ایک سلطان گولڈن ہوا کرتا تھا (اب باریش ہو چکا ہے)۔ اُس نے چوبیس یا پچیس کاریں قطار میں کھڑی کر کے اُس کے اوپر سے موٹرسائیکل پر جمپ لگائی۔ اُسے بہت سراہا گیا، کئی ٹیلی وژن پروگراموں میں مہمان بنا، بعد میں وہ کار پر بھی جمپ لگانے لگا۔
پھر ایک نوجوان کامران دریالیہ بھی آیا۔ جس نے موٹرسائیکل پر سوار ہو کر غالباً سلطان کا ریکارڈ توڑنا چاہا۔ فورٹریس سٹیڈیم میں ریمپ بنایا گیا، بیس پچیس کاریں ساتھ ساتھ جوڑ کر لگائی گئیں۔ مجمعے میں اُس کے ماں باپ بھی بیٹھے تھے۔ سب نے تالیاں بجائیں اور وہ رَیمپ کی طرف بڑھا۔ کامران نے جمپ لگائی اور تمام کاریں پار کر کے اگلے رَیمپ پر لینڈ کرتے ہوئے چند فٹ پیچھے رہ گیا۔ رَیمپ کے کنارے سے ٹکرایا اور وہیں گردن ٹوٹنے سے مر گیا۔
سلطان گولڈن میں ڈراما بازی تھی، وہ گولڈن یا سنہری رنگ کا لباس پہنا کرتا تھا، اور شاید اب بھی پہنتا ہے۔ اُسے فخرِ پاکستان بھی کہا گیا (ظاہر ہے کوئی انسانوں والا کام کرنے والا شخص تو فخرِ پاکستان نہیں ہو سکتا)۔
آج ایک دوست شرجیل انذر نے فون پر یاد دلایا کہ 1992ء میں ففٹی اوورز کا ورلڈکپ عمران خان کی زیر قیادت ٹیم نے جیتا تھا۔ وہ سلطان گولڈن کی طرح فخر پاکستان، اور پھر فخرِ اُمت بھی بن گیا۔ لیکن غالباً 2009ء ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ یونس خان کی زیر قیادت ٹیم نے جیتا، اُس بے چارے کا کوئی نام ہی نہیں لیتا۔ تب کے بعد سے بار بار سلطان گولڈن اور کامران دریالیہ یاد آ رہے ہیں۔ فرق شاید ڈراما بازی کا ہے۔ اس لیے آپ جو بھی کریں، اُس کے لیے ڈراما پیدا نہیں کریں گے تو نوٹس میں نہیں آئیں گے۔ مثلاً اگر آپ شاعر ادیب ہیں تو تقریر بہترین ڈراما ہے۔ جو مرضی بک بک کر دیں۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...