(Last Updated On: )
جدید ناول نگاروں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ان میں “علی اکبر ناطق” ایک اہم ناول نگار کے طور پر ہمارے سامنے آئے ہیں۔ علی اکبر ناطق کا تعلق اوکاڑہ کی زرخیز زمین سے ہے۔ علی اکبر ناطق اپنے افسانوں کے مجموعہ “قائم دین” کی نسبت سے شہرت حاصل کر چکے ہیں۔ ان کی شاعری بھی کمال کی ہے مگر انہوں نے ایک ناول نگار کی حیثیت سے اپنے پہلے ناول “نولکھی کوٹھی” سے اپنی پہچان قائم کی ہے۔ تقسیم ہند پر لکھے گئے بہت سے ناولوں کے برعکس “نولکھی کوٹھی” ناول کی کہانی ہندو مسلم دشمنی نہیں ہے بلکہ انگریز دور کے پنجاب کی عکاسی کرتی ہے۔ علی اکبر ناطق ہمارے ہی دور کے ایک نئے اور جدید ناول نگار ہیں، “نولکھی کوٹھی” کے بعد دسمبر 2020ء میں ان کا ایک اور ناول “کماری والا” کے نام سے مارکیٹ میں آ چکا ہے۔ جسے بک کارنر جہلم، پاکستان نے شائع کیا ہے۔ علی اکبر ناطق کا ناول “کماری والا” 638 صفحات پر مشتمل ایک ضخیم ناول ہے۔ جس کو علی اکبر ناطق نے قاری کی سہولت کے لئے 82 چھوٹے چھوٹے ابواب میں تقسیم کیا ہے۔
اس ناول کے اہم کرداروں میں شاد بیگم عرف شاداں، کا کردار خاصی اہمیت کا حامل ہے اس کے علاوہ ضامن ایک ایسا کردار ہے کہ جس کے منہ سے ناول کی ساری کہانی اگلوائی گئی ہے۔ شیر محمد ایک ڈسپنسری میں ملازم کی حیثیت سے قاری کے سامنے آتا ہے، جلال ڈسپنسری کا کمپوڈر ہے۔ یونس جلال کا دوست ہے۔ زینت عرف زینی ایک مرکزی کردار کے طور پر سامنے آتی ہے۔ عدیلہ ایک نرس اور زینت کی ماں کے کردار کے طور پر قاری کی ہمدردیاں سمیٹتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کے بعد ایک اور حیران کن کردار شیزہ کے نام سے اچانک ابھر آتا ہے اور قاری کو اس گمان میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ وہ ہی اس ساری کہانی میں ہمدردیاں حاصل کرنے کی اصل حقدار ہے۔
ممتاز مفتی کے ناول “علی پور کا ایلی” کی طرح مذکورہ ناول بھی ایک آپ بیتی کے طور پر سامنے آتا ہے جس کی ساری کہانی ایک کردار “ضامن” کے منہ سے سنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ جس طرح احمد ندیم قاسمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کے افسانوں، ناولوں اور تحریروں میں گوبر کی بو آتی ہے، بالکل اسی طرح مذکورہ ناول میں بھی گوبر کی بو آتی ہے، یعنی دیہی زندگی اور اس کے اتار چڑھاؤ کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ جیسے انتظار حسین کے بارے میں مشہور ہے کہ ان کی تحریروں سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مشکل کے لمحات میں “دعائے قنوت” نہیں پڑھتے بلکہ “نادِ علی” سے کام لیتے ہیں بالکل مذکورہ ناول میں بھی کہانی کا اسلوب ویسا ہی ہے اور جا بجا نادِ علی کا ذکر قاری کو ملتا ہے۔ سب سے اہم اور بڑی بات یہ ہے جس طرح شوکت صدیقی کے ناولوں خاص طور پر “جانگلوس” میں پنجاب کی دیہی زندگی میں ڈاکو، چوروں اور قتل و غارت کے تذکرے ملتے ہیں۔ مذکورہ ناول کے پلاٹ اور اسلوب سے بھی بالکل ویسی ہی بو اور منظر نگاری قاری کو محظوظ کرتی ہے۔
کہانی میں رومانوی عناصر بھی موجود ہیں ایک مرکزی اور کہانی کا بیان کنندہ کردار ضامن مختلف اوقات میں مختلف عورتوں کی محبت میں گرفتار ہوتا ہوا نظرآتا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ ناول میں حکومت کا صحت کے حوالے سے عام دیہاتیوں کے ساتھ ناروا سلوک دکھایا گیا ہے۔ دیہاتوں میں چوری اور قتل و غارت کے علاوہ باہمی دشمنی کی بڑے خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ پوری کہانی کے اسلوب، منظرکشی، فرقہ واریت، قتل و غارت، پلاٹ اور مناسبت کے حوالے سے بہتر ہوگا کہ حوالہ جات اور کرداروں کی مدد سے تجزیہ کیا جائے۔
“میں ان کی لاعلمی پر حیران کن نہیں ہوا، نہ میں نے اسے کوئی عجیب شے سمجھا، شکر ہے وہ بوڑھا وساوے والا تک تو گیا تھا اور اسے اس بات کی تسلی بھی تھی کہ وہاں ضرورت کی ہر شے مل جاتی ہے۔ کاش یہ بات شہروں کے باسی بھی جان لیتے کے قصبوں میں بھی ضرورت کی ہر شے موجود ہوتی ہے، بس انہیں زندگی کے ٹھہراؤ کا علم ہو بلکہ شاہ علی بخاری جیسے خدا کے نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں جو فساد نہیں فقط امن کے داعی ہیں۔” :1
علی اکبر ناطق،کماری والا، بک کارنر، جہلم، اشاعت اول، دسمبر، 2020، ص: 23
ضامن اور ایک دیہاتی کی اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے کہ دیہاتی سیدھے سادے، قناعت پسند اور اپنی زندگی سے مطمئن ہوتے ہیں جن کے نزدیک صرف ان کی بنیادی ضروریات کا پورا ہونا ہی ان کی ساری زندگی کا حسن ہے، اور وہ اس سے بڑھ کر کچھ نہیں چاہتے۔
پنجاب کی دیہی زندگی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے۔ ایک دیہات میں رہنے والے سادہ لوح لوگوں کو کن مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور وہ اپنے حق کے لیے کیا کچھ کرسکتے ہیں اور وہ کس کے سامنے التجا اور درخواست گزاری کر سکتے ہیں یا حکومت دیہاتیوں کے ساتھ صحت کی سہولیات کے حوالے سے کس طرح کا سلوک روا رکھتی ہے۔ اقتباس ملاحظہ فرمائیں!
“یہ بات بھی پورے گاؤں میں مشہور تھی کہ ڈسپنسری میں حکومت کی طرف سے ملنے والی مفت دوائیاں جلال الدین شہر میں جا کر دوبارہ بیچ آتا ہے اور اس سے ملنے والے پیسے گاؤں کے لوگوں کو ادھار دے دیتا ہے۔” :2
علی اکبر ناطق، کماری والا، بک کارنر، جہلم، اشاعت اول، دسمبر، 2020،ص: 41
ایک جگہ پر کسی دیہاتی آدمی سے ضامن (کہانی سنانے والا) جب مکالمہ کرتا ہے تو بالکل اس کردار کے لب و لہجہ کی عکاسی اس کے اردو اور پنجابی کے ملے جلے الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے، اور یہ ساری گفتگو لسانی تشکیلات کے زمرے میں آتی ہے، حوالہ ملاحظہ فرمائیں!
“تسیں میرا خیال ہے بالکل ہی نئے ہو۔ اس علاقے کو نہیں جانتے۔ میں سمجھا تھا ٹبے والوں سے کوئی رشتہ ناطہ ہے۔ اب شاید باباجی مطمئن ہو چکے تھے کہ میں کسی کو نہیں جانتا۔ تھوڑی دیر تک وہ گھوڑے کی ایال پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ پھر بولے، بیٹا ایس ٹبے کی لمبی کہانیاں ہیں۔ بڑے بڑے بیبے بندے کھا گئے ایہہ سورمے۔ اپنے سگے بھائیوں اور چچوں کو نہیں چھوڑا۔” :3
علی اکبر ناطق، کماری والا، بک کارنر، جہلم، اشاعت اول، دسمبر،2020،ص: 41
پوری کہانی میں پنجاب کی دیہاتی زندگی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے کہ کس طرح دیہاتی لوگ آپس میں زمین اور جائیداد کے معاملات میں دشمنی پال رکھتے ہیں اور کس طرح گاؤں یا دیہاتوں کے لوگ آسانی سے قتل و غارت جیسے واقعات کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ناول کے پلاٹ اور اسلوب سے بھی اس دشمنی اور قتل و غارت گری کی بھرپور عکاسی بالکل درست انداز میں قاری کے سامنے آتی ہے بلکہ خونی رشتوں میں بھی ایسی دشمنی اور باہمی چپقلش دکھائی گئی ہے۔ بھائی اپنے بھائی کا قتل صرف اس بنیاد پر کر دیتا ہے کہ وہ اس کی زمین اپنے اختیار میں لے لے گا یا اپنے چچا کی جائیداد پر قبضہ کرنے کی نیت سے اسے قتل کرتا ہوا دکھایا گیا ہے ۔
ناول کا پلاٹ انتہائی خوبصورت اور مربوط ہے۔ اپنے وقت اور ماضی کی درست عکاسی کرتا ہے، کردار آزاد ہیں، اسلوب جاندار اور انتہائی سادہ ہے، پوری کہانی انتہائی قابل فہم اور دلچسپ ہے کہ جس میں ایک طرف تو دیہات کی زندگی کی بھر پور عکاسی کی گئی ہے اور دوسری طرف شہر کی رنگینیوں میں کھو جانے بلکہ غرق ہوجانے کی مکمل داستان ہے۔ فنی لحاظ سے ایک مکمل ناول ہے، منظر کشی، محاکات نگاری اور سادہ اسلوب سے کام لیا گیا ہے۔ جبکہ فکری سطح پر بھی ناول ایک خوبصورت تحریر ہے، جس میں معاشرے میں آج بھی جن مسائل کا سامنا در پیش ہے ان کی مکمل عکاسی کی گئی ہے۔