکن اصل میں آپ کامیابی کی پہلی سیڑھی چڑھ چکے ہوتے ہیں ۔آپ کے ذہن میں یہ خیال آیا ہوگا کہ وہ کیسے ؟۔ وہ ایسے جناب کہ اب آپ کو ایک راستے کا پتا چل چکا ہے ۔جو آپ کی منزل کی طرف نہیں جاتا ۔آپ ایک کے بعد دوسرے راستے کا انتخاب کرتے ہیں ۔لیکن وہ بھی غلط ہو جاتا ہے ۔دوسرے کے بعد تیسرے ، تیسرے کے بعد چوتھے ۔غرض آپ نو کے نو راستوں پر جاتے ہیں ۔لیکن آپ کو ہر بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہ وہ اسٹیج ہوتا ہے ،جب ہم میں سے اکثر لوگ مایوس ہو کر ہمت ہار دیتے ہیں ۔اور کوشش کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔ہم یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لیتے ہیں ۔کہ ہم پیدا ہی ناکام ہونے کیلئے ہوئے ہیں ۔اور کامیابی ہمارے مقدر میں ہی نہیں ۔جب کہ صرف ایک قدم کے فاصلے پر کامیابی کا صحیح راستہ ہمارا منتظر ہوتا ہے ۔جو ہماری منزل کی طرف جاتا ہے ۔ہم ناکام نہیں ہو رہے ہوتے ۔دراصل ہم ان نو راستوں کا کھوج لگا رہے ہوتے ہیں ۔جو ہمیں ہماری منزل کی طرف نہیں لے کر جاتے ۔جب بھی ہم ناکام ہوتے ہیں ۔ منزل سے تھوڑا اور قریب ہو رہے ہوتے ہیں ۔ ایڈیسن کے نام سے کون واقف نہیں ۔دنیا اسے بلب کے موجد کے طور پر جانتی ہے ۔جب اس نے بلب ایجاد کرنے کی کوشش کی تو وہ نو ہزار نو سو ،ننانوے ایسے راستوں پر گیا ۔جن کے آگے بند گلی تھی ۔جو اسے اس کی منزل کی طرف لے کر نہیں جاتے تھے ۔جب کہ دس ہزارواں صحیح راستہ اس کا منتظر تھا ۔جو اس کی کامیابی کا راستہ تھا ۔جی ہاں آپ نے بلکل صحیح سنا " ایڈیسن کو بلب بنانے کی کوشش میں نو ہزار نوسو ،نناوے بار ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا ۔ تب جا کر وہ کامیاب ہوا تھا ،اور آج دنیا اسے ایک مشہور موجد کے طور پر جانتی ہے ۔کسی نے اس سےایک بار پوچھا ۔کہ آپ بلب بنانے کی تقریبا دس ہزار کوششوں میں ناکام ہوئے ۔آپ مایوس کیوں نہیں ہوئے ۔ایڈیسن اس کا سوال سن کر دھیرے سے مسکرایا ۔اور بڑا ہی خوبصورت اور تاریخی جواب دیا۔ ایڈیسن نے کہا کہ "میں دس ہزار بار ناکام نہیں ہوا " بلکہ میں نے دس ہزار ایسے طریقے معلوم کئے جن سے بلب ایجاد نہیں ہوتا ۔
اسٹیفن کنگ ایک بہت ہی مشہور امریکی مصنف ہے ۔امریکا کے چوٹی کے کے رائٹر ز میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔شروع میں وہ بہت ہی غریب ہوا کرتے تھے ۔ اور انہیں بچپن سے ہی لکھنے کا شوق تھا ۔ وہ اپنی کہانیوں کو لکھ کر پبلیشرز کے پاس بھیج دیتے ۔لیکن ہر بار اس کی تحریر ریجیکٹ ہو کر واپس آ جاتی ۔اس نے دیوار پر کیل لگائی ہوئی تھی ۔جب بھی اس کا مسودہ ریجیکٹ ہو کر واپس آتا وہ اس کو اس کیل میں لٹکا دیتے ،اور ایک نئے سرے سے لکھنے کا ارادہ کر کے لکھنے بیٹھ جاتے ۔لیکن نتیجہ پھر بھی وہی نکلتا تھا۔ اس کا مسودہ ریجیکٹ ہو کر واپس آجاتا ۔اس کی لکھی تحریریں اس کثرت سے مسترد ہوئی کہ دیوار پر لگی ہوئی کیل ان سے بھر گئی ۔پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اس کے ایک ہی ناول نے اسے کروڑ پتی افراد کی صف میں لا کھڑا کیا ۔آج اسٹیفن کنگ کی آمدنی کا تخمینہ تقریبا 500 ملین ڈالر لگایا جاتا ہے ۔پاکستانی روپوں میں یہ رقم کتنی بنے گی یہ آپ خود ہی حساب لگا لیجئے۔اسٹیفن کنگ کی کتابوں کی اب تک 350 ملین سے بھی زیادہ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں ۔یہ سب کیوں ممکن ہو سکا ،کیونکہ انہیں ناکامی مایوس نہیں کرتی تھی ۔وہ ناکامی کا مطلب جانتے تھے ۔کہ کامیابی کی طرف ایک قدم ۔اگر وہ ناکامیوں سے مایوس جاتے تو کہیں گمنامی پڑے تنگ دستی کی زندگی گزار رہے ہوتے ۔آئیے میں آپ کو ایک اور کہانی کی طرف لے چلتا ہوں ۔ مشہور زمانہ"کے ایف سی۔" کے نام سے تو آپ سب لوگ ہی واقف ہونگے ۔اور آپ میں سے کئی لوگوں نے "کے ایف سی "چکن کھائے بھی ہونگے ۔لیکن کیا آپ لوگ جانتے ہیں کہ "کے ایف سی " کمپنی کیسے وجود میں آئی ۔نہیں جانتے تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں ۔یہ کہانی ہے "کے ایف سی (کینٹکی فرايڈ چکن) کے بانی کرنل ہارلے سینڈرس کی ۔ کرنل سینڈرز کی زندگی میں سب سے زیادہ دلچسپ موڑ اس وقت آیا جب انہوں نے 65 سال کی عمر میں اپنا ریسٹورنٹ بند کیا۔ ساری زندگی محنت کرنے کے بعد عمر کے اس پڑاؤ پر انہوں نے دیکھا کہ ان کے پاس بچت کے نام پر کچھ نہیں ہے اور وہ بالکل غریب ہیں۔ 65 سال کی عمر میں انہوں نے ریستوران میں تالا لگایا اور ریٹائرمنٹ لے کر آرام کی زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اسی وقت انہیں سوشل سیکورٹی کے تحت ملنے والی رقم کا پہلا چیک ملا جس نے ان کی زندگی ہی بدل ڈالی۔ شاید ان کی قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ پنشن میں ملی اس 105 ڈالر کی رقم سے تو ان کی شہرت اور اقتصادی خوشحالی کی ایک نئی عبارت لکھی جانے والی تھی۔ اس رقم نے ان کی زندگی کو تبدیل کر دیا اور انہوں نے کچھ ایسا کرنے کی ٹھانی جس نے انہیں مستقبل میں بین الاقوامی سطح پر مشہور کر دیا۔ کرنل سینڈرز کھانے کھلانے کے شوقین انسان تھے اور ایک بہت ہی اچھے میزبان تھے۔ وہ بہت لاجواب فرائيڈ چکن بناتے تھے اور تمام ملنے والے ان کے پكائے اس چکن کے مرید تھے۔ زندگی کے 65 موسم بہار دیکھنے کے بعد جب زیادہ تر لوگ آرام کی زندگی جینے کی خواہش رکھتے ہیں ایسے وقت میں کرنل سینڈرز نے کچھ نیا کر دکھانے کی ٹھانی۔ انہوں نے طے کیا کہ وہ اپنی طرف سے تیار کئے گئے فرائیڈ چکن کھانےکوآگے لوگوں تک تک متعارف کروائیں گے ۔لیکن لوگوں تک اپنی ڈشز کو پہنچانا ان کیلئے آسان مرحلہ ہرگز ثابت نہیں ہوا۔اس کیلئے انہیں دن رات ایک کرنا پڑا۔شروع شروع میں کرنل سینڈرز نے اپنے علاقے کے ہر گھر اور ریستوران کے چکر لگائے اور لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے چکن کے بارے میں بتایا۔ سانڈرس کو امید تھی کہ انہیں کوئی تو ایسا ساتھی ملے گا جو ان کے اس چکن کے حقیقی ذائقہ کوپہچانےگا اور اسے دوسروں تک پہنچانے میں اس کی مدد کرے گا لیکن انہیں مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ دھن کے پکے اور فطرت سے ضدی سانڈرس نے ابتدائی جھٹکوں سے ہار نہیں مانی اور لوگوں کو چکن کا ذائقہ چكھوانے کا دوسرا راستہ ڈھونڈا وہ اپنے گھر سے نکل کر شہر کے مختلف ہوٹلوں میں جاتے اور وہاں کے باورچی خانے میں اپنا فرائیڈ چکن کھلاتے ،پسند آتا تو وہ اس ہوٹل کے مینو میں شامل ہو جاتا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں سانڈرس کو پہلے ہوٹل مالک سے '' ہاں 'سننے سے پہلے 1009 لوگوں سے'نہ'سننے کو ملی تھی، لیکن اتنا ہونے کے بعد بھی انہوں نے ہمت نہین ہاری۔ جی ہاں اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ 1009 لوگوں نے ان کے فرائیڈ چکن کو مسترد کردیا تھا ۔جس کے بعد ایک شخص نے ان کے چکن کا ذائقہ چکھا تو اسے وہ بہت پسند آیا ۔اس کے بعد "کے ایف سی" کا سلسلہ شروع ہوا۔ہوٹل کے مالک اور کرنل سینڈرز کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کے کرنل سینڈرز کو ہر چکن کے بدلے "پانچ"سینٹ ملیں گے ۔ اور اس طرح کرنل کے بنائے فرائیڈ چکن مارکیٹ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ لیکن یہ تو صرف آغاز تھا۔ اس چکن کو پکانے میں کیا مصالحے استعمال ہو رہے ہیں اس راز کو راز رکھنے کے لئے کرنل نے ریستوران میں مصالحے کا پیکٹ بھیجنا شروع کر دیا۔ اس طرح سے وہاں انکا چکن بھی بن جاتا اور دوسروں کو ان کے رازکا بھی پتہ نہیں چلا۔ وقت کا پہیا گھوما اور سال 1964 آتے آتے کرنل کا بنایا چکن اتنا مشہور ہوگیا کہ اس قت تک 600 مقامات پر اس چکن کی فروخت ہونے لگی تھی ۔اسی سال شہرت کی چوٹی پر کرنل سینڈرز نے "کے ایف سی کو " تقریبا 20 لاکھ ڈالر کی موٹی رقم کے عوض فروخت کر دیا ۔ لیکن وہ خود کمپنی کے ترجمان کے عہدے پر رہے۔ سانڈرس کے بنائے چکن سے انہیں اتنا نام ملا کہ سال 1976 میں انہیں دنیا کے سب سے زیادہ اثردار شخصیات کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رکھا گیا۔ اس طرح کرنل نے دنیا کو دکھایا کہ 65 سال کی عمر میں جب زیادہ تر لوگ ریٹائر ہو کر گھر میں بیٹھنے کی تیاری کر لیتے ہیں تب بھی اگر کبھی نہ ہار ماننے کا حوصلہ رکھ کر کام کیا جائے تو کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔