مجھے بچپن سے ہی خواہش تھی کہ مجھے کسی لڑکی سے محبت ہوجائے۔میٹرک میں پہنچا تونوٹ کیا کہ ہماری گلی میں ایک لڑکی علی الصبح بڑی مستانہ چال چلتی ہوئی گزرتی ہے اور اس کے انداز میں بڑی بے فکری ہوتی ہے ۔مجھے اس سے محبت ہوگئی۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اسے کیسے اپنی محبت کے بارے میں بتایا جائے۔پھر میں نے ایک طریقہ سوچا‘ ایک کاغذ پر حال ِ دل لکھا ‘ کاغذ پر'ٹی روز‘ کا چھڑکائو کیا اور ایک گولا سا بنا کر ایک دن چھت سے اُس لڑکی کے آگے پھینک دیا اور خود جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ہماری چھت کے اوپر ایک کھڑکی تھی ۔میں کھڑکی کی درز میں سے دیکھنے لگا۔ لڑکی یکدم رک گئی۔ اس نے پہلے گلی میں اِدھر اُدھر دیکھا‘ پھر نیچے جھک کر رقعہ اٹھایا اور بے فکری سے آگے بڑھ گئی۔میرے دل کے تار بجے بار بار…میں خوشی سے گنگنانے لگا…میں کامیاب ہوگیا…میں کامیاب ہوگیا!!!
ساری رات مجھے نیند نہیں آئی‘ پتا نہیں اس نے رقعہ پڑھ کر کیا سوچا ہوگا‘ کہیں اپنے باپ کو نہ بتا دیا ہو۔ مسرت اور خوف بار بار مجھے کروٹیں بدلنے پر مجبور کرتے رہے۔ اگلی صبح میں چھت کی کھڑکی سے جھانکنے لگا۔ جیسے ہی وہ مجھے آتی دکھائی دی ‘ میں نے کھڑکی کھول دی اور سامنے کھڑا ہوگیا۔ اس نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی اور آگے بڑھ گئی۔ ایک لمحے کے لیے مجھے یوں لگا جیسے اس نے میرے رقعے کا کوئی خاص اثر نہیںلیا‘ یقینا الفاظ یا 'ٹی روز‘ میں کوئی کمی رہ گئی ہوگی۔میں نے دوبارہ ہمت کرنے کی ٹھانی اور اگلی صبح ایک اور رقعہ مزید خوشخطی کے ساتھ لکھا اور اس کے آخر میں ایک دل بنا کر اس میں تیر پیوست کردیا۔اب کی بار مجھے یقین تھا کہ پتھر دل ضرور پگھلے گا۔ وہ پھر آئی‘ میں نے پھر اوپر سے کاغذ پھینکا‘ اس نے پہلی بار کی طرح پھر کاغذ اٹھایا اور چلی گئی ۔ ایک ہفتے تک یہی ہوتا رہا‘ وہ رقعہ اٹھا تو لیتی تھی لیکن جواب نہیں دیتی تھی۔ بالآخر میں نے فیصلہ کیا کہ اس کا پیچھا کروں اور راستے میں کہیں روک کر کہوں کہ 'لکھے جو خط تجھے وہ تیری یاد میں ‘ بالکل بے کار گئے‘…اگلی صبح وہ آئی تو میں اس کے پیچھے پیچھے چل پڑا‘ دو تین گلیاں مسلسل اس کا پیچھا کرنے پر یہ خوفناک حقیقت آشکار ہوئی کہ وہ کاغذ چننے والی تھی…!!!
دوسری محبت مجھے ببلی سے ہوئی…ببلی انتہائی خوبصورت تھی‘ ہمارے سامنے والے گھر کے نئے کرائے داروں کی بیٹی تھی۔ محلے میں کبھی کسی نے اسے بولتے نہیں سنا تھا‘ پہلے تو مجھے شک ہوا کہ ببلی گونگی ہے‘ لیکن پھر میں نے ایک دن اسے چھت پر اپنی ماں سے گفتگو کرتے دیکھا تو مجھے یقین ہوگیا کہ وہ صرف کم گو ہے۔ یہی تو میں چاہتا تھا‘ مجھے یکدم یاد آیا کہ مجھے تو زیادہ بولنے والی لڑکیاں زہر لگتی ہیں۔ لڑکی تو وہ اچھی ہوتی ہے جو بس ہاں ہوں میں جواب دیتی رہے۔اللہ جانتا ہے یہ سوچتے ہی مجھے 13 سیکنڈ کے اندر ببلی سے محبت ہوگئی۔ببلی اتنی خوبصورت تھی کہ بعض اوقات مجھے لگتا تھا کہ میں کوئی آئینہ دیکھ رہا ہوں…سوری…میرا مطلب ہے ایسا لگتا تھا جیسے میں کوئی خواب دیکھ رہا ہوں۔لیکن مسئلہ تھا کہ ببلی سے بات کیسے کی جائے۔وہ نہ گلی میں آتی تھی نہ کسی کے گھر جاتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ کپڑے ڈالنے چھت پر آتی تھی لیکن اُس کی اور ہماری چھت میں اتنا فاصلہ تھا کہ اگر میں ببلی سے کوئی جملہ کہتا تو ببلی سے پہلے اردگرد کے چھ گھروں میں آواز جانا تھی۔لیکن خدا وسیلہ بنا ہی دیتا ہے۔ ایک دن ببلی چھت پر سوکھے کپڑے اتارنے گئی تو کافی تیز ہوا چل رہی تھی‘ ایک چادر اس کے ہاتھ سے اڑ کر نیچے گلی میں جاگری۔ ببلی پریشان ہوکر چھت کی دیوار سے نیچے جھانکنے لگی۔ ہوا کی وجہ سے چادر مزید اڑ کر دو تین گھر دور چلی گئی۔ ایک دم سے میری باچھیں کھل گئیں۔ اس سے اچھا موقع کوئی نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے جمپ لگایا اور ایک چھلانگ میں تین تین سیڑھیاں پھلانگتا ہوا باہر گلی میں آیا، بھاگ کر چادر پکڑی اور ببلی کے گھر کے پاس آگیا۔ اوپر سے ببلی نے مجھے دیکھ لیا تھا‘ پہلے تو وہ جھجکی‘ پھر سیڑھیوں سے نیچے آئی اور دروازہ کھولا۔ میں نے اپنے بالوں کو ایک سٹائل سے جھٹکا دیا‘ ہلکا سا مسکرایا اورایک ادا سے چادر اس کی طرف بڑھائی ۔وہ یکدم شرمائی ‘ کسمسائی‘ لب ہلے اور آواز آئی ''تیری مہربانی‘‘…اس کی آواز سنتے ہی چراغوں میں روشنی نہ رہی‘ دل کا گھروندا ٹوٹ گیا‘ سپنے اجڑ گئے‘ آنکھیں پتھرا گئیں‘ دماغ مائوف ہوگیا‘ کان بند ہوگئے…وغیرہ وغیرہ…!!!
تیسری محبت مجھے اُس سے ہوئی جسے آپ اچھی طرح جانتے ہیں…جی ہاں‘ شکیلہ!شروع شروع میں شکیلہ مجھے بالکل پسند نہیں تھی کیونکہ وہ میرے خوابوں میں آتی تھی اور مجھے ایسی لڑکیاں قطعاً پسند نہیں جو رات ڈیڑھ دو بجے کسی کے خوابوں میں آجائیں۔پھر ایک دن خواب میں ہی شکیلہ نے مجھ سے کہا کہ وہ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے، یہ جملہ سنتے ہی میری آنکھوں میں آنسو آگئے، آخرمیں بھی کسی کو پسند آہی گیا تھا۔ یوں مجھے بھی شکیلہ سے محبت ہوگئی تاہم حقیقی زندگی میں شکیلہ میری محبت سے بے خبر تھی۔شکیلہ اور میں ایک ہی اکیڈمی میں ٹیویشن پڑھتے تھے۔ میری اور شکیلہ کی کئی چیزیں آپس میں ملتی جلتی تھیں۔ مثلاً میں بھی ایک گھنٹہ پہلے اکیڈمی پہنچ جاتا تھا ‘ وہ بھی ایک گھنٹہ لیٹ آتی تھی۔ میں بھی برائون کلر کے جوتے پہنتا تھا‘ وہ بھی نیلے رنگ کی چوڑیاں پہنتی تھی۔ میں بھی لیکچر کے دوران اسے دیکھتا رہتا تھا‘ وہ بھی پڑھائی میں مگن رہتی تھی۔اس کا رنگ بھی سفید تھا اور میرا رنگ بھی سانولا۔ماشاء اللہ ہم دونوں میں کتنی مماثلت تھی۔پھر ایک دن اس نے مجھ نوٹس مانگے‘ میں نے فوراً پیش کیے اور ساتھ ہی اظہار محبت کردیا۔ اس نے غصے سے میری طرف دیکھا اور میری روح فنا ہوگئی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا‘ وہ گرجی''تین ماہ ہوگئے ہیں اکیڈمی میں اکٹھے پڑھتے ہوئے، محبت کرنے میں اتنی دیر کیوں لگائی؟‘‘۔
میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ میں نے پورا جملہ سمجھے بغیرگھگھیا کر کہا 'مم…معاف کردیںباجی‘‘۔اچانک ٹھاہ کی ایک خوفناک آواز آئی،شائد کسی کو گھونسا پڑا تھا…لیکن خیر یہ کوئی زیادہ اہم بات نہیں‘ اہم بات یہ ہے کہ شکیلہ سے بھی میری محبت پروان نہ چڑھ سکی۔‘‘
رئیس زخمی مجھے اپنی داستان سناتے ہوئے رو پڑا۔اُس روز اس نے مجھے اپنے ڈیڑھ درجن سے زائد ناکام عشق کی داستانیں سنائیں‘ اس نے بتایا کہ ایک دفعہ تو ایک لڑکی سے اسے اتنی محبت ہوگئی تھی کہ بات شادی تک آن پہنچی تھی لیکن پھر پتا نہیں کس خبیث نے لڑکی والوں کے کان میں ڈال دیا کہ لڑکا داعش کا چیف آرگنائزر ہے۔ اس کے بعد لڑکی والوں نے نہ صرف لڑکی کی شادی کہیں اور کر دی بلکہ افراتفری میں گھر بار بیچ کر ٹھٹھہ شفٹ ہوگئے۔میں نے رئیس سے پوچھا کہ اگر اب اس کی شادی کسی ایسی لڑکی سے ہوجائے جس سے وہ محبت نہیں کرتا تو کیا وہ اس سے شادی کرلے گا؟ رئیس کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ آگئی‘ ایک ایک لفظ پرزور دے کر بولا'کوشش کروں گا کہ شادی صرف اس سے کروں جس سے مجھے محبت ہو‘ لیکن اگر میں نے قاضی کے سامنے کسی لڑکی کو تین دفعہ قبول کرلیا تو پھر وہ میری بیوی ہوگی‘ میری عزت ہوگی‘ میری محبت ہوگی…میں اسے ایک دفعہ دلہن بنا کر لے آیا تو پھر بھاڑ میں گئیں میری ساری محبتیں‘ پھر وہی میراپیار ہوگا‘ وہی میرا لباس ہوگی‘ میں کبھی اس کے منہ پر تکیہ رکھ کر موت کی نیند نہیں سلائوں گا…محبت کرنے والے کبھی اتنے کم ظرف نہیں ہوسکتے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“