مجھے سب کچھ یاد ہے .2فروری 2007 ، صبح 10بجے پاکستان سے اردو کے مشہور نقاد صبا اکرام کا فون تھا۔ ”اردو کہانی یتیم ہوگئی۔ کملیشور کے جانے کا جتنا دکھ آپ ہندستانیوں کو ہوگا، ممکن ہے شاید آپ اتفاق نہ کریں، ہمارے لیے بھی یہ کسی اپنے کو کھونے جیسا صدمہ ہے۔ جان لینے والا۔ صبا بولتے رہے لیکن میرے کانوں میں صرف ایک ہی جملے کی بازگشت سنائی دے رہی تھی— ’اردو کہانی یتیم ہوگئی‘ لیکن اردو کہانی کہاں؟ کملیشور تو ہندی میں لکھتے تھے۔ کملیشور تو ہندی کے قلمکار تھے۔ ایک ایسا فن کار جو ہندی کے علاوہ اردو سے بھی محبت رکھتا تھا اور ایسی شدید محبت کہ اس محبت کا تذکرہ الفاظ میں نہیں ہوسکتا۔ کملیشور کو تو ہم لوگوں نے اردو میں ہی پڑھا تھا۔ اس وقت ہندستان سے ’شمع، روبی، بیسویں صدی‘ جیسے رسائل پوری اردو دنیا میں اپنی چمک بکھیر رہے تھے۔ ’شمع‘ اور ’روبی‘ کو بند ہوئے برسوں ہوگئے۔ لیکن ایک وقت تھا، جب ان تمام رسائل میں کملیشور کا جادو بولتا تھا۔ کملیشور کی ایک معصوم سی تصویر۔ انتہائی ذہین چمکتی آنکھیں۔ یہ چہرہ اس وقت کے تمام اردو گھرانوں کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن چکا تھا۔ کملیشور کی کہانیاں اور ان کہانیوں کی خوبصورت زبان سیدھے دل کی گہرائیوں میں اُترجانے کا فن جانتی تھی۔ بعد میں اردو میں لکھنا کم ضرور ہوگیا لیکن کملیشور کی اردو سے محبت باقی رہی—
صبا اکرام فون پر مجھ سے پوچھ رہے تھے، ”آخری وقت میں کملیشور کو کیا ہوگیا تھا۔ گیان چند جین کی کتاب پر ان کے بیان کا پاکستان میں کافی چرچا ہے۔ آپ نے پڑھا ہے؟“
اچانک مجھے احساس ہوا، سرحدوں کے درمیان…. ایک غلط فہمی بھرے بیان سے کہیں فاصلے نہ پیدا ہوگئے ہوں۔ گیان چند جین کی یہ وہی متنازعہ کتاب تھی جس میں انہوں نے اردو اور مسلمانوں کو لے کرناراضگی ظاہر کی تھی۔ اردو میں اس کتاب کو لے کرانتہا پسندی کی حد تک خطرناک رویہ اپنایا گیا تھا۔ یہاں تک کہ شدت پسند اردو والوں کی طرف سے انہیں جان سے مار دینے کے فتوے بھی مل گئے تھے۔ مجھے یاد آیا ، میں نے اس سلسلے میں کملیشور کا مضمون شاید ’سہارا‘ کے سنڈے ایڈیشن میں پڑھا تھا۔ مجھے امید تھی کہ کملیشور گیان چند جین کے سُر میں سر ضرور ملائیں گے۔ لیکن یہاں بھی ایک کٹّر اردو والا یا اردو دوست موجود تھا۔ اردو سے دشمنی بھلا کملیشور کو کیسے منظور ہوسکتی تھی…. میں نے فوراً صبا اکرام کی غلط فہمی دور کی— ’نہیں‘ صبا بھائی ، کملیشور آخر تک اردو کے دوست ہی رہے۔ اگر پاکستان کی ادبی محفلوں میں کملیشور کو لے کر کسی بھی طرح کی غلط فہمی کا کہرہ چھایا ہے تو اس کہرے کو ہٹانا آپ کا بھی فرض ہے۔ کملیشور نے اردو میں تو لکھنا بند کیا تھا لیکن اردو سے محبت کے چشمے جاری تھے۔ وہ اپنی کتاب ”کتنے پاکستان“ کے ہنڈی ایڈیشن سے زیادہ اردو ایڈیشن کو پسند کرتے تھے— اور وہ بھی خاص کر پاکستان میں‘ اردو میں شایع ہوئی کتاب تو جیسے ان کی زندگی بن گئی تھی۔
جانے والے کبھی نہیں آتے
جانے والوں کی یاد آتی ہے
میں اکثر سوچتا ہوں موت کی پیمائش عمر سے کیوں کی جاتی ہے۔ کملیشور 75کے تھے یا 25کے، اس سے کہاں فرق پڑتا ہے۔ وہ چاہے دو سال کا معصوم بچہ ہو یا اسّی سال کا بزرگ، لوگ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ جو آپ کی دنیا، آپ کی بزم چھوڑ کر جارہا ہے، وہ اب کبھی واپس نہیں آئے گا۔ لیکن …. کملیشور گئے ہی کہاں، کملیشور نے اپنی کہانیوں اور کرداروں کی جو دنیا آباد کی ہے اُس کی گونج تو کبھی بند ہی نہیں ہوگی اور بڑا فن کار مرتا کہاں ہے۔ کملیشور سب کے دوست تھے— شاید ہر ملنے والا ان کے لیے ایک کردار کی مانند تھا، جس سے باتیں کرتے ہوئے وہ ان میں کہانیاں تلاش کر لیتے تھے۔
میں دہلی 85 میں آیا۔ دہلی میں دو لوگوں سے ملنے کی تمنا تھی ایک راجندر یادو، دوسرے کملیشور— یا دو جی کی قربتیں اور محبتیں مجھے دوست بنا گئیں— مگر کملیشور جی سے ملاقات کے ہرنئے موڑ پر میں ”احترام و عقیدت کے پھول بھی لے کر حاضر رہتا۔ ایک بوڑھے سے قد کا معصوم سا وجود دیکھتے ہی دیکھتے دیو مالائی کہانیوں کے ہیرو میں تبدیل ہوجاتا۔ ہر بار گہری چمک اور حیران کرنے والی ان آنکھوں میں اردو کے لیے محبت کی ایسی خوشبو دیکھتا کہ جی چاہتا کملیشور جی سے پوچھوں…. آپ نے اردو میں لکھنا بند کیوں کردیا؟“
ملاقاتوں کے کتنے ہی سلسلے تھے جو گھر سے لے کر سیمیناروں تک قائم رہے۔ شاید سال بھر پہلے کی بات تھی— انڈیا انٹرنیشنل کے باہر گیلری میں مجھے کرسی پر خاموشی سے بیٹھے ہوئے کملیشور جی مل گئے۔ شاید کچھ دن پہلے ہی ممبئی سے لوٹے تھے۔ چہرہ ماضی اور درد کو سمیٹے ہوئے۔ وہ اکیلے تھے۔ میں نے آداب کیا اور پاس والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ گفتگو شروع ہوگئی۔ اپنی اور بیوی کی بیماری کی باتیں‘ ادب اور کہانی کی…. اور پھر اردو کی باتیں۔
ان کا لہجہ اداس تھا— وہ لوگ چلے گئے، جو محبتیں لٹایا کرتے تھے…. یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں….!
میرا جی چاہا کہ اس مکالمے کو آگے بڑھاو ¿ں— لیکن ہر بار اس بستی میں نئے لوگ بھی آجاتے ہیں۔ بستی تو ہر بار آباد رہتی ہے۔
”آپ نے اردو میں لکھنا بند کردیا۔ لیکن اردو والے آپ کو نہیں بھولے۔“ آنکھوں کی جھیل میں مسکراہٹوں کے چراغ تیر گئے۔ بھیشم ساہنی کی کہانی ’سلمیٰ آپا‘ کی طرح اس دن بھی میں یہ پوچھنے کی ہمت نہ کرسکا کہ کیا اردو میں جو کہانیاں چھپتی رہیں وہ آپ خود ہی لکھ کر بھیجتے رہے یا وہ کہانیاں ترجمہ کے طورپر شایع ہوتی رہیں۔ بھیشم ساہنی کی کہانی سلمیٰ آپا ‘ کا رخ بھی یہی تھا— جب کہانی کے ہیرو نے پاکستان میں سلمیٰ آپا کا گھر تلاش کر لیا اور رات بھر وہاں مہمان نوازی کے نئے باب کو دیکھتا پڑھتا رہا۔ مگر لوٹتے ہوئے یہ بات اسے چبھتی رہی۔ کیا وہ سچ مچ سلمیٰ آپا تھیں…. مجھے لگتا تھا، اگر کملیشور جی بھولے سے یہ بھی کہہ دیں گے کہ نہیں ذوقی یار دوستوں کی مہربانی ، مجھے اردو کہاں آتی ہے…. تو شاید مجھے ایک دھکّا سا لگے گا۔ جس آدمی کی کہانیاں اردو میں پڑھتے ہوئے میں نے لکھنا سیکھا، اسے اردو نہیں آتی۔ شاید اسی لیے اتنی بہت ساری ملاقاتوں کے باوجود میں کبھی یہ پوچھنے کی جرا ¿ت نہیں کرسکا کہ کملیشور جی ، کیا سچ مچ وہ اردو میں لکھی گئی کہانیاں تھیں، یا ترجمہ تھیں۔
اپنی شہرہ آفاق تخلیقات کے لیے ہمیشہ یاد کیے جانے والے کملیشور اپنے آخری ایام میں ہندی اردو زبان اور ادب کا ملا جلا اتہاس تیار کرنا چاہتے تھے۔ اردو سے ان کی محبت اس سے بھی ظاہر ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی بھی پہلو یا گوشہ پر ان کا اپنا نظریہ ہوا کرتا تھا۔ اس نظریے کو پرکھنے اور عملی جامہ پہنانے تک وہ کافی وقت لیا کرتے تھے۔ اپنے آخری انٹرویو میں (ششی کمار جھا) وہ رسم الخط کے بارے میں اپنا نظریہ صاف صاف ظاہر کرتے ہیں۔ بات رسم الخط کی آگئی ہے تو یہ کہنا ضروری ہے کہ جس وقت اردو کا رسم الخط بدلنے کی بات چل رہی تھی، کملیشور اور مدرا کچھس اردو کی پر زور حمایت میں سامنے آئے تھے۔ ایک زمانے میں رسم الخط بدلنے کی تائید خودار دو کی مشہور ادیبہ عصمت چغتائی نے بھی کی تھی اور اردو میں ان کے بیان کے خلاف زبردست آندولن ہوا تھا۔ نامور جی کے مضمون باسی بھات میں خدا کا ساجھا پر‘ بھی کافی ہنگامہ ہوا تھا۔ لیکن آج کے نامور جی رسم الخط بدلنے کے حق میں بالکل نہیں ہیں۔ یہ خوبی میں نے کملیشور جی کے علاوہ نامور جی میں بھی شدت سے محسوس کی کہ وہ اردو کے کتنے بڑے حمایتی ہیں۔ نامور جی اردو کی کسی بھی نئی جانکاری کے لیے فوراً قلم نکال کر ایک چھوٹے سے معصوم بچے میں بدل جاتے ہیں اور یہی ان کی عظمت کی پہچان ہے۔ بات کملیشور اور ہندی اردو کی ادھوری داستاں کی چل رہی تھی، اس لیے آخری انٹرویو سے یہاں ایک بیان نقل کرنا مجھے ضروری معلوم ہوتا ہے۔
”آخرکار، رسم الخط، زبان کے کردار‘ کو طے کرنے لگتا ہے۔ اس شکل میں مجھے لگتا ہے کہ یہ ہندی اردو کی زبان اور ادب کا ملا جلا اتہاس ہے۔ جو 1857سے بہت پہلے بننا شروع ہوچکا تھا۔ اس لیے ہم دیکھیں کہ ہمارا عوامی اتہاس کیا ہے؟ راجا مہاراجا، جواڑوں کا اتہاس اپنی جگہ ہے۔ سن 1857کو اسی سے جوڑ دیا جاتا ہے اور لگتا ہے کہ یکایک کچھ ایسا دھماکہ ہوا کہ ہندو اور آئے ہوئے مسلمان ساتھ ہوگئے۔ مجھے یہ طریقہ کار غلط لگتا ہے۔
ہماری تہذیبی وراثت، چاہے وہ چین سے لی گئی ہو، تبت سے، قندھار سے یا وسط ایشیا سے، اسے مٹانے کی کوشش بھی جاری رہی ہے۔ ہماری تہذیبی دنیا میں آج کل مذہب کے نام پر اور تہذیبوں کی جدو جہد کو لے کر آریہ تہذیب، دراوڑ تہذیب تک، آدیباسی تہذیب تک، سب ایک دوسرے سے کم و بیش ملتی جلتی رہی ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ مذہب کی گھٹیا شکل کو لے کر تہذیبوں کی ٹکراہٹ کا سوال کیوں اٹھتا ہے۔ تہذیبیں صرف مل سکتی ہیں— ان میں ٹکراو ¿ نہیں ہوسکتا— جیسے پانی پانی میں ملتا ہے— جدو جہد یا سنگھرش کی سوچ مغربی ہے۔ چونکہ ان کا نظریہ نو آبادیات کا رہا ہے، اس لیے انہیں ہر جگہ جدو جہد کا سامنا کرنا پڑا۔
کملیشور فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے— کتنے پاکستان‘ کو لے کر پاکستان میں زبردست ردّ عمل ہوا۔ لیکن کملیشور اور فرقہ واریت در اصل دو مختلف سرے تھے جو کبھی نہیں مل سکتے تھے۔ بھاجپا کے چھ سالوں کی حکومت کے دوران میں نے ایک مضمون قلم بند کیا۔ مضمون میں مجھے افسوس کے ساتھ یہ بھی لکھنا پڑا تھا— اگر بھاجپا دوبارہ سرکار بنا لیتی ہے تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے اردو ادیبوں کا پورا خیمہ بھاجپا میں شامل ہوسکتا ہے۔ لیکن تب بھی راجندر یادو، نامور جی اور کملیشور جیسے پانچ فیصد لوگ ہوں گے جو پریشان کن وقت میں بھی فرقہ واریت سے لڑتے رہےں گے۔‘ گودھرا گجرات کے واقعات کو لے کر انہی دنوں میری ایک کتاب شائع ہوئی تھی ’ لیباریٹری‘— کا نفلواینس انٹرنیشنل نے کتاب کا اجراءکرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ میں نے کملیشور جی کو فون لگایا تو وہ بخوشی تیار ہوگئے۔ اجراءمیں کی گئی ان کی تاریخی تقریر 21 ستمبر 2003 کو یو این آئی اردو نے ہندستان کے تمام اردو اخبارات کے لیے جاری کیا۔ یہ تقریر اتنی تیز رو، واضح اور دھماکے دار تھی، کہ بعد میں بہت دنوں تک اس پر لگاتار رد عمل آتے رہے۔ میں اس تاریخی تقریر کے کچھ مختصر حصے یہاں پیش کر رہا ہوں، تاکہ یہ سمجھا جاسکے کہ وہ فرقہ واریت کے کتنے کٹّر مخالف تھے۔
”آج کے ہندستان میں ہر زبان کے، ہر قلم کار پر فرض ہوگیا ہے کہ اب وہ کم از کم چند برسوں کے لیے ہی سہی اپنے ادبی ذائقہ اور آرٹس کے مظاہرے کے لیے نہ لکھے بلکہ اس وقت کی بربریت اور انسانی دشمنی کی دستاویز تیار کرے کہ آج کے ادب میں انسانی تکلیف کے اظہار بہت کم ہیں— لیکن انسان دوستی اور انسانی درد مندی آج کے ادب میں نمایاں ہوگئی ہے۔ کیونکہ آج کا تخلیق کار اپنی تاریخ کو پہچاننے کی کوشش کر رہا ہے۔ جبکہ ایک خاص طبقہ تاریخ کا خاکہ بدلنے پر تلا ہے۔ نئے مورخ آج کے ہندستان کو ایک ہزار کی علامی کا جو احساس دلا رہے ہیں، وہ بالکل غلط ہے کیونکہ ملک کی 5000 سال کی پوری تہذیب کے جتنے معرکے، نظر سے گزرتے ہیں، وہ سب کے سب مذہب کے خلاف عوامی تحریک کی پیداوار ہیں۔
اس سلسلے میں بیداری کی تحریک سب سے نمایاں ہے، کیونکہ یہ شروع میں مذہبی تحریک نہیں، بلکہ انسان کے نجات کی تحریک تھی۔ مذہب کا زور پھر سے نمایاں ہے۔ کیونکہ یہ شروع میں مذہبی تحریک نہیں، بلکہ انسان کے نجات کی تحریک تھی۔ مذہب کا زور پھر سے نمایاں ہے۔ پھر ایک تحریک کی ضرورت ہے اور یہ تحریک قلم کار یا تخلیق کار ہی چلا سکتے ہیں کیونکہ تخلیق کار پتھروں کو توڑ کر راستے بنانے والی اس طاقتور اندرونی لہر کا استعارا ہیں جو ندی میں اوپر اوپر بہنے والی بہاو ¿ سے کوئی اثر لیے بغیر اپنا کام کرتی رہتی ہے۔ آج اقلیت اکثریت، ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی کی پہچان اتنی ضروری نہیں ہے اور تاریخ ان دستاویزوں میں بھی محفوظ رہ سکتی ہے جسے ہم آج کی کہانی کہتے ہیں۔“
کملیشور چلے گئے…. لیکن ابھی بھی محسوس کر رہا ہوں، انڈیا ہیبی ٹیٹ میں خاموش کرسی پر بیٹھا ہوا ایک لے جنڈ، میری طرف دیکھ رہا ہے— ’ یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں۔‘ دو زندہ، جاگتی آنکھیں جیسی میری آنکھوں میں اتر گئی ہوں— اب یاروں کی دور بسائی گئی بستیوں میں خاموشی سے اٹھ کر ایک اور شخص چلا گیا— خوفناک تنہائی ہے— اور اس تنہائی میں ، کملیشور کی ڈائری میں کچھ لفظ بار بار میرے کانوں میں ڈوبتے اور ابھرتے ہیں۔
”ادھر پھر دیکھ رہا ہوں…. لوگ دنیا جہان کا سپنا لے کر آتے ہیں اور اپنا سپنا لے کر چلے جاتے ہیں…. اسی لیے تو لوگوں کے سپنے ، چھوٹے ہوتے جاتے ہیں…. جئیں گے وہی جو صرف اور صرف اپنا سپنا لے کر آتے ہیں اور دنیا جہاں کو یہ سپنا دے کر چلے جاتے ہیں۔ رینو کی طرح، دشنیت کی طرح۔“
میں تنہائی کی وادیوں تنہا میں بیٹھا ہوا کملیشور کے ان الفاظ میں صرف اتنا جوڑتا ہوں— رینو کی طرح، دشینت کی طرح، اور کملیشور کی طرح—
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...