ٹرین چل رہی تھی۔ خالد فضل ساتھ بیٹھا تھا اور میں شرمندہ ہور ہا تھا۔
خالد فضل والدہ کی طرف سے ملائیشیا کا ہے اور والد کی طرف سے پاکستانی۔ یوں والد کے حوالے سے ہمارے ساتھ عزیز داری ہے۔ اُس کے والد‘ طویل قامت‘ کشمیری النسل‘ سرخ و سفید‘ فضل الرحمن‘ دوسری جنگ عظیم میں موجودہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے علاقوں میں برطانوی ہند کے فوجی کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے‘ جاپانیوں کی قید سے گزرے۔ واپس وطن آئے تو ملائیشیا کا لینڈ سکیپ اور ملائیشیا کے لوگ مسلسل یاد آتے رہے۔ پھر بزرگوں سے اجازت لی اور دوبارہ وہاں جا کر اسی کو وطن بنا لیا۔ شاہی خانوادے کی ایک خاتون سے شادی کی۔ قبر بھی کوالالمپور ہی میں بنی۔ کئی سال پہلے جب ہم میاں بیوی کوالالمپور میں خالد فضل کے مہمان تھے تو چند دن کے قیام کے دوران اس نے کتنی ہی بار ٹھنڈی سانس بھر کر کہا کہ وہ پاکستان میں‘ اپنے اجداد کے علاقے میں‘ آ کر بزنس کرنا چاہتا ہے۔ اس خواہش کا اظہار وہ اتنے سوز اور کرب سے کرتا تھا کہ یہ بتانے کی ہمت نہیں پڑتی تھی کہ راست گوئی‘ سادگی اور صدق و امانت تمہارے اجداد کے علاقے میں زیادہ بار آور ثابت نہ ہوگی! لیکن پھر ایک دن ٹیلی فون آیا۔ خالد فضل لاہور میں تھا۔ اپارٹمنٹ ڈھونڈ رہا تھا اور بزنس کے لیے ابتدائی تیاریوں میں مصروف تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ معاملات کافی حد تک فائنل ہو چکے تھے۔
لاہور پہنچ کر اُسے شہر کی سیر کرائی۔ اسلام آباد آنے کے لیے ریل کار کا انتخاب کیا۔ مقصد یہ تھا کہ اس طرح لینڈ سکیپ دیکھا جا سکے گا اور راستے کے مشہور اور بڑے شہروں سے تعارف بھی ہو جائے گا۔ لاہور سے نکلتے وقت‘ ریلوے لائن کے کناروں پر کوڑے کرکٹ کے ڈھیر تھے۔ خستہ مکانات تھے۔ گرتی اینٹیں تھیں۔ گلیوں میں کھڑا پانی تھا۔ مگر گفتگو میں یہ سب کچھ ایشیائی ملکوں کی عمومی حالت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا۔ وہ سنتا رہا۔ خاموش رہا۔ سب ٹھیک تھا۔ پھر وہ ہوا جو شرمندگی کا باعث بنا۔ ہم ’’اے سی پارلر‘‘ میں بیٹھے تھے جو ’’اعلیٰ ترین‘‘ کمپارٹمنٹ تھا۔ پیچھے کی جانب‘ ایک نشست چھوڑ کر ایک بھائی صاحب نے موبائل پر بات کرنا شروع کی۔ آواز اس قدر بلند تھی کہ پورے کمپارٹمنٹ پر چھا رہی تھی۔ ان کا کوئی کاروباری معاملہ تھا۔ کسی نے رقم دینی تھی۔ یہ چیخ چیخ کر اُسے قائل کر رہے تھے کہ واپسی فوراً ہونی چاہیے۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے مگر گفتگو کرنا ممکن نہ تھا۔ کافی دیر توقع رہی کہ بات اب ختم ہوتی ہے‘ اب ختم ہوتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان کی بحث طویل سے طویل تر ہوتی گئی۔ آواز بلند سے بلند تر ہوتی گئی۔ بیس پچیس منٹ کے بعد ریلوے کے ایک افسر نما صاحب کا گزر ہوا۔ انہیں ٹھیٹھ پنجابی میں بتایا کہ ساتھ ایک غیر ملکی مہمان ہے۔ کانوں کے پردے پھاڑنے والی یہ گفتگو تو بند کرائیں۔ ٹھیٹھ پنجابی میں اس لیے کہ خالد فضل اردو سے اچھی خاصی شدبد رکھتا ہے۔ ریلوے کے افسر نما ملازم نے مکمل بے بسی کا اظہار کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ ماضی میں کچھ ایسے مواقع پر مداخلت کی گئی لیکن منہ کی کھانا پڑی۔ نتیجہ بحث اور پھر تلخ کلامی کی صورت میں نکلا اور ایک بار تو باقی مسافروں نے بھی اِس ’’بنیادی حق‘‘ کی خلاف ورزی پر اپنے مسافر بھائی کی طرفداری کی!
خالد چند ہفتوں بعد اپنا نوزائدہ کاروبار سمیٹ کر واپس ملائیشیا چلا گیا۔ کیوں؟ یہ ایک الگ داستان ہے۔ یہاں رونا ایک اور بات کا ہے۔ کئی سال پہلے کا یہ سفر جو خالد فضل کی معیت میں کیا تھا‘ گزشتہ ہفتے پھر یاد آیا اور بری طرح یاد آیا۔ وہی ریل کار تھی‘ وہی اے سی پارلر کا ڈبہ تھا‘ وہی لاہور سے پنڈی تک کا سفر تھا۔ (محبوب خزاں کی مشہور نظم ہے۔ پھر پنڈی سے لاہور چلے)۔ ہاں‘ اب کے کوئی غیر ملکی موجود نہ تھا کہ شرمندگی کا باعث بنتا۔ ویٹر سے چائے کی درخواست کرنے کے بعد ’’ہسٹری آف دہلی سلطانیٹ‘‘ کھولی اور پڑھنے لگ گیا۔ کمپارٹمنٹ کے عین درمیان میں نشستوں کے سامنے ٹیبل بھی ہوتا ہے۔ یہ چار پانچ نشستیں ذرا ’’ہائی سٹیٹس‘‘ کی علامت ہوتی ہیں اس لیے زیادہ تر ریلوے کے افسر ہی یہاں تشریف فرما ہوتے ہیں۔ بدقسمت مسافر کی سیٹ سے یہ جگہ قریب ہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ان ’’برتر‘‘ نشستوں سے آواز کا ایک طوفان اٹھا اور پورے کمپارٹمنٹ پر یوں چھا گیا جیسے ایک زمانے میں سکندراعظم اُس وقت کی نصف دنیا پر چھا گیا تھا! سر‘ سر کی تکرار سے وضاحت ہو رہی تھی کہ کسی سینئر سے بات ہو رہی ہے۔ ٹنڈر‘ کوٹیشن‘ ریٹ کا طویل قصہ تھا‘ جو ختم ہونے میں نہیں آ رہا تھا۔ یہ ایسا علم تھا جو دماغ میں گھسیڑا جا رہا تھا۔ گجرات سے لالہ موسیٰ آیا‘ پھر ہم جہلم پہنچ گئے۔ صاحب کی ناز برداریاں جاری رہیں۔
پارلر اے سی میں واش روم (کیا ’’بیت الخلا‘‘ کی ہولناک اصطلاح ترک نہیں کی جا سکتی؟) دو قسم کے ہیں۔ ایک دیسی‘ ایک ولایتی کموڈ والا۔ یہ ولایتی کموڈ والا سلسلہ بھی عجیب ہے۔ ایک بار ڈاکٹر وحید قریشی مرحوم اسلام آباد تشریف لائے اور غربت کدے کو شرف بخشا۔ جسم کا وزن‘ علم سے کم نہ تھا۔ پہلا سوال یہی پوچھا‘ ولایتی کموڈ ہے؟ بھاری تن و توش والے اور ضعف اور عمر رسیدگی والے‘ دیسی واش روم میں بیٹھ جائیں تو اُٹھ ہی نہیں سکتے! واش روم میں جانا ہوا تو ٹونٹی کھلی تھی۔ پانی زور و شور سے بہہ رہا تھا اور نہ جانے کب سے بہہ رہا تھا۔ اسے بند کر کے کموڈ پر نظر ڈالی۔ جو صاحب یا صاحبہ آئی تھیں‘ پانی بہائے بغیر واپس تشریف لے گئی تھیں۔ طبیعت مکدر ہو گئی۔ واپس نشست پر پہنچا تو یہ آرام نصیب ہوا کہ ٹنڈروں‘ کوٹیشنوں اور نرخوں والی صبر آزما گفتگو ختم ہو چکی تھی۔ یہ آرام ویسا ہی تھا جیسا نکٹائی لگانے والے کو‘ شفیق الرحمن کے بقول‘ نکٹائی اتارنے کے بعد ملتا ہے!
ہم کب مہذب ہوں گے؟ بنیادی آداب کب سیکھیں گے؟ ساری دنیا کو حقارت سے غیر مسلم اور سازشی کہنے سے فرصت ملے تو اپنے گریبان میں بھی جھانک لیں۔ کیا بلند آواز سے گفتگو کرتے وقت ہم یہ نہیں سوچ سکتے کہ اردگرد اور لوگ بھی بیٹھے ہیں اور ان کی سماعتوں پر ہتھوڑے برسانے کا ہمیں کوئی حق نہیں۔ موبائل فون پر گفتگو دھیمی اور شائستہ آواز میں بھی کی جا سکتی ہے۔ کھلی ٹونٹی سے ضائع ہونے والا پانی ریلوے کا نہیں‘ ہمارا اپنا ہے۔ ٹونٹی بند کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے؟ بعد میں آنے والے کے لیے ہم کموڈ کو کس حال میں چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ سنگاپور میں کموڈ کو فلش نہ کرنے پر جرمانہ کیا جاتا ہے مگر سنگاپور کے رہنے والوں کو تو یہ نہیں سکھایا گیا کہ صفائی نصف ایمان ہے یا صفائی ایمان کی شرط ہے! یہ سبق تو ہمیں یاد کرایا جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے موٹروے پر رکنا ہوا۔ مذہبی حضرات کے قافلوں کے قافلے کہیں سے واپس آ رہے تھے۔ واش روم میں جانا پڑا تو پکا فرش بلامبالغہ دلدل بنا ہوا تھا اور ٹخنوں کے اوپر والے پائنچے بھی اس غلاظت سے بچ نہیں پا رہے تھے۔ گلے پورے زور سے صاف کرنے اور کھنکھارنے کی آوازوں کی بہار تھی۔ منہ دھوتے وقت پڑچ کی مترنم آواز آتی تھی اور بے خوف چھینٹے اُڑ اُڑ کر دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئوں کے چہروں‘ کپڑوں اور عینکوں پر پڑ رہے تھے۔
سگنل پر گاڑیاں رکیں تو دیکھا ساتھ والی گاڑی سے مالٹے کے چھلکے باہر آ رہے ہیں۔ شیشہ نیچے کیا۔ اچھا خاصا نیم تعلیم یافتہ شخص تھا۔ ملائمت سے درخواست کی کہ چھلکے سڑک پر نہ پھینکیے۔ ایک درشت آواز آئی‘ چاچا جی‘ گاڑی بھی تو گندی ہو جاتی! چاچا جی کا دماغ درست ہو گیا۔ شیشہ اوپر کر لیا اور ونڈ سکرین سے سامنے دیکھنے لگ گئے!
Vulgarity
پر مغربی ادب اور اخلاقیات میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ اس کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ہمارے ہاں سے گیا ہے۔ آدابِ معاشرت‘ صفائی‘ نفاست اور شائستگی کے بیان سے فارسی‘ عربی اور اردو ادب بھرا پڑا ہے۔ Vulgarity
کو فارسی میں پستی کہا گیا ہے‘ عربی میں سوقیانہ پن اور اردو میں گنوار پن اور اوچھا پن کہا گیا ہے۔ کچھ لغات نے اس کے ڈانڈے فحاشی سے بھی ملائے ہیں… لیکن چھوڑیے ان سب باتوں کو۔ سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ ہم سے دنیا میں امامت کا کام لیا جانا ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“