1281، قبلا خان کی قیادت میں منگول سلطنت کا 4400 بحری جہازوں اور 1 لاکھ 42 ہزار دنیا کے سب سے طاقتور، تجربہ کار و وحشی مانے جانے والی منگول سپاہیوں کا لشکر سمندر کے راستے سلطنت جاپان پر حملہ آور تھا۔۔یہ دنیا کی تاریخ میں سب سے بڑا حملہ آور جنگی بحری بیڑا تھا ۔۔۔ جاپانی سلطنت اس وقت بگاڑ اور انتشار کا شکار تھی اور اس کی فوج بھی محض 40 ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھی۔
اتنا ہی نہیں۔۔۔ منگول اس دور کی ایک بالکل نئی اور تباہ کن ٹیکنالوجی یعنی بارود اور دھماکہ خیر مواد سے لیس سے۔ ان کی توپوں ، ہتھ گولوں اور آتشیں تِیروں کا جاپانی فوج کی تلواروں سے کوئی جوڑ نہ تھا۔
شکست کا سامنا کرتے جاپانی بادشاہ “ہوجو ٹوکیمونی” نے اپنی فوج کو آخری دم تک مزاحمت کا حکم دیا اور جاپان کے سبھی معبدوں میں یہ دعا کروائی کہ خدا بذات خود مداخلت کرکے اس جنگ کا پانسہ پلٹنے میں جاپانیوں کی مدد کرے۔
15 اگست 1281 کو جب قبلا خان کا بیڑہ جاپانی سواحل کو چھونے کے قریب ہی تھا کہ سمندر میں ایک خوفناک طوفان برپا ہوگیا۔
یہ سمندری طوفان تاریخ کے بدترین طوفانوں میں سے تھا جس نے سمندر میں محو سفر منگول بیڑے کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دیا ۔
اس طوفان میں ہزاروں منگول بحری جہاز غرقاب ہوگیے جبکہ 1 لاکھ کے قریب منگول فوجی مارے گئے۔ باقی منگول فوج پسپائی اختیار کر گئی۔
جاپانیوں نے اس طوفان کو Kamikaze یعنی “آسمانی طوفان” کا نام دیا ۔
اور یہی لفظ کئی صدیوں بعد امریکی بحری بیڑوں پر حملہ آور جاپانی فوج اور بحریہ کے خودکش بمبار سکوارڈ کو دیا گیا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
30 اکتوبر 1944 ۔ دوسری جنگ عظیم کے آخری مہینوں میں جاپان کی شکست کے چلتے، امریکی بحریہ کا طیارہ بردار بحری جہاز USS Franklin فلپائن کے قریب خلیج لِٹے Leyte میں تعینات تھا۔
اس صبح فرینکلن کے عملے کی نظر ان کی طرف تیز پرواز سے بڑھتے ایک جاپانی طیارے پر پڑی جس کا رخ نیچے کی جانب تھا۔ اس سے قبل کہ امریکی طیارہ شکن گنز سے داغے جانے والے شیلز کی بارش اس طیارے کو تباہ کر پاتی وہ زوردار دھماکے کے ساتھ جہاز کے فلائیٹ ڈیک سے آن ٹکرایا۔ اس دھماکے سے فرینکلن میں آگ بھڑک اٹھی۔ اس حملے میں کئی امریکی سیلرز ہلاک و زخمی ہوگئے۔
لیکن۔ نہ تو یہ طیارہ حادثاتی طور پر جہاز سے ٹکرایا تھا اور نہ ہی اس کا پائلٹ کوئی عام آدمی تھا۔ اس طیارے کو اڑانے والا جاپان کا رِئیر ایڈمرل “ماسافومی اریما” تھا۔
اور اس کی طرف سے کیا جانے والا یہ خودکش حملہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جاپانی پائلٹس کی طرف سے امریکی بحری بیڑوں پر کیے جانے والے 7000 کامیکازی حملوں میں سے پہلا حملہ تھا۔
پس منظر:
جون 1942 کے “معرکہ مِڈ وے” سے دوسری جنگ عظیم میں جاپان کی شکست کا آغاز ہوگیا تھا اس معرکے میں جاپان کے 4 ایئرکرافٹ کیریئرز اور 248 جنگی طیارے تباہ ہوگئے تھے ۔
آنے والے سال میں بحر الکاہل کے محاذ پر اتحادیوں اور جاپان کے درمیان ہونے والے درجنوں گھمسان کے معرکوں کے بعد جاپانی عسکری قوت کی کمر ٹوٹ چکی تھی امریکہ ایک کے بعد ایک جاپانی مقبوضہ جزائر کو آزاد کروا کر جاپانیوں کو مزید پیچھے دھکیلتا جارہا تھا ۔
جاپان کی 90٪ بحریہ اور 80٪ فضائیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا ۔
جاپان پر شکست کے بادل مسلسل منڈلا رہے تھے۔
پھر 18 اپریل 1943 کو امریکی طیاروں نے جزائر سلیمان کے مقام پر جاپانی عسکری قوت کے سربراہ اور جاپان میں اب سے طاقتور عسکری شخصیت “ایڈمرل اسوروکو یاماموٹو” کے طیارے کو مارگرایا اور یاماموٹو مارا گیا۔
یاماموٹو کی موت کے بعد جاپانی افواج کے بیشمار بڑے افسران کو یہ بات سمجھ آنے لگی کہ “اب شکست یقینی ہے”.
لیکن سخت گیر وزیر اعظم “ہیڈیکی ٹوجو” کسی طرح بھی شکست تسلیم کرنے اور کسی امن معاہدے یا مشروط سرنڈر پر رضامند ہونے پر تیار نہ تھا۔ اور 8 کروڑ جاپانیوں کی زندگی اب سوئی کی نوک پر ٹکی تھی۔
ایک نئی سٹریٹجی :
ایسے میں جاپانی ایڈمرل “ٹاکی جیرو اونِیشی” اور رئیر ایڈمرل ماسافومی اریما اور ساتھ ہی کچھ نوجوان ائیر فورس افسر ایک نئی سٹریٹجی کی طرف مائل تھے۔
اور وہ یہ تھی کہ جاپانی افواج کو روند کر مرحلہ وار مہمات میں جاپان کی طرف بڑھتے امریکی بحری بیڑوں اور ان پر موجود ہزاروں امریکی طیاروں کو خودکش حملوں کے زریعے ایسی کاری ضربیں لگائی جائیں جس سے ان کا نقصان اس حد تک تباہ کن ہو کہ وہ جاپان کو فنا کردینے کے بجائے کسی امن معاہدہ اور مشروط سرنڈر پر راضی ہو جائیں۔
بنیادی منصوبہ:
اور یہ خودکش حملے 3 طرح کے ہوسکتے تھے …
1- ہوائی خودکش حملہ :
یعنی فدائی پائلٹس کا اپنے طیاروں کو بارود اور دھماکہ خیر مواد سے بھر کر تیز رفتار پرواز کے بعد امریکی بحری بیڑے تک پہنچتے ہوئے کسی بحری جہاز سے ٹکرا کر زور دار دھماکہ کردینا۔ جس سے امریکیوں کو بھاری مالی و جانی نقصان کے ساتھ ایک کم ہوتے مورال کا سامنا رہے۔
2- بحری خودکش حملہ :
جس میں بارود سے بھری بوٹ یا لانچ کو پوری رفتار سے امریکی بحری جہازوں یا آئل ٹینکرز سے ٹکرا کر دھماکہ کردینا ۔
3- زیر آب خودکش حملہ :
خصوصی ساخت کی چھوٹی آبدزوروں کے زریعے زیرآب رہتے ہوئے امریکی بیڑے سے آبدوز جو ٹکرا کر اسے شدید نوعیت کے نقصان سے دوچار کردینا۔
سرکاری مخالفت اور حمایت:
جیسے ہی اریما کی یہ سٹریٹجی جاپانی حکومت تک پہنچی تو حکومت نے سختی سے اسے رد کرتے ہوئے اریما کو ایسے کسی بھی جنوبی منصوبے سے دور رہنے کا کہا۔
سرکاری حمایت کے بغیر اریما بالکل بےبس تھا اور اس کے پاس اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کوئی عملی زریعہ نہ تھس۔
چنانچہ۔۔۔۔اس نے ایک “حتمی ترکیب” لڑانے کا فیصلہ کیا۔۔۔ اور وہ یہ تھا کہ اریما خود اپنی صوابدید پر اپنا جہاز امریکی بیڑے سے ٹکراتے ہوئے اپنی قربانی پیش کردے۔
تو 30 اکتوبر 1944 کے دن ماسافومی اریما نے امریکی ائیر کرافٹ کیرئیر USS Franklin پر پہلا خودکش حملہ کرکے اپنی جان دے دی۔۔۔
اس کا یہ حملہ غیر اعلانیہ خودکش حملوں میں پہلا تھا۔ اریما کے بعد اس کے نائب نوجوان جاپانی پائلٹس نے بھی بغیر سرکاری اجازت کے اپنی صوابدید پر امریکی بحری جہازوں کو ہدف بناتے ہوئے ان پر خودکش حملوں کا آغاز کردیا۔
اریما کی موت کے بعد اب اس نئی سٹریٹجی کی سربراہی اور کسی پر نہیں بلکہ بذات خود ایڈمرل اونِیشی پر آگئی تھی۔
گھمسان کی جنگ کے چلتے ایڈمرل اونِیشی نے پہلی فرصت میں ٹوکیو کی طرف پرواز کی اور جاپان کے بادشاہ ہیروہِیٹو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں اس نے بادشاہ کے سامنے پھر سے کامیکازی حملوں کی سٹریٹجی رکھی اور اسے سرکاری سطح پر اپنانے کی درخواست کی۔ جسے فوری طور پے رد کردیا گیا۔
۔
اکتوبر 1944، فلپائن۔
امریکی افواج فلپائن کو جاپانی فوج کے شکنجے سے مکتی دلانے کے لیے فلپائن میں جاپانی فوجی تنصیبات پر خونریز فضائی حملوں کا آغاز کرچکی تھیں ساتھ ہی سمندر کے راستے بھی امریکی بحری بیڑے فلپائن میں موجود جاپانی فوج کو گھیرے میں لے چکے تھے۔ اگر فلپائن جاپان کے ہاتھ سے نکل جاتا تو جاپان کوما تیل کی سپلائی کا روٹ منقطع ہو جاتا جس سے تباہ حال جاپانی افواج ان گنت نئی مشکلات کا شکار ہوجاتیں۔۔۔۔۔ہر گزرتے لمحے کے ساتھ حالات بد سے بدترین ہوتے جارہے تھے ۔
ایسے میں جاپانی حکومت نے کوئی اور چارہ نہ ہونے پر ایڈمرل اونِیشی کو اپنا خودکش پائلٹس کا سکوارڈ تیار کرنے کی اجازت دے دی۔
اس خودکش فضائی دستے کا نام “شِمپو ٹوکاٹائی” یعنی “آسمانی طوفانی خصوصی حملہ آور یونٹ” کا نام دیا گیا ۔
اونِیشی نے جیسے ہی اس نئے یونٹ کے لیے والنٹیئرز کی اپیل کی تو سینکڑوں نوجوان پائلٹس نے ملک کے لیے فدائی حملہ کرنے کے لیے اپنا نام لکھوا دیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
تربیت :
کامیکازی سکواڈ کی تربیت کے لیے بہت محتاط اور سخت روٹین اپنائی گئی۔ اس بات کو یقینی بنایا گیا کہ صبح کی پہلی کرن سے رات کو بستر میں جانے کے لمحے تک کیڈٹس کے پاس کوئی بھی فارغ وقت نہ ہو کہ وہ خود سے کچھ سوچ سکیں اور ان کا ذہن بدل جانے کے خدشات ہوں۔
ساتھ ہی انہیں دوران تربیت آپس میں زیادہ گفتگو کرنے کی اجازت نہ تھی۔
صبح سویرے تربیت کا آغاز امپیریل جاپان کے قومی ترانے کے ساتھ ہوتا تھا۔
اس کے بعد ان کا کمانڈنگ آفیسر انہیں لیکچر دیتا تھا جس میں جاپان کی تاریخ کے بہادر اور کامیاب جنگجووں و فاتحین کے کارناموں اور ان کے اقوال و نصیحتوں کو شامل کیا جاتا تھا۔
اسکے بعد انہیں جاپان پر امریکی مظالم ۔ دنیا پے منڈلاتا امریکی بادشاہت کا خطرہ اور امریکہ کے خلاف جنگ میں ہر ممکن حربہ استعمال کرنے کی اہمیت پر زور دیا جاتا۔
اور اس کے بعد ان پائلٹس کو چارٹس ، تصاویر اور ماڈلز کے زریعے، کامیکازی حملے میں تیزرفتار پرواز کے دوران دشمن کے جہازوں کی نشاندہی، ان پے غوطہ لگانے اور ٹھیک ان مقامات پے جہاز کو ٹکرا دینے کی تربیت دی جاتی تھی.
محض چند ہفتوں کے اندر ہی پہلا کامیکازی یونٹ امریکی بحری جہازوں پر خودکش حملوں کے لیے تیار ہو چکا تھا ۔
حملے سے پچھلی رات کامیکازی پائلٹ اپنے پاس موجود رقم یا باقی قابل ذکر چیزیں اپنے ساتھیوں میں تقسیم کردیتا تھا۔ ساتھ ہی وہ اپنے گھر والوں کو بھجوانے کے لیے اپنے بالوں کی ایک لٹ اور اپنے کٹے ہوئے ناخن بھی ساتھیوں کے حوالے کردیتا تاکہ اس کی موت کے بعد یہ سب اس کے خاندان تک پہنچا دیا جائے۔
حملے کے روز مذکورہ پائلٹس کو بہترین اور پرتکلف کھانا پیش کیا جاتا۔ وہ اپنے ساتھیوں سے ملاقات کرتے۔
حملے پر روانہ ہونے سے پہلے ان کا افسر انہیں ایک حتمی مختصر لیکچر دیتا اور وہ اپنے ساتھیوں اور افسران کو الوداع کہہ کر اپنے اپنے طیاروں میں دشمن کے بحری بیڑوں کی طرف پرواز کر جاتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خودکش طیارے :
ان خودکش حملوں کے لیے عام استعمال کے جاپانی جنگی طیاروں جیسے زیرو، ریکس اور پیری وغیرہ کو کچھ اپگریڈ کیا جاتا تھا۔ جس میں طیارے کے اندر ہر غیر ضروری سامان ہٹا کر پورے طیارے کو دھماکہ خیز مواد سے لاد دیا جاتا تھا۔ طیارے کا لینڈنگ گیئر ختم کردیا جاتا تھا کیونکہ اسے لینڈ نہیں بلکہ کریش کرنا ہوتا تھا۔
روانگی کے وقت پائلٹ کے پاس پیراشوٹ نہیں ہوتا تھا۔ پائلٹ کے پاس محض چند اعتقادی چیزیں ہوتی تھیں مثلاً ماتھے پر باندھنے والی پٹی جس پر دعائیں درج ہوتی تھیں اسی طرح جاپان کا ایک پرچم جس پر اس کے یونٹ کے دیگر پائلٹس کے نام کندہ ہوتے تھے ۔
پہلا منظم حملہ:
نومبر 1944۔ امریکی بحری بیٹرہ فلپائن کے قریب “خلیج لیٹیک” میں کئی ماہ سے جاپانی بحریہ اور فضائیہ کے خلاف کامیابی سے مصروف حرب تھا۔ جاپان کی بحریہ اور فضائیہ دونوں پر امریکی اس محاذ پر اب تک اتنی کاری ضربیں لگا چکا تھا کہ جاپانی مزاحمت اب تک تقریباً دم توڑ چکی تھی۔
لیکن آج کے دن امریکیوں پر ایسی قیامت ٹوٹ پڑنے کو تھی کہ جس کے بارے میں نہ انہوں نے سنا تھا نہ کبھی تصور بھی کیا تھا۔
وقت صبح 10 بجے۔ جاپانی فضائیہ کے 9 عدد مٹسبشی زیرو جنگی طیاروں نے امریکی بیڑے کے لیے فلپائن سے اڑان بھری۔
ان میں سے 5 طیارے کامیکازی خودکش بمبار طیارے تھے جنہیں بھاری مقدار میں دھماکہ خیر مواد سے بھر دیا گیا تھا جبکہ باقی 4 طیارے انہیں ایسکورٹ کررہے تھے۔
یہ سب طیارے امریکی ریڈاروں کی نظر سے اوجھل رہنے کے لیے سمندر پر انتہائی نیچی پرواز کررہے تھے ۔۔۔ 10:45 پر جاپانی طیاروں نے امریکی بیڑے کے جہازوں کو دیکھا اور فورا ہی تیزی سے ہوا میں بلند ہوئے اور اچھی خاصی بلندی پر جاکے امریکی جہازوں اور ائیر کرافٹ کیرئیرز پر تیزی سے غوطہ لگایا۔
جاپانی جہازوں کو دیکھ کے امریکی بحری بیڑے کے عملے نے ہر جہاز پر موجود ایک ایک طیارہ شکن گن کا منہ غوطہ زن جاپانی طیاروں پر کھول دیا۔ چند لمحوں میں ہی پہلا جاپانی طیارہ امریکی طیارہ بردار جہاز .USS Saint Lo کے فلائیٹ ڈیک سے ٹکرایا۔ کان پھاڑ دینے والے دھماکوں کے ساتھ فلائیٹ ڈیک نے آگ پکڑ لی ۔ دھماکہ اس قدر زوردار تھا کہ ڈیک کے ٹھیک نیچے موجود موجود طیاروں کے ہینگرز کے پرخچے اڑ گئے۔۔۔پورا جہاز آگ کی لپٹوں میں گھرا تھا ۔ کچھ ہی دیر بعد ہی ایک اور خوفناک دھماکہ ہوا جوکہ جہاز کے ایمونیشن سٹور میں ہوا تھا ۔
۔ USS saint Lo غرقاب ہوگیا۔ 114 امریکی مارے گئے اور سینکڑوں زخمی اور جھلس گئے۔
اسی حملے میں بیڑے کے چند دیگر جہاز بھی جاپانی خودکش حملے کا شکار ہوکر بھاری مالی و جانی نقصان سے دوچار ہوگئے
۔۔۔۔
ٹیکٹکس :
کامیکازی خودکش حملے کی حکمت عملی کچھ یوں تھی۔۔۔
1- حملہ آور طیاروں کو انتہائی نیچی پرواز کے زریعے امریکی بحری جہازوں کے قریب سے قریب لایا جاتا تھا ۔
2- پھر فوراً ہی ان طیاروں کو تیزرفتار پرواز میں 5000 فٹ تک کی بلندی تک لیجایا جاتا تھا ۔
3- طیارے کو پوری رفتار کے ساتھ امریکی بیڑے کی طرف غوطہ زن کر دیا جاتا۔
4- خودکش طیارے کو بحری جہاز کے فلائیٹ ڈیک سے ٹکرا کے تںاہ کردیا جاتا۔ امریکی جہازوں کے فلائیٹ ڈیک چونکہ لکڑی سے بنائے جاتے تھے اس لیے وہ نہ صرف آسانی سے آگ پکڑ لیتے بلکہ ساتھ ہی اس پے پارک امریکی طیارے بھی تباہ و برباد ہوجاتے۔
5- یا پھر خودکش طیارے کو ٹھیک جہاز کے پہلو سے ٹکرا کے تںاہ کیا جاتا تھا۔
6- کئی مرتبہ ماہر خودکش بمبار پائلٹس اپنا طیارہ امریکی جہاز سے ٹکرانے سے قبل اپنے طیارے کی مشین گن کا پورا ایمونیشن بھی ہدف جہاز پر داغ دیتے تھے ۔۔۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔۔ بعض دفعہ وہ مشین گن یا کینن سے حملہ ایک جہاز پے کرتے اور خودکش حملہ دوسرے جہاز پے۔
۔۔۔۔۔
امریکی جواب :
امریکی فوج اس پے در پے اور لہر در لہر جاپانی خودکش حملوں سے گھبرائے ہوئے اور پریشان ضرور تھے تاہم ان خوفناک حالات میں بھی انہوں نے پہلے چند دنوں میں ہی کامیکازی حملوں سے نبٹنے کے لیے ایک حکمت عملی ترتیب دے دی:
1- امریکی فریگیٹس ، کروزرز اور ائیر کرافٹ کیرئیرز مختلف نوعیت کی بیسیوں طیارہ شکن گنز سے لیس تھے۔۔۔ کامیکازی حملوں سے بچنے کا پہلا حربہ یہ تھا کہ خودکش طیاروں کے نظر آتے ہی جہاز پر ہر ممکن گن کا رخ حملہ آور طیاروں کی طرف موڑ دیا جائے اور انہیں جہاز سے جتنا دور ممکن ہو مار گرایا جائے ۔۔۔ کیونکہ اگر جہاز کر قریب پہنچنے پر دشمن طیارے کو نشانہ بنا بھی دیا گیا تو وہ تباہ ہوتی ، جلتی کیفیت میں بھی اپنے فلائیٹ مومینٹم کی وجہ سے ہدف جہاز سے آ ٹکرائے گا۔
2- کامیکازی حملوں سے بچنے کا دوسرا بنیادی حربہ تھا باقاعدگی سے ائیرپیٹرولنگ۔ یعنی امریکی ائیر کرافٹ کیرئیرز ہے موجود امریکی فائٹر اور انٹرسیپٹر طیاروں کو فضا میں مسلسل متحرک رکھنا تاکہ جیسے ہی جاپانی خودکش طیارے امریکی بیڑوں کی طرف بڑھیں تو فضا میں موجود امریکی طیارے بیٹرے سے دور ہی انہیں مار گرائیں۔
جاپان کی نئی حکمت عملی :
امریکی بحری جہازوں کی طرف سے بڑے پیمانے پر حفاظتی حربے اپنائے جانے کی وجہ سے آنے والے دنوں میں امریکیوں کا نقصان کم ہونے لگا جبکہ جاپانیوں کا نقصان بڑھتا جارہا تھا ۔
امریکی جہازوں پر خودکش حملے کے لیے بھیجے جانے والے کامیکازی طیاروں میں نصف کے قریب ہدف کے قریب پہنچنے سے قبل ہی تںاہ کردیے جاتے تھے۔ جس سے ناصرف قیمتی طیاروں کا ضیاع ہورہا تھا بلکہ تربیت یافتہ پائلٹس بھی ہدف کے قریب پہنچنے سے قبل جان گنوا رہے تھے ۔
ایسے میں جاپان نے اپنی خودکش حکمت عملی میں کچھ تازہ حربوں کو متعارف کروایا :
1-
اب جاپانی طیارے 5 سے 10 کی تعداد میں نہیں بلکہ 40 سے 50 کی فارمیشنز میں امریکیوں پر حملہ آور ہونے لگے۔۔۔۔جس وجہ سے امریکی طیارہ شکن گنز کی طرف سے کئی جاپانی طیاروں کو مارگرانے کے باوجود کچھ نہ کچھ طیارے صحیح سلامت بچ جاتے اور امریکی جہازوں سے ٹکرا کر ان کے پرخچے اڑا دیتے تھے۔
2-
اب جاپانی ، خودکش طیاروں کو بھیجتے وقت ان سے کچھ وقت پہلے ہی جنگی طیاروں کی فارمیشنز کو انہی راستوں پے روانہ کردیتے تھے۔ چنانچہ جب امریکی طیارے جاپانی جنگی طیاروں کے ساتھ گھمسان کا معرکہ لڑتے ہوئے انہیں اپنے بحری بیڑوں کی طرف جانے سے روک رہتے ہوتے تھے ایسے میں اصل کامیکازی طیاروں کی فارمیشنز پہنچ جاتی۔ جاپانی جنگی طیارے امریکی طیاروں کی الجھائے رکھتے اور کامیکازی طیارے امریکی بحری جہازوں پے خود کو جا ٹکراتے۔
۔۔۔۔
بلی چوہے کا کھیل :
جاپان کے ان نئے حربوں کی وجہ سے جب امریکی کا نقصان بھاری سے بھاری تر ہونا شروع ہوا اور امریکی جانی نقصان سینکڑوں سے ہزاروں میں داخل ہونا شروع ہوگیا ساتھ ہی امریکی بحری جہازوں کے تباہ یا ناکارہ ہونے کی شرح بڑھنے لگی تو اب امریکی نہ کچھ جوابی حربے متعارف کروائے جن کے مطابق :
1-
امریکی بوٹس اور فریگیٹس کے زریعے اصل امریکی بحری بیڑے کے تقریبا 50 میل دور ایک حفاظتی دائرہ اس طرح سے قائم کیاجاتا کہ مقررہ فاصلوں کے بعد ایک نہ ایک امریکی بوٹ یا فریگیٹ سمندر میں تعینات رہتا ۔
جس سے دو فائدے ہوتے۔ اول یہ کہ جاپانی خودکش جہازوں کی فارمیشنزکا بیڑے سے بہت دور ہی علم ہوجاتا اور بیڑے کو فوری مطلع کرکے مستعد کردیا جاتا اور دوسرا یہ کہ اس طرح اصل بیٹرے سے کافی دور ہی طیارہ شکن گنز کا ایک پورا دائرہ ، حفاظتی حلقہ جاپانیوں کو امریکی بیڑے سے دور رکھنے کے لیے موجود ہوتا۔
2-
دوسرا حربہ یہ تھا کہ امریکی بحریہ نے بڑی تعداد ، بڑی فارمیشنز اور مکمل وقت میں امریکی جنگی طیاروں کی فضا میں موجودگی اور پیٹرولنگ کو یقینی بنایا جارہا تھا جس سے جاپانی خودکش طیاروں کی بڑی فارمیشنز کو بھی امریکی بحری جہازوں تک پہنچنے سے قبل انٹرسیپٹ کردیا جانا آسان تھا ۔
اب۔۔۔۔ جاپانیوں کو ضرورت تھی ایک “نئے ہتھیار” کی۔
عام طیاروں میں بارودی مواد بھر دینے کے بجائے ایک نئے، بالکل جدید “خصوصی خودکش طیارے” کی۔ جو کسی بھی رکاوٹ کو توڑ کر ٹھیک امریکی بیٹرے کے قلب پے وار کرنے کی تباہ کن صلاحیت سے لیس ہوتا ۔
۔۔۔۔۔۔۔
اوکا Ohka :
اوکا (جاپانی : چیری کا پھول) دوسری جنگ عظیم کے اختتامی سال میں جاپان کی طرف سے تیار کردہ ایک خصوصی خودکش طیارہ تھا جس کی تصویر آپ پوسٹ کے کور فوٹو میں دیکھ سکتے ہیں۔۔۔ یہ راکٹ انجن سے لیس ایک تیزرفتارگائیڈڈ طیارہ تھا جس کی لمبائی تقریبا 20 فٹ۔ قد 3.8 فٹ۔ ونگ سپین صف 16 فٹ تھا۔
اس کا عملہ واحد پائلٹ ہی تھا۔
اس کی رفتار 600 میل فی گھنٹہ تھی۔
اوکا میں 2 ہزار 340 پاؤنڈ تباہ کن دھماکہ خیر مواد بھرا جاتا تھا یعنی عام طیاروں سے کہیں زیادہ۔
اس کی حد ضرب 50 سے 100 کلومیٹر کے درمیان تھی۔
۔
یہ ایک بھیانک ہتھیار تھا جسے روکنا امریکیوں کے لیے تقریباً ناممکن تھا کیونکہ اس وقت امریکہ کے پاس سب سے زیادہ تیزرفتار طیارے کی سپیڈ بھی 440 میل فی گھنٹہ تھی (پی-15 مسٹینگ) جبکہ “اوکا” کی 600 میل کی بجلی جیسی رفتار پر نہ تو کوئی امریکی طیارہ اسے انٹرسیپٹ کرسکتا تھا اور نہ ہی امریکی بحری جہازوں پر موجود طیارہ شکن گنز کو اس پر فوکس کیا جاسکتا تھا.
اس سپیڈ کا اندازہ کچھ یوں کیجئے کہ ایک منٹ میں انسان 20 مرتبہ سانس لیتا ہے جبکہ اوکا 1 منٹ کے اندر 32 کلومیٹر کا سفر طے کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔۔۔ جوکہ 1940 کی دہائی کے اعتبار سے بہت جدید ٹیکنالوجی تھی ۔
اوکا کو دشمن پر داغنے کا طریقہ یہ تھا کہ اوکا کو جاپانی میڈیم بمبار طیاروں جیسے مشہور Betty طیارے کے پیٹ سے منسلک کرکے مطلوبہ رینج تک لایا جاتا پھر وہ بمبار طیارہ اوکا کو محفوظ فاصلے سے بلندی پر ریلیز کردیتا ۔
ریلیز ہوتے ہی اوکا کا پائلٹ اس کے راکٹ انجن کو آن کرتا اور چند سیکنڈ میں ہی وہ 600 میل کی سپیڈ سے امریکی بیڑوں کی طرف غوطہ لگا دیتا ۔۔۔۔ 2340 پاؤنڈ دھماکہ خیر مواد سے لیس طیارے کے امریکی بحری جہاز سے ٹکرا دیے جانے کا نتیجہ واضح تھا۔
بحری ہزیمت :
دوسری جنگ عظیم کے آغاز میں جاپان کی بحریہ دنیا کی سب سے بڑی اور طاقتور بحری فوج تھی جس کے پاس ائیر کرافٹ کیرئیرز، نیول ائیر کرافٹس اور آبدوزوں کی تعداد اور معیار باقی سب ممالک سے بڑھ کے تھا۔ لیکن معرکہ پرل ہاربر کے بعد امریکہ کی طرف سے جاپان پر اعلان جنگ کے بعد 3 سال میں جاپان کی بحریہ کے ایک بڑے حصے کا صفایا ہوچکا تھا۔
جاپان کو امریکہ کے خلاف تقریباً سبھی قابل ذکر بحری معرکوں میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔۔۔ بالخصوص معرکہ مِڈوے معرکہ بحرِ فلپائن، معرکہ گواڈل کینال، معرکہ مشرقی سلیمان، معرکہ کورل سی اور اب معرکہ خلیج لیٹیک۔
ان خونریز بحری معرکوں کے بعد جاپان اپنے تقریباً سبھی ایئرکرافٹ کیریئرز اور اکثریت بڑے جنگی جہازوں سے محروم ہوچکا۔ ہر گزرتے دن امریکہ کی طرف سے جاپان بحری بیڑوں اور جاپانی زیر قبضہ جزائر میں موجود جاپانی بری افواج پر لگنے والی کاری ضربوں سے جاپان کو پہنچنے والا نقصان ناقابل برداشت حد تک بڑھتا چلا جارہا تھا ۔
ایسے میں جاپانی نیوی کے 2 نوجوان افسروں نے فضائیہ کی طرح جاپانی بحریہ کو بھی پانی کے راستے امریکی بحری بیڑوں پر کامیکازی طرز کے خودکش حملوں کی سٹریٹجی اختیار کا مشورہ دیا۔
۔۔۔
کامیکازی/خودکش تارپیڈو Kaiten :
دوسری جنگ عظیم کے چلتے جاپان کی بحریہ کی ملکیت میں دنیا کا سب سے بڑا اور تباہ کن “تارپیڈو” تھا جسے ٹائپ-83 تارپیڈو کہا جاتا تھا۔۔۔۔ 30 فٹ لمبا , 1080 پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد سے لیس اور 40 کلومیٹر سے زیادہ حد ضرب رکھنے والے اس تارپیڈو کی رفتار 96 کلومیٹر فی گھنٹا تک تھی۔
ٹھیک مقام پر وار کرنے سے یہ تارپیڈو ایک ائیر کرافٹ کیرئیر تک کو غرقاب کرسکتا تھا۔
1944 کے آغاز میں جاپانی بحریہ کے دو ماہر ، نوجوان ٹیکنیشنز “سیکو نشینا” اور “ہیروشی کروکی” نے بحریہ کی ہائی کمان کے سامنے ایک منصوبہ رکھا جس کے مطابق
“ٹائپ-93 تارپیڈو کے درمیانی سیکشن میں ایک کاک پٹ انسٹال کرکے اسے ایک ہیومین-گائیڈڈ تارپیڈو میں تبدیل کردیا جائے ۔۔۔ اس تارپیڈو کو محفوظ فاصلے سے متعلقہ آبدوز سے لانچ کردیا جائے گا جس کے بعد تارپیڈو کا پائلٹ اسے زیرآب سینکڑوں کلومیٹر تک امریکی بحری بیڑے کی طرف نیویگیٹ کرتا ہوا امریکی ائیر کرافٹ کیرئیرز یا بیٹل شپس میں ٹھیک کمزور مقام سے ٹکرا کے انہیں کامیابی سے غرقاب کردے گا”.
یعنی کئی کامیکازی طیارے جو کام بھاری نقصان اور بیسیوں طیاروں کی تباہی کے بعد بھی بمشکل کر پاتے وہی کام ایک سنگل تارپیڈو سے لیا جاسکتا تھا۔
کچھ وقت تک شش و پنج میں رہنے کے بعد جاپانی بحریہ نے اس منصوبے کو اپررول دے دیا۔ نشینا اور کروکی کو ان کا “خودکش تارپیڈو” ڈیزائن کرنے کی منظوری مل گئی۔
اس نئے خودکش ہتھیار کو “کائٹن” Kaiten کا نام دیا گیا جس کا مطلب ہے “آسمان کو لرزا دینے والا ہتھیار” ۔
ڈیزائن کے مطابق ٹائپ-93 تارپیڈو کے وسط میں ایک کاک پِٹ کا اضافہ کیا جانا تھا ۔ جس میں پائلٹ کی چیئر اور کنٹرولز کے علاؤہ ایک عدد پیری سکوپ نصب کیا جاتا۔۔۔ اس خودکش تارپیڈو کو بڑی جاپانی آبدوز ٹائپ-بی3 سے لانچ کیا جاتا ۔ پائلٹ آبدوز سے ایک ہیچ کے زریعے تارپیڈو میں داخل ہوتا تھا۔
فروری 1944 میں کائٹن کی پروڈکشن پر کام شروع ہوگیا ۔
کروکی اور نشینا اس نئے خودکش ہتھیار کے لیے والنٹیئر کرنے والے پہلے سیلرز تھے ۔
پراجیکٹ کے آغاز کے ساتھ ہی کائٹن چلانے کے لیے نوجوان نیوی آفیسرز کی ٹریننگ کا آغاز ہوگیا۔
لیکن۔۔۔۔ جلدی میں تیار کیے گئے کائٹن پیچیدہ اور کنٹرول کرنے میں سخت مشکل ثابت ہوئے۔
پہلے تربیتی مشن میں ہی کائٹن بےقابو ہوکے ڈوب گیا ۔ اس کائٹن کا پائلٹ اور کوئی نہیں بلکہ کائٹن کا موجد لیفٹیننٹ کروکی تھا۔
جب اس ڈوبے ہوئے کائٹن کو سمندر سے نکالا گیا اور کاک پٹ سے کروکی کی لاش باہر نکالی گئی تو اس کے پاس سے ایک ڈائری برآمد ہوئی۔
کروکی نے موت سے قبل کا وقت ڈائری پر کائٹن میں موجود تکنیکی خامی اور اسے دور کرنے کا طریقہ لکھنے پے صَرف کردیا تھا۔
کروکی کے آخری مشاہدات پر جب کائٹن میں نئے سرے سے تبدیلیاں کی گئیں تو اب کی بار کائٹن ایک کارآمد ہتھیار کے طور پر سامنے آیا۔
اب وقت تھا حملے کا۔
۔
پہلا زیرآب کامیکازی حملہ :
نومبر 1944 ۔۔۔ “جزائر کیرولائن” میں Ulithi Atoll کے مقام پر امریکہ ایک بہت بڑے بیڑے کو ترتیب دے رہا تھا جس کا ہدف تھا جاپان کے ایک بڑے جزیرہ اوکی ناوا Okinawa پر چڑھائی ۔ جوکہ سنہ 1281 کے منگول حملے کے بعد جاپان کی سرزمین پر اب تک کا پہلا بیرونی حملہ تھا ۔
اگر جاپان یولِتھی اٹال میں لنگر انداز امریکی بیڑے پر ایک ہی زبردست ضرب لگا کر اسے بھاری نقصان سے دوچار کر دیتا تو امریکہ فوری طور پر اوکی ناوا پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہ رہتا اور اس طرح جاپان کو کئی مہینوں کا وقت مل سکتا تھا امریکہ پر مزید پے در پے کامیکازی حملے کرتے ہوئے امریکی کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردینے کے لیے
چنانچہ۔۔۔۔19 نومبر 1944 کو جاپان سے تین عدد ٹائپ-بی3 آبدوزیں جزائر کیرولائن کی طرف روانہ ہوئیں۔ ہر آبدوز 4 عدد کائٹن خودکش تارپیڈو سے لیس تھی۔ اس حملے کی قیادت سیکو نشینا کررہا تھا جوکہ کائٹن کی ایجاد میں لیفٹیننٹ کروکی کا مددگار تھا۔
نشینا نے اپنے ساتھ اپنے کائٹن میں متوفی کروکی کی راکھ بھی رکھ لی تھی تاکہ اس حملے میں وہ دونوں دوست ایک ساتھ سمندر کی وسعتوں میں سما کر قربان ہوسکیں۔
نصب رات کے قریب تینوں آبدوزوں نے اپنے کائٹن ایجیکٹ کردیے اور خود واپس جاپان کی طرف مڑ گئیں۔
اگلی صبح یولیتھی اٹال یکے بعد دیگرے تین خوفناک دھماکوں سے لرز کے رہ گیا ۔۔۔۔ کائٹنز نے اپنے اہداف کو نشانہ بنادیا تھا۔
دھماکے اس کے بڑے پیمانے کے تھے کہ جاپانیوں کو یہ لگا کہ ان کے کائٹنز نے متعدد امریکی ائیر کرافٹ کیرئیرز کو غرقاب کردیا ہے۔
لیکن۔۔۔سچ تویہ تھا کہ اس حملے میں داغے جانے والے 12 میں سے صرف 3 کائٹنز امریکی اہداف کو ہِٹ کر پائے اور وہ بھی ائیر کرافٹ کیرئیرز نہیں بلکہ آئل ٹینکرز اور ریکانوسنس شپس تھیں۔
گویا اس “بڑے حملے ” میں امریکہ کا نقصان محدود تھا ۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باقی 9 کائٹنز کا کیا بنا۔۔۔ ؟ میرے خیال میں باقی کائٹنز بھی ان کے موجد کروکی کے کائٹن کی طرح تکنیکی خامیوں کی وجہ سے قابو سے باہر ہوکر غرق ہوگئے ہوں گے ۔
آپ خود ہی سوچیں ایک ریگولر ہتھیار کو معمولی تبدیلیاں کرکے چند ماہ کی رسمی تربیت کے بعد ان آفیسرز کے زریعے لانچ کردیا جائے کہ جو اس ہتھیار پر زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی کومبیٹ مشن کررہے ہوں تو اس کی کامیابی کا امکان کتنا ہو سکتا ہے ؟
اس حملے کے بعد بھی جاپانی بحریہ نے گوام، ایووجِیما اور اوکی ناوا کی طرف کائٹنز لانچ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا لیکن اب کی بار امریکی مستعد ہوچکے تھے ۔
امریکہ کہ پاس دشمن آبدوزوں کو کھوج نکالنے اور انہیں تںاہ کردینے کے کئی حربے اور ہتھیار موجود تھے جیسے آبدوز شکن لانگ رینج بمبار طیارے ، ڈیپٹھ چارجز اور ہیج ہاگ مارٹر سسٹمز۔
نتیجتاً جاپان تیزی سے وہ آبدوزیں کھونے لگا کہ جن کی مدد سے کائٹنز کو لانچ کیا جاسکتا تھا۔
اب جب متعلقہ آبدوزیں ہی تںاہ کر دی جاتیں تو ان کائٹنز کو لانچ کرنے کا کوئی زریعہ نہ بچتا۔
نتیجتاً جاپان کی طرف سے اپ گریڈ کردہ سینکڑوں کائٹنز کبھی داغے ہی نہ جاسکے اور وہ سب زمین پر ہی بےمقصد رہ گئے۔
مجموعی طور پر کائٹن حملوں میں 50 سے بھی کم امریکی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جاسکا ۔
8 جاپانی آبدوزیں اور 1 ہزار کے قریب سیلرز مارے گئے اور کائٹن کی کامیابی کا ریٹ صرف 15٪ رہا ۔
۔۔۔۔۔۔
آخری کوشش۔۔۔اوکا Ohka:
1 اپریل 1945 ، ایسٹر کے دن آخر کار امریکہ نے اوکی ناوا پر حملہ کردیا ۔ 7 سو سال بعد جاپان کی سرزمین پر پہلا غیر ملکی حملہ حملہ جاپان کے لیے ایک بڑی ذلت و تباہی تھی۔
اس حملے کو روکنے اور حملہ آور امریکی افواج کو غرقاب کرنے کی آخری کوشش کے لیے کامیکازی سٹریٹجی کے بانی ایڈمرل اونِیشی کے پاس ایک زبردست ہتھیار موجود تھا ۔ اور وہ تھا اوکا، ہیومین گائیڈڈ خودکش طیارہ جس کا ذکر میں گزشتہ قسط میں کرچکی ہوں۔
امریکی افواج جیسے ہی جزیرہ اوکی ناوا کے ساحلوں پر اتریں یہ دیکھ کر انہیں بیحد حیرت ہوئی کہ ساحل پر انہیں کسی جاپانی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔۔۔۔لیکن۔ یہ ایک ٹریپ تھا۔
جیسے ہی امریکی بحری جہاز ساحل کے نزدیک پہنچ رہے تھے ۔ ایڈمرل اونِیشی نے سواحل کی طرف کامیکازی طیاروں کے گروپس روانہ کردیے۔ اس ابتدائی حملے میں جاں بوجھ کر سب سے پرانے طیارے اور سب سے کم تربیت یافتہ پائلٹس کو بھیجا گیا۔
ان پائلٹس کو محض 1 ہفتے کی تربیت دی گئی تھی جن میں دو دن ٹیک آف، دو دن پرواز اور تین دن غوطہ لگانے اور خود کو امریکی جہازوں سے ٹکرا دینے کی تربیت تھی۔ گویا حملے سے قبل یہ خودکش پائلٹس محض چند دفعہ ہی طیارے میں سوار ہوئے تھے ۔
جیسے ہی کامیکازی طیاروں کے یہ گروپس امریکیوں پر حملہ آور ہوئے امریکی جنگی طیارے ان کا مقابلہ کرنے اور انہیں مارگرانے میں مصروف ہوگئے ۔۔۔۔ اور یہی وقت تھا کہ جب اونِیشی نے اوکا طیاروں سے لیس Batty بمبار طیاروں کو حملے کے احکامات دیے۔
اوکا۔۔۔600 میل رفتار اور 2340 پاؤنڈ دھماکہ خیز مواد سے لیس اس سنگل فلائیٹ خودکش طیاروں کا پہلا سکوارڈن نومبر 1944 میں ترتیب دیا گیا تھا۔ اس سکوارڈن میں صرف سینئر ترین اور سب سے زیادہ تجربے کار پائلٹس کو ہی شامل کیا گیا اس سکوارڈن کو نام دیا گیا “کائیگان جنرائی بوٹائی” بمعنی “بحری آسمانی طوفان “.
ان کی تربیت ایک مشکل ترین کام تھا۔
وہ اس طرح کہ اوکا عام طیاروں کی طرح زمین سے نہیں اڑایا جاسکتا تھا بلکہ اسے میڈیم بمبار طیارے سے ہوا میں ریلیز کیا جاتا تھا۔
گویا ٹریننگ کے لیے ضروری تھا کہ ہر پائلٹ ایک خالی اوکا۔ یعنی جس میں دھماکہ خیز مواد اور انجن نہ ہو ۔ اس میں ہزاروں فٹ کی بلندی سے گلائیڈر کی طرز پر بڑے طیارے سے ریلیز کردینے کے بعد اسے ہدف یعنی زمین تک گلائیڈ کرکے اتارے۔۔۔۔ گویا ٹریننگ مشن بھی سوفیصد ایک زندگی موت کا کھیل تھا اور جو ٹریننگ مشن میں زندہ بچ جائے اسے اصل مشن میں خودکش حملے کے لیے فٹ قرار دے دیا جاتا تھا ۔ اور جو اس ٹریننگ مشن میں مارا جاتا سارے اصل خودکش حملے کے لیے غیر موزوں قرار دے دیا جاتا۔ (فارمیلٹیز !!! )۔
اس پہلے اوکا حملے میں 18 بَیٹی بمبار طیارے شامل تھے جنہیں 50 عدد مٹسبشی زیرو جنگی طیارے ایسکورٹ کررہے تھے۔
امریکی بیڑے سے پچاس میل کے فاصلے پر بَیٹی بمبار طیاروں نے اپنے اوکا لانچ کردیے۔
پہلا اوکا اپنی پوری سپیڈ کے ساتھ “مینرٹ ایل ایبلی” نامی امریکی نیول ڈسٹرائر سے ٹکرایا اور ناقابل یقین حد تک خوفناک دھماکے نے امریکی ڈسٹرائر کو درمیان سے یوں دو ٹکڑے کردیا گویا وہ ہزاروں ٹن کا آہنی جہاز نہیں بلکہ کوئی کاغذ کی کشتی ہو۔ 3 منٹ کے اندر مینرڈ غرقاب ہوگیا ۔ 79 امریکی موقعے پر مارے گئے.
انہی لمحات میں دوسرا اوکا ایک اور امریکی ڈسٹرائر USS Stanley کی طرف بڑھ رہا تھا۔
چند لمحوں میں ہی ایک خوفناک دھماکے کے ساتھ اوکا ڈسٹرائر کے پشت کے پہلو سے ٹکرایا لیکن خوشقسمتی سے پھٹنے کے بجائے اسے پھاڑتا ہوا دوسری سمت جانکلا اور سمندر میں جا گرا۔
تیسرے اوکا کا ہدف بھی یہی ڈسٹرائر تھا لیکن اس دفعہ بھی ان کی قسمت نے ساتھ دیا اور ڈسٹرائر کی طرف سے اوکاکی سمت برستی ہزاروں طیارہ شکن گولیوں کی بوچھاڑ نے اوکا کی کینوپی کو پھاڑتے ہوئے، پائلٹ کو مار ڈالا اور موت کے بعد اس کے ہاتھ سے کنٹرولز خودبخود دب گئے جس سے اوکا کا رخ اوپر کی سمت ہوگیا اور وہ ڈسٹرائر کے اوپر سے نکل گیا ۔
معرکہ اوکی ناوا میں اس کے بعد بھی کئی حملوں میں اوکا کا استعمال جاری رہا۔
لیکن جلد ہی یہ حملے بھی اختتام کو پہنچ گئے کیونکہ اوکا جو بھی وہی مسائل لاحق تھے کہ جو Kaiten کو۔ یعنی کائٹن کی طرح اوکا بھی اپنے طور پر لانچ نہیں ہوسکتے تھے بلکہ جیسے اوکا کو لانچ کے لیے آبدوزکی ضرورت تھی اسی طرح اوکا کو بھی لانچ کے لیے میڈیم بمبار طیاروں کی ضرورت تھی ۔۔۔ چنانچہ جب امریکیوں نے اپنے خونریز اور بڑے پیمانے پر حملوں میں جاپانی بمبار طیاروں کو فضا اور زمین پر ان کی بیسز میں میں بڑے پیمانے پر تںاہ کردیا تو اب جاپان کے پاس کوئی ایسے طیارے ہی نہ بچے تھے کہ جن کی مدد سے اوکا کو لانچ کیا جاسکتا ۔
اس طرح کامیکازی سٹریٹجی اپنے اختتام کی طرف بڑھنے لگی ۔
۔۔۔
اعداد و شمار :
مجموعی طور پر کامیکازی حملوں میں 47 امریکی بحری جہاز غرقاب اور 400 ڈیمج ہوئے۔
ان حملوں میں 5000 امریکی فوجی اور افسر مارے گئے اور تقریباً 3000 زخمی ہوئے ۔
ساتھ ہی ان حملوں میں 3800 کامیکازی پائلٹس نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔
اختتام :
6 اور 9 اگست 1945 کو امریکہ نے جاپان کے دو گنجان آباد شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر تاریخ کے پہلے اور واحد ایٹمی حملے کردیے ۔ ان حملوں میں 2 لاکھ 26 ہزار جاپانی شہری مارے گئے اور ہزاروں مزید زخمی اور معذور ہوئے
اس حملے کے بعد جاپان نے امریکہ کے سامنے غیر مشروط طور پر ہتھیار ڈال دیے اور دیگر حملوں کے ساتھ ساتھ کامیکازی حملوں کا بھی اختتام ہوگیا۔ ساتھ ہی دوسری جنگ عظیم اپنے اختتام کو پہنچی۔
۔۔۔۔۔
کیا آپ جانتے ہیں۔۔۔۔۔؟
جاپان کی طرح جرمنی نے بھی دوسری جنگ عظیم میں ایک خودکش حملہ آور یونٹ تیار کیا تھا جسے Leonidas Squadron کہا جاتا ہے۔ اس کے بانی حینا رائش اور ہٹلر کا ہٹلر کا قریبی ساتھی اوٹو سکورزینی تھے۔
جاپان کے کامیکازی کی جرمن خودکش سکوارڈن کی کامیابیاں بھی انتہائی محدود رہیں۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...