بلاشبہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موڑ پر انسانی زندگی کی رہنمائی کی، زندگی کا ہر پہلو آپ کی تعلیم و تربیت، اخلاق و کردار سے پر ہے آپ کے تعلیمات زندگی کے ہر موڑ کیلئے مشعل راہ ہیں کامیاب ہے وہ شخص جس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو سامنے رکھ کر زندگی گزاری ، ذیل میں کچھ کامیابی کے راز بیان کئے جارہے ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کے ہی فرمودات ہیں،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ اعمال وہ ہیں جن پر ان کا صاحب مداومت اختیار کرے،
اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا حکم دیا ہے، ارشاد باری ہے (مفہوم) آپ دین پر اسی طرح مستقیم رہئے جس طرح آپ کو حکم دیا گیا اور وہ لوگ بھی مستقیم رہیں جو کفر سے توبہ کرکے اپ کے ساتھ ہوگئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقررہ حدود سے نہ نکلو کیونکہ وہ تمہارے سب اعمال دیکھ رہا ہے،
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو استقامت کی ترغیب دینے کے ساتھ ساتھ امت کو بھی استقامت کی تعلیم دی ہے،
استقامت کا مفہوم۔۔۔۔ استقامت کے معنی سیدھا کھڑا ہونے کو ہے جسمیں کسی طرح ذرا سا بھی جھکاؤ نہ ہو، ظا ہر ہے یہ کام آسان نہیں کسی لوہے، یا پتھر وغیرہ کا انجینیر کا ماہر ایک مرتبہ اس طرح کھڑا کرسکتے ہیں کہ اس کے ہر طرف زاویۂ قائم ہی رہے کسی طرف ادنی میلان نہ ہو، لیکن کسی متحرک چیز کا ہر وقت ہر حال میں اس حال پر قائم رہنا کس قدر مشکل کام ہے،
استقامت لفظ چھوٹا سا ہے مگر اس کا مفہوم ایک عظیم الشان وسعت رکھتا ہے کیونکہ اس کے معنی ہیں کہ انسان اپنے عقائد، عبادات، معاملات، اخلاق، معاشرت، کسب معاش اور اس کی آمد و صرف کے تمام ابواب میں اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود کے اندر اس کے بتلائے ہوئے راستہ پر سیدھا چلتا رہے ان میں سے کسی باب کے کسی عمل یا کسی حال میں کسی ایک طرف جھکاؤ یا کمی یا زیادتی ہو جائے تو استقامت باقی نہیں رہتی،
دنیا میں جتنی گمراہیاں اور خرابیاں آتی ہیں وہ سب اسی استقامت سے ہٹ جانے کا نتیجہ ہے عقائد میں استقامت نہ رہے تو بدعات شروع ہوکر کفر و شرک تک نوبت پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ کی توحید اس کی ذات و صفات کے متعلق کے متعلق جو معتدل اور صحیح اصول آپ علیہ السلام نے بیان فرمائے اس میں افراط و تفریط یا کمی بیشی کرنے والا خواہ نیک نیتی سے سے اس میں مبتلا ہو گمراہ کہلائے گا،
اسی طرح معاملات و اخلاق و معاشرت کے تمام ابواب میں قرآن کریم کے بتائے ہوئے اصول رسول صلی االلہ علیہ السلام نے اپنی عملی تعلیم کے ذریعہ ایک معتدل اور صحیح راستہ قائم کردیا جسمیں دوستی، دشمنی، نرمی، گرمی، غصہ اور بردباری کنجوسی اور سخاوت کسب معاش اور ترک دنیا اللہ پر توکل اور امکانی تدبیر ، اسباب ضروریہ کی فراہمی اور مسبب الاسباب پر نظر ان سب چیزوں میں ایک معتدل صراط مستقیم مسلمانوں کو دیا اس کی نظیر عالم میں نہیں مل سکتی اس کو اختیار کرنے ہی سے انسان انسان کامل بنتا ہے اس میں استقامت سے ذرا گرنے ہی کے نتیجہ میں معاشرہ کے اندر خرابیاں پیدا ہوتی ہیں،
خلاصہ یہ کہ استقامت ایک ایسا جامع لفظ ہے کہ دین کے تمام اجزاء و ارکان اور ان پر صحیح عمل اسی کی تفسیر ہے،
اس دنیا میں سب سے زیادہ دشوار کام استقامت ہے اس لئے صوفیا کرام نے فرمایا کہ استقامت کا مقام کرامت سے بالا تر ہے یعنی جو شخص دین کے کاموں میں استقامت اختیار کئے ہوئے ہے اگر چہ عمر بھر اس سے کوئی کرامت صادر نہ ہو وہ اعلی درجے کا ولی ہے،
حضرت عبداللہ بن عباس رض۔۔ نے فرمایا کہ پورے قرآن میں آپ علیہ السلام پر اس آیت سے زیادہ سخت اور شاق کوئی آیت نازل نہیں ہوئی ظاہر ہے کہ آپ علیہ السلام تو انسان کامل کی مثالی صورت بن کر اس دنیا میں تشریف لائے تھے اور فطری طور پر استقامت آپ کی عادت تھی مگر پھر بھی اس قدر بوجھ محسوس کیا اسی طرح انبیاء علیہم السلام پر جس قدر خوف و خشیت الٰہی کا غلبہ ہوتا ہے وہ سب کو معلوم ہے اس خشیت ہی کا یہ اثر تھا کہ کامل استقامت کے باوجود یہ فکر لگ گئی کہ اللہ تعالیٰ کو جس طرح کی استقامت پسند ہے وہ پوری نہیں ہوپائی،
حضور صلی االلہ علیہ کو اپنی استقامت کی زیادہ فکر نہیں تھی کیونکہ وہ بحمد اللہ آپ کو حاصل تھی اور اس آیت میں پوری امت کو بھی حکم دیا گیا ہے آپ اس امت کیلئے اور پورے عالم کیلئے رحمۃ للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے لہذا امت کا استقامت پر قائم رہنا دشوار ہے یہ دیکھ آپ کو فکر و غم طاری ہوا،
حضور صلی االلہ علیہ کو اپنی امت کی اس قدر فکر تھی لیکن آج امت اپنے اعمال پر نظر کرے ان کے کسی عمل میں استقامت باقی نہیں رہی ہمارا ہر عمل استقامت سے خالی ہے آج ہم پانچ وقت کی نمازیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ نوافل بھی پڑھتے ہیں لیکن کل نوافل کی بات تو دور کی فرائض بھی یاد نہیں رہتے کتنے افسوس کی بات ہے، لہذا ہمیں چاہیے کہ ہمیں ایت کریمہ پر عمل کرتے ہوئے آپ علیہ السلام کی مبارک تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے استقامت اختیار کرنی چاہیے تاکہ ہمارا ہر عمل بارگاہ ایزدی میں قبول ہو،
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...