کہیں ایسا تو نہیں کہ مذہبی طبقہ عدم برداشت کے لیے مفت میں بدنام ہے! اپنے اوپر تنقید کیا سیاست دان سننے کے لیے تیار ہیں؟ کم! بہت کم!
دنیا ٹی وی کے معروف اینکر پرسن کامران شاہد صاحب نے بحث کے دوران ٹیلی فون پر سوال پوچھا۔ موضوع وہی تھا جو آج کل ہے یعنی سینیٹ الیکشن میں ہارس ٹریڈنگ اور کروڑوں کے بھائو تائو! جواب میں عرض کیا کہ یہ فقط ظاہر ہے۔ اصل بیماری اور ہے۔ اصل بیماری کا علاج پیناڈول اور پیراسٹامول سے نہیں ہوتا۔ اصل مسئلہ ہمارے عوامی نمائندوں کی کوالٹی ہے۔ ان میں پڑھے لکھوں کی تعداد حوصلہ افزا نہیں اور پھر دیانت کا یہ عالم ہے کہ اکثر ٹیکس تک نہیں دیتے۔ اس پر اہلِ سیاست نے جو بحث میں حصہ لے رہے تھے‘ شدید غیظ و غضب کا اظہار کیا۔ سب سے بڑی دلیل وہی تھی جو ہر ایسے موقع پر دی جاتی ہے کہ سیاست دانوں کو بدنام کیا جا رہا ہے!
حضور! اس میں شک ہی کیا ہے کہ ہمارے منتخب نمائندوں کی اکثریت ٹیکس نہیں ادا کرتی۔ کون سا پاکستانی اخبار ایسا ہے جس میں یہ خبریں تواتر کے ساتھ‘ اعدادو شمار کے ساتھ نہیں شائع ہوتیں؟ تو پھر ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیوں نہیں کی جاتی؟
ملک کے معروف انگریزی روزنامے نے اپنی 27 نومبر 2014ء کی اشاعت میں لکھا:
’’ایم این اے اور سینیٹرز کے ٹیکس کے 2012ء کے مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ 2011ء میں 70 فیصد نے ٹیکس ریٹرن ہی فائل نہیں کیا! ہر پانچواں عوامی نمائندہ نیشنل ٹیکس نمبر کے لیے رجسٹر ہی نہیں ہوا تھا! دسمبر 2013ء میں جاری کردہ ایک رپورٹ بتاتی ہے کہ 47 فیصد عوامی نمائندوں (صوبائی اسمبلیوں سمیت) نے الیکشن کے کاغذات میں تسلیم کیا کہ انہوں نے 2012ء میں کوئی ٹیکس نہیں ادا کیا۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے اس کی تصدیق بھی کی۔ باقی 53 فیصد نے ڈکلیئر کیا کہ انہوں نے انکم ٹیکس ادا کیا ہے؛ تاہم ان 53 فیصد میں 25 فیصد وہ بھی تھے جن کا دعویٰ ایف بی آر نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔ انکار کی وجہ یہ تھی کہ ایف بی آر نے الیکشن کے کاغذاتِ نامزدگی میں دیے گئے اعدادو شمار کا سرکاری ریکارڈ سے موازنہ کیا تھا!‘‘
ایک اور روزنامہ 12 دسمبر 2012ء کی اشاعت میں پاکستانی عوام کو اطلاع فراہم کرتا ہے کہ
’’پاکستانی کابینہ کے ساٹھ فیصد حضرات سے زیادہ اور منتخب وفاقی نمائندوں کی دو تہائی تعداد نے گزشتہ برس کوئی ٹیکس نہیں ادا کیا‘‘۔
اس پر ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی گئی۔ رپورٹ کا عنوان ہی بہت کچھ بتا رہا ہے۔ ’’نمائندگی‘ ٹیکس ادا کیے بغیر!‘‘ اس عنوان میں امریکی تاریخ کی طرف ایک لطیف اشارہ موجود ہے! 1750ء اور 1760ء کے درمیان تیرہ برطانوی کالونیوں (موجودہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ) نے برطانوی آقائوں کو ٹیکس دینے سے انکار کردیا کیونکہ برطانوی پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی کوئی بھی نہیں تھی! نعرہ تھا:
"No taxation without representation"
یعنی نمائندگی نہیں تو ٹیکس بھی نہیں ہوگا۔ آج ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے کہ نمائندگی کرنے والے ٹیکس ادا نہیں کر رہے!
اس رپورٹ نے‘ جس کا ذکر روزنامہ اپنی 12 دسمبر 2012ء کی اشاعت میں کرتا ہے‘ بتایا گیا ہے کہ ملک کے صدر نے بھی 2011ء میں ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرایا۔ کابینہ کے 55 ارکان میں سے 34 نے بھی ایسا ہی کیا! ان میں اس وقت کے وزیرداخلہ بھی شامل تھے! کابینہ کے جن بیس ارکان نے ٹیکس ادا کیا‘ اکثر کا ادا کردہ ٹیکس بہت کم مقدار میں تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم نے 142536 روپے کا ٹیکس ادا کیا۔ ایک اور فیوڈل وزیر نے 69619 روپے ادا کیے! آگے چل کر رپورٹ کہتی ہے کہ 2011ء میں وفاقی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے نمائندگان کی 67 فیصد تعداد نے ٹیکس ریٹرن داخل نہیں کرائی۔ 78 فیصد کی نیشنل ٹیکس نمبر کے لیے رجسٹریشن تک نہیں ہوئی تھی!
اب الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے گوشواروں کی صورت حال ملاحظہ فرمایئے۔ قومی سطح کا ایک روزنامہ 29 دسمبر 2013ء کو ایک مضمون میں لکھتا ہے:
’’الیکشن کمیشن کے جاری کردہ گوشواروں کے مطابق وسیع جائدادیں اور مہنگی گاڑیاں رکھنے والے اکثر ارکان نے کاروبار کے خانے میں یہ تک درج نہیں کیا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ بعض ارکان تو امیر ہونے کے باوجود گاڑی نہیں رکھتے۔ بعض نے سو سو تولے طلائی زیورات کی مالیت چند لاکھ روپے ظاہر کی ہے۔ بعض کروڑوں روپے مالیت کے بنگلے رکھتے ہیں مگر ان کی مالیت چند لاکھ لکھی گئی ہے۔ بعض کے پاس مہنگی گاڑیاں ہیں مگر مالیت چند لاکھ ہے! چونکہ یہ سب ارکان ہر سیاسی پارٹی میں بلاتفریق موجود ہیں اس لیے کسی کا نام لینے کی ضرورت نہیں!‘‘
آگے چل کر اخبار لکھتا ہے:
’’اب اگر ایف بی آر اور الیکشن کمیشن کو فراہم کردہ معلومات کا جائزہ لیا جائے تو ان قواعد و ضوابط کی روشنی میں 95 فیصد سے زیادہ ارکان نااہل قرار پاتے ہیں اور ان کی رکنیت کالعدم ہو جاتی ہے‘‘۔
یہ تو تھا ملکی میڈیا! اب دیکھتے ہیں کہ بین الاقوامی میڈیا میں ہمارے نمائندوں کا کیا امیج ہے۔ ع
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
مشرق وسطیٰ کا معروف روزنامہ ’’عرب نیوز‘‘ 8 جنوری 2014ء کو لکھتا ہے:
’’پاکستان کے ارکانِ پارلیمنٹ میں بہت سے امریکی جنگلی مغرب (وائلڈ ویسٹ) کے افسانوی امیج پر پورا اترتے ہیں۔ انہیں اپنی بندوقوں سے محبت ہے اور ٹیکس حکام کو باقاعدہ فریب دیتے ہیں۔ ’’سنٹر فار انویسٹی گیٹو رپورٹنگ پاکستان‘‘ کی ایک رپورٹ انکشاف کرتی ہے کہ ملک کے موجودہ عوامی نمائندوں اور وزراء میں سے تقریباً نصف نے اس سال کوئی ٹیکس نہیں ادا کیا‘‘۔
امریکی ’’جنگلی مغرب‘‘ یعنی وائلڈ ویسٹ ایک تاریخی تلمیح ہے۔ برطانیہ نے جب امریکہ میں کالونیاں بسائیں تو وہ ساری مشرقی جانب تھیں یعنی بحرِ اوقیانوس کے کنارے۔ یہاں نیوجرسی‘ نیویارک‘ واشنگٹن ڈی سی‘ ورجینیا‘ وغیرہ کے علاقے تھے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ مغرب کی طرف توسیع ہوئی۔ جنگلوں کو صاف کیا گیا۔ ریڈ انڈین سے مقابلے ہوئے۔ امریکی تاریخ کا یہ باب دلچسپ بھی ہے اور مہماتی بھی۔ یہیں سے کائوبوائے کی اصطلاح نکلی۔ اس موضوع پر بے شمار فلمیں بنیں اور کہانیاں اور ناول لکھے گئے۔ توسیع کرنے والے یورپی آبادکاروں کا سب سے بڑا اثاثہ بندوق اور گھوڑا ہوتا تھا۔ لکڑی کے کیبنوں میں رہائش ہوتی تھی۔ بندوق ہی ان کا قانون ہوتی تھی! قانون نافذ کرنے والے اداروں کو وہ جل دیتے رہتے تھے۔
لگے ہاتھوں نیویارک ٹائمز کی گواہی بھی دیکھ لیتے ہیں۔ 12 دسمبر 2012ء کی اشاعت میں روزنامہ لکھتا ہے:
’’ایک تہائی سے کم تعداد میں پاکستانی ارکان پارلیمنٹ اپنی سالانہ ٹیکس ریٹرن داخل کراتے ہیں۔ اس سے وہ پرانی شکایت تازہ ہو جاتی ہے جو غیر ملکی امداد دینے والے اور عام پاکستانی‘ معاشرے کے بالائی طبقات کے بارے میں کرتے رہتے ہیں‘‘۔
برطانوی پارلیمنٹ کی ’’بین الاقوامی ترقیاتی کمیٹی‘‘ نے اپریل 2013ء میں اپنی رپورٹ میں ایسی بات کہی جو ہم پاکستانیوں کے لیے باعثِ شرم ہونی چاہیے تھی… ’’ہم برطانوی عوام سے یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ پاکستان کے تعلیم اور صحت کے شعبوں کی ترقی کے لیے ٹیکس ادا کریں جب کہ خود پاکستان میں بالائی طبقہ انکم ٹیکس نہیں ادا کرتا‘‘۔ رپورٹ نے واشگاف الفاظ میں دعویٰ کیا کہ ’’پاکستانی پارلیمنٹ کے 30 فیصد سے بھی کم ارکان ٹیکس ادا کرتے ہیں‘‘۔
جہاں قومی معاملات میں احساس کا یہ عالم ہو وہاں آپ کس طرح توقع کر سکتے ہیں کہ سینیٹ کے الیکشن میں خریدوفروخت نہیں ہوگی۔ جو شخص قانون پسند ہو‘ وہ زندگی کے سارے معاملات میں قانون پسند ہوتا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ٹیکس نہ دینے والے اور مضحکہ خیز حد تک غیر حقیقی گوشوارے جمع کرانے والے سینیٹ کے الیکشن میں اپنا رویہ اور اپنی طرزِ فکر تبدیل کر ڈالیں گے۔
یہاں یہ وضاحت ازحد ضروری ہے کہ ارکانِ پارلیمنٹ میں اور سیاستدانوں میں‘ ایسے حضرات یقینا موجود ہیں جو انکم ٹیکس قانون کے مطابق درست ادا کرتے ہیں‘ گوشوارے بھی صحیح جمع کراتے ہیں اور زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی ان کا رویہ قابلِ تحسین حد تک صاف ستھرا ہے۔ ایسے ارکان پارلیمنٹ اور ایسے اہلِ سیاست کا ہم دل سے احترام کرتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں! مگر اس کا کیا کیجیے کہ ؎
ہم جب سے پتھروں کی تجارت میں لگ گئے
ہے دوستیٔ شیشہ گراں کم‘ بہت ہی کم
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“