یا اللہ
اے رحیم و کریم
اے قادر مطلق
اے رزاق
اے میرے رب
میرے حال پہ کرم فرما
رزق کے دروازے مجھ پر کھول دے
میرے حال پر خصوصی لطف و کرم فرما
میری لاج رکھ لے میرے مولا
مجھے اپنے بیٹے کی نظروں میں گرنے سے بچا لے میرے مالک –
پچھلے دو ماہ سے میرے پاس اتنے بھی پیسے نہیں کہ بیٹے کو روز کا جیب خرچ دے سکوں
بہت بے بس ہو گیا ہوں میں
اج بے دست و پا ہوا ہوں تو تمھاری یاد آئی ہے -ص
جب سب اچھا تھا تو مجھے کبھی تیری یاد نہیں آئی –
میں نے کبھی تمھارا شکر ادا نہیں کیا
کبھی تیرے آگے سر نہیں جھکایا
کبھی تیرے دیے رزق کو یہ سمجھ کر قبول نہیں کیا کہ یہ تو نے دیا ہے
میں اسے اپنی کمائی سمجھتا رہا
سمجھتا رہا کہ یہ میرے اپنے زور بازو کا کمال ہے
آج دست و بازو سلامت ہیں پر ہاتھ خالی ہیں
ان خالی ہاتھوں کو تیرے در پہ تیرے سامنے پھیلا کر دست سوال کر کے تجھ سے تیرے کرم کی بھیک مانگ رہا ہوں
یہ سوچ کر کہ تیری شان کریمی سے بعید ہے کہ تو کسی محتاج کے پھیلے ہاتھ خالی موڑ دے
تو تو ان کو بھی نواز دیتا اور نوازتا ریتا ہے جو تیرے دشمن ہیں
جو تیرا کھا کر بھی تجھے نہیں مانتے الٹا جھٹلاتے ہیں
تیرے احکامات کی پروا نہیں کرتے
تیری نافرمانی جن کا شیوہ ہے
میں بھی تو بہت گنہگار ہوں
لیکن تیرے نبی کا کلمہ گو ہوں
اپنی کوتاہی کا اعتراف کرتا ہوں اور وعدہ کرتا ھوں کہ کبھی تیرے در سے منہ نہی موڑوں گا ۔۔۔۔۔
کبھی نہیں ۔۔۔۔
کبھی بھی نہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔
میری تعلیم خاصا معقول تھی اور حسن اتفاق یہ ہوا کہ مجھے جو نوکری ملی وہ تعلیم سے زیادہ معقول تھی – اس پر طرہ یہ کہ بچپن سے محنت کا عادی تھا سو دیکھتے ہی دیکھتے ترقی کے زینے طے کرتا چلا گیا – شادی بھی کر لی اور اللہ نے چاند سا بیٹا بھی دے دیا – دن بہت سکون سے گزر رہے تھے – میں اتنا خوش اور مطمئن تھا کہ میں اسے بھی بھول بیٹھا جس کے ہاتھ میں ہر ایک ذی روح کی ڈور ہے – سکون کی زندگی میں حادثے نے جگہ لے لی – حادثہ ' جسے وقت برسوں پالتا رہتا ہے اور پھر جب وہ سامنے آتا ہے تو بڑے بڑوں کے دماغ الٹ کر رہ جاتے ہیں – ایک نوجوان نے آتے ہی میدان مار لیا اور مارتا چلا گیا تو اسی آفس کے سینئرز کے سینوں پر سانپ لوٹنے لگا – یہ وہی سینیٹرز تھے کہ اگر وقت پر مر جاتے تو یہ لقب کبھی نہ پا سکتے کہ وہ سینئر اس لیے تھے کہ جلدی مر نہیں گئے تھے – حسد کی آگ نے ناجانے کتنے گھروں اور کتنے دلوں کو جلایا ہے – اکثر اس میں آگ لگانے والوں کا خود کا دامن جلتا ہے – چند بڑوں نے کمال پلاننگ سے میرا پتہ کاٹ دیا اور مجھے کانوں کان خبر نہ ہوئی – پتہ چلا تو تب جب پانی سر سے خاصا اونچا ہو گیا تھا – اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے مجھے جاب سے ہاتھ چھوڑنا پڑا اور میں سوائے ہاتھ ملنے کے اور کچھ نہ کر سکا – کچھ دن تو مجھے یقین ہی نہ آیا کہ میں واقعی بے روزگار ہو گیا ہوں – جب مسائل نے دامن پکڑا تو ہاتھ پاؤں مارنے کا خیال آیا – دو ماہ تک جوتیاں چٹخانے کے باوجود ناکام رہا تو زندگی اجیرن معلوم ہوئی – مجھے کچھ سمجھ نہ آتا تھا کہ اس حالت سے نکلنے کے لیے میں کروں تو کیا ؟ – اب میں مزدوری کرنے اور ریزھی لگانے سے تو رہا – اتنا سرمایہ بھی پاس نہ تھا کہ کوئی کاروبار شروع کرتا یا کوئی دکان ہی لگا لیتا –
پچھلے دو ماہ جس ازیث میں گزرے تھے یہ میں ہی جانتا تھا – اب تو ادھار بھی ملنا بند ہو گئی تھی – ماں باپ نے بھلے وقتوں پانچ مرلے کا یہ مکان بنوا لیا تھا جو اکلوتی اولاد ہونے کی وجہ سے مجھے مل گیا تھا ورنہ اب تک تو میں سڑک پر آ چکا ہوتا – جب ہر طرف سے مایوس ہوا تو تہجد کی نماز ادا کرنے اور دعا مانگنے کا خیال آیا -ساتھ ہی یاد آیا کہ سالوں سے میں نے اپنے رب کو یاد ہی نہیں کیا تھا – یہ تک یاد نہ تھا کہ آخری بار کب سجدہ کیا تھا – آواز گلے میں رندھ گئی تھی لیکن آنسو تھے کہ میری بے بسی کی کہانی بیان کیے دیتے تھے – پہلے میرا زمان سے ناطہ ٹوٹا اور پھر مکان سے ' میں اپنی ہستی کو گم کر بیٹھا تھا – نامعلوم کتنا وقت گزر گیا مجھے کچھ پتہ نہ تھا – اچانک کسی نے میرے کندھے پر نرمی سے ہاتھ رکھ کر دباؤ ڈالا تو میں بے ساختہ چونک پڑا – میرا بیٹا احمد میریی توجہ کا منتظر تھا – پھر اس نے ہاتھ سے کچھ نکال کر میری گود میں ڈال دیا – میری نظر بے ساختہ اپنی گود پر پڑی – مختلف رنگوں اور جسامت کے نوٹوں نے میری جھولی بھر دی تھی – مجھے حیرت کا شدید جھٹکا لگا –
" یہ ۔۔۔ یہ کیا ۔۔۔کیا ہے بیٹا "
" ابو آپ بجلی کے بل اور دودھ کے پیسوں کے لیے پریشان تھے ناں – کریانے والے کو بھی پیسے دینے ہیں آپ نے "
" ہاں وہ تو ٹھیک ہے لیکن یہ سب "
" بابا یہ میری پہلی کمائی ہے – آپ جلدی سے بجلی کا بل ادا کریں دودھ والے کی حساب چکتا کریں اور کریانے والے انکل کا حساب بھی بے باق کری "
" مگر بیٹا اتنے بہت سے پیسے تمھارے پاس آئے کہاں سے ؟" – میری حیرت برقرار تھی –
" ابو میں نے سکول میں کینٹین لگائی تھی یہ پیسے میں نے وہاں سے کمائے ہیں – سکول کے پرنسپل آپ کے دوست ہیں ناں ' جب انہیں آپ کے حالات کا علم ہوا تو انہوں نے مجھے ٹھیلا لگانے کی اجازت دے دی اور سامان بھی منگوا کر دیا – روز بریک میں آدھا گھنٹہ میں نے سکول میں ٹھیلا لگایا تو دو ماہ میں مجھے جو منافع حاصل ہوا وہ آپ کے سامنے ہے " –
اور میں نے فرط جذبات سے احمد کو گلے لگا لیا –
" بیٹا تم میرا فخر ہو میرا غرور ہو – تم نے مجھ پر یہ واضح کر دیا ہے کہ پیشہ کوئی برا نہیں ہوتا – ہر وہ کام جس سے حلال روزی حاصل ہو قابل فخر ہوتا ہے – ان شاءاللہ آئندہ تمھیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا – میں کروں گا کام چاہے کچھ بھی کرنا پڑے – میں نبھاؤں گا اپنی زمہ داریاں چاہے مجھے ریڑھی ہی کیوں نہ لگانی پڑی " –
ریڑھی کیوں بابا آپ میرے سکول کی کینٹین کا ٹھیکہ لے لیں اور اس میں کتنی کمائی ہے اس کا اندازہ تو آپ کو ہو ہی گیا ہو گا " –
" وہ تو ٹھیک ہے لیکن جو آدمی وہاں پہلے سے کام کر رہا ہے اس کا کیا قصور ہے – میں اس سے کوئی زیادتی نہیں کروں گا – آخر وہ بھی تو ایک باپ ہو گا اس کے بھی تو بیوی بچے ہوں گے – نہیں بیٹا میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جب تک کوئی نوکری نہیں ملتی میں ریڑھی لگا لوں لیکن آپ لوگوں کو پریشان نہیں ہونے دوں گا "
" ابو وہ آدمی ٹھیکہ ختم کر کے جا رہا ہے – اس نے پرنسپل صاحب کے ساتھ فراڈ کیا ہے – اب انہیں نئے بندے کی تلاش ہے – آپ خود لے لیں یہ ٹھیکہ اور ہمارے سکول میں پڑھانا بھی شروع کر دیں – اللہ کرم کرے گا حالات بہتر ہو جائیں گے – اتنی کمائی ہو گی کہ آپ خود بھی حیران رہ جائیں گے "
" میری اصل کمائی تو تم ہو بیٹا جس نے مجھے واقعی حیران کر دیا ہے '
I am proud of my son
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...