:::" کملیشور : ہندی کی جدید کہانی کا صاف گو اور نئی افسانوی جمالیات کا فنکار" :::
کئی برس پہلے احمد ہمیش نے کملیشور کی ایک ہندی کہانی " نیلی جھیل" پڑھ کر سنائی تھی اور ان کے افسانوی تکنیک اسلوب ، بیانہ ، لسانی تشکیلات اور ماہیت پر خاصی لمبی بحث بھی کی۔ یہ میرا کملیشور سے پہلا تعارف تھا۔ کملیشور ( آمد: 6جنوری 1932۔ رخصت 27 جنوری 2007) کا پورا نام کملیشور پرشاد سکسینہ تھا۔ وہ اتر پردیش کے قصبے منی پور میں پیدا ہوئے۔ ان کا انتقال حرکت قلب بند ہونے کے سبب فرید آباد، بھارت میں ہوا۔ وہ بچپن میں یتیم ہوگئے تھے۔ ان کی شروع کی زندگی بڑی عسرت میں بسر ہوئی۔ کملیشور نے الہ آباد یونیورسٹی سے ہندی ادبیات میں ایم۔ اے کی سند حاصل کی۔ پی ایچ ڈی میں داخلہ لیا مگر وہ اسے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچاسکے۔ انھوں نے فکشن نگاری کے علاوہ ہندی ادب و لسان کے ناقد بھی تھے۔ فلموں کے بہتریں اسکرپٹ لکھے۔ کملیشور نے 1958 میں اپنی پہلی کہانی " کامریڈ" لکھی۔ جب وہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تو انھوں نے اپنی پہلی ناول " بدنام گلی" چھپ چکی تھی ۔ وہ کئی ہندی کے ادبی اور نیم ادبی جرائد ۔۔" ویہاں"، ۔۔۔" نئی کہانیاں" (1963۔ 1966)،۔۔۔" کتھا یاترا:" (1978۔ 1979)، ۔۔۔۔"انگت" (1961۔ 1963)، " سری روسا" ( 1979۔ 1980)۔ ۔۔۔" وینک جگران" (1990۔ 1993) ۔۔۔۔ " زیلک بھاسکر (1994۔ 2004) جیسے رسائل کے مدیر رہے۔ انھوں نے ہندی کے مشہور جریدے " ساریکا" میں میراٹھی دلت ادیبوں اور اور بوھری مسلم ادب کو خصوصی طور پر جگہ دی ۔ پندرہ (15) فلموں کی کہانیاں، اسکریں پلے اور مکالمات لکھے۔ ان کی معروف فلموں میں "آندھی"(جو ان کہ کہانی" کالی آندھی" پر مبنی تھی۔)، موسم ، چھوٹی سی بات، رنگ برنگی، دی برنگ ٹریں، رام بلرام، پریٹی، یہ دیش، اور سوتن کی بیٹی ہیں جو ان کی کامیاب فلمیں کہی جاتی ہیں۔ 1970 میں ان کی کہانی " جمعہ بازار" پر ٹی۔ وی فلم بنائی گئی جس کی فلم بندی دریائے جمنا کے قریب ہوئیتھی ۔ 1979 میں بی آر چوپڑا کی فلم " پتی، پتنی اور وہ" کے بہتریں اسکریں پلے پر انھیں فلم فیئر ایوارڈ ملا۔ کملیشور 1980 سے 1982 تک ہندوستان کے سرکاری ٹیلی وژن چینل " دور درشن" کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ ان کی کہانیاں ہندی ادب کے نئے افسانوں آفاق کو جنم دیتا ہے۔ جس میں عام انسانوں کے کرب ، مسائل دکھ و درد بھرا ہوا ہے۔ اس میں حکومت شکنی، خاص طور پر نوکر شاھی سے سے بیزاری نمایاں ہے۔ انھوں نے بطور مدیر کے " ساریکا" میں نئی ہندی کی نئی کہانیوں کی بازیافت کی کوشش کی اور اس میں کسی حد تک کامیاب بھی تہے۔ کملیشور نے فکشن کے علاوہ ڈرامے، روزنامچے، سفر نامے اور تنقید بھی لکھی۔ وہ تا حیات اپنی انحرافی، انقلابی اور مزاحمتی مزاج ان کی تحریروں میں شامل رہا۔ وہ اپنی صاف گوئی کی وجہ سے منافقوں اور مفاد پرست حلقوں میں ہمیشہ نظرانداز کئے گئے اور سازشوں کا شکار رہے۔۔ وہ انسان دوست ادیب تھے۔ ان کے لیے یہ تاثر بھی پھیلایا گیا وہ اردو زبان کے مخالف تھے۔۔ جو غلط تاثر تھا۔ جوگندر پال اکثر کہا کرتے تھے۔" کملیشور ایسے ادیب ہیں جو دیو ناگری رسم الخط میں اردو لکھتے ہیں"۔ کملیشور کو مذھبی تعصب سے سخت نفرت تھی۔ خواجہ احمد عباس نے لکھا ہے۔ " موتیا بند کی تکلیف کے باوجود میں نے آر ایس ایس پر آپ کا فکر انگیز اور دل چھونے والا مضمون پڑھا اور آپ کی وسعت نظری اور سیکولر ازم کا پہلے سے بھی زیادہ قائل ہوگیا یقینا آر ایس ایس پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔ آپ نے اس جماعت کے قول و فعل کو جو حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا ہے اس کو پڑھکر سوشلسٹوں، مارکسٹوں اور مسلمانوں کو ہوشیار ہوجانا چاہیے"۔ ۔۔۔ کملیشور کو ہندی فکشن کا " گورکی" بھی کہا جاتا تھا۔ انھوں نے بیالیس (42) کہانیاں اور چار (4) ناولز لکھے۔ مگر ان کا ناول ۔۔" کتنے پاکستاں" کو بہت شہرت ملی۔ جس میں تقسیم ہند کے تاریخی واقعہ پر بڑی حساس اور کسی بھید بھاؤ کے بغیر کھلی کھلی باتیں لکھی ہیں ۔ اس ناول کو 2003 میں ساہیتہ اکادمی کا ایوارڈ اور 2005 میں انھیں " پدم بھوشن" کا خطاب دیا گیا۔ ان کی ناول " کتنے پاکستاں " کا ترجمہ اردو میں ہوچکا ہے ۔ کملیشور مذھبا کائست تھے لہذا ان کی ہندی بیانیہ اور متن میں اردو لفظیات کا گہرا اثر ہے۔ 70 کی دہائی میں میرے والد اور احمد ہمیش نے مجھے کملیشور کی کہانیاں ۔۔ " تلاش، مان سروکار نہیں، نیلی جھیل، مانس کا دریا، جوکھم، راجہ فرینا، اور نانسنی" پڑھ کر سنائی تھیں۔جس سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ اسی زمانے میں جب بھی اردو حلقوں ، نشتوں اور ادبی محافل میں کملیشور کی کہانیوں کا ذکر ہونا شروع ہوا۔ ان کا ایک معرکتہ اعلی ایک مختصر مضمون بعنوان، " صحیح زبان کی تلاش" لائق مطالعہ ہے۔
کملیشور نے ہندی کہانی کو نیا شعرو اور مزاج رہا۔ ان کی کہانیوں میں جو انسان نظر آتا ہے۔ جو زندگی سے قریب ہے۔ فرد جس معاشرے میں رہتا ہے، رنج و غم سہتا ہے اور دنیا میں جیسےتیسے زندگی کاٹتا ہے۔ یہی کملیشور کی کہانیوں کا فکری مقولہ ہے۔ اس رویے کو " سمانترا" تحریک بھی کہا جاتا ھے۔ کملیشور کا انتقال فرید آباد سے دہلی لوٹتے وقت راستے میں ان کی کار میں دل کا دورہ پڑنے سے ہوا تها-انکے ادبی پرچے "ساریکا" جو وہ ممبئ سے شائع کرتے تهے اس میں اردو کے مشہور افسانہ نگار و صحافی "ساجد رشید"نے بهی کام کیا ہے(احمد سہیل)
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔