(Last Updated On: )
’’ارے کیا بکواس لگائے میاں۔۔۔!‘‘ ابو دادا نے مصنوعی غصے سے کہا،’’تم کو مالوم ہے نا میں ہے سو جمعہ کے دن کوئی برا کام نہیں کرتا، ارے نماز نہیں پڑھتا تو کیا ہوا۔۔۔۔ہوں تو کلمہ گو۔۔۔۔!چلو فون بند کرو،میرے کو آج کچھ اچھے کاماں کر نے دیو بولا۔۔۔!‘‘
اس اقتباس میں ایک مسلمان غنڈے’ابو دادا‘ کا بھر پور تعارف موجود ہے۔ پورے افسا نے میں ابو دادا کے یہ جملے کئی بار استعمال ہوئے ہیں اور سعادت حسن منٹو کے’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کے کا مرکزی کردار بشن سنگھ کے اکثر دہرا ئے جانے والے جملوں’’اوپڑی گڑ گڑوی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی وال آف لالٹین۔۔۔‘‘ کی یاد تازہ کر جاتے ہیں۔ یہ جملے افسانہ’’کلمہ گو‘‘ کا نچوڑ ہیں۔ در اصل یہ افسانہ’ابو دادا‘ نامی غنڈے کی کہانی ہے۔ ابو دادا،اپنی بستی کا غنڈہ تھا۔ یوں تو اس کا دھندہ دودھ کا تھا جس کے لیے اس نے بھینسیں بھی پال رکھی تھیں۔ لیکن اصل میں وہ رو پیہ سود پر دیا کرتا تھا۔ حسن اس کی کمزوری تھا۔وہ طاقتور اور بدزبان تھا۔ لیکن ان تمام عیوب کے ساتھ ساتھ اس میں کئی خوبیاں تھیںوہ بڑا رحم دل تھا۔ آس پاس کے لوگوں کا خیال رکھتا، لڑکیوں، بچیوں کی دیکھ ریکھ کرتا۔ پھر عجیب قسم کا مسلمان بھی تھا کہ پو رے ہفتے ہر طرح کا غلط کام کرتا لیکن جمعہ کے دن کوئی غلط کام نہیں کرتا تھا اور ایسا کر نے کے پیچھے اس کی اپنی منطق اور فلسفہ تھا۔
’’جمعہ کے دن کوئی برا کام نہیں کرتا،ارے نماز نہیں پڑھتا تو کیا ہوا۔۔۔ہوں تو کلمہ گو۔۔۔‘‘
افسانہ نگار نے ایک سچا کردار تخلیق کیا ہے۔ پو را افسا نہ اسی کردار کے ارد گرد گھو متا ہے۔ ابو دادا ہمارے سماج کا جیتا جاگتا انسان ہے۔ یہ ایسا کردار ہے جس میں زندگی ہے یعنی وہ برا ئی کا نمائندہ ہے۔ قابل نفرت ہے۔لیکن اس کی بعض خوبیاں، اس سے ہمدردی ہی نہیں محبت تک کر نے پر مجبور کردیتی ہیں۔ بستی میں گذرے زمانے کے گذرے نواب صاحب بھی ہیں، انہوں نے دیو ڑھی میں کمرے بنوا دیے ہیں جس میں طا لب علم کرا ئے پر رہتے ہیں۔ ایک انگریز طالبہ جو ریسرچ کے لیے آ ئی ہوئی ہے۔ ماریا برونٹ، نواب کے کمرے میں رہتی ہے۔ گھر سے پیسے نہ آ نے کے سبب وہ ابو دادا سے بطور قرض پانچ ہزار رو پے لیتی ہے۔ ابو دادا ماریا برونٹ کے حسن میں گرفتار ہوجا تا ہے۔ اپنے دوستوں میں بھی اس کے تذکرے کرتا ہے۔ ویسے بھی ماریا کے حسن کے چرچے سب کی زبان پر ہیں۔ کہا نی کا عروج اس وقت آتا ہے، جب ماریا کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کے رو پے آ نے کی امید دم توڑ دیتی ہے تو ایک دن ماریا،ابو دادا کے پاس پیسوں کے عوض خود کو پیش کر نے کے لئے پہنچ جاتی ہے۔ ما ریا کے جملے ملا حظہ کریں:
’’مین۔۔۔۔ہم انگریز کمیو نٹی کبھی کسی کا احسان نہیں رکھتی۔ اما رے پاس جو کچھ تھا اس سے ام سب کا پے منٹPament کر دیا۔ابھی تمہا راپے منٹ کرتے۔ اما رے پاس رو پیہ نہیں ہے۔ ام جانتا۔۔۔تم رو پیہ کے بد لے ام سے کیا چیز لے گا۔ام وہ تم کو انٹریسٹ کے ساتھ دینے کو آ یا ہے۔۔۔کم آن۔۔۔وصول کرو۔۔۔۔‘‘
ماریا کے جملوں سے بہت کچھ واضح ہو رہا ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ ما ریا رو پے کے بد لے اپنا جسم پیش کررہی ہے۔ کسے پیش کررہی ہے؟ ابو دادا کو۔۔۔۔جو عورتوں سے اپنا قرض جسم سے بھی وصول کر لیتا ہے۔ ماریا برونٹ جب رو پے قرض لینے آ تی ہے تو ابو دادا اُسی وقت اُس کے حسن کا دیوا نہ ہو جاتا ہے۔ اس کے منہ میں پا نی آ جاتا ہے اور اسے پیسے وقت پر واپس کر نے کی تنبیہ بھی کرتا ہے۔اُسے ماریا سے، اس کے جسم سے ایک خاص لگائو ہوجاتا ہے اور اس چکر میں وہ ماریا سے اپنا قرض مانگتا ہی نہیں ہے۔ لیکن اب ا بو دادا کے سا منے ما ریا خود کو پیش کررہی ہے۔ حا لات نا رمل ہو تے اور ماریا ایک خاص جملہ ادا نہ کرتی تو ابو دادا قرض کی ایک ایک پائی وصول کر لیتا۔ لیکن ماریا کا ایک جملہ’’ ہم انگریز کمیو نٹی کبھی کسی کا احسان نہیں رکھتی۔‘‘ ابو دادا کو مدہوشی سے ہو ش میں لا دیتا ہے۔جسم کی تمام نیرنگیاں، تمام دعوتیںاورجلوے سمٹ کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اس سے پہلے جب ماریا والد کے انتقال کا ذکر کرتی ہے تو ابو دادا کے اندر کا انسان ہمدردی اور افسوس میں ڈوب جاتا ہے۔ لیکن ماریا کا انگریز کمیو نٹی وا لا جملہ ابو دادا کو اندر تک زخمی کرجاتاہے اور ایک بد چلن، آوارہ طبیعت، غنڈے ابو دادا کی جمعہ جمعہ بیدار ہو نے وا لی مذہبی محبت بے وقت بیدار ہو جا تی ہے۔ بے شک وہ نما زی نہیں، مگر کلمہ گو تو ہے۔ یعنی ایسا مسلمان جو مجبور و مظلوم پر کبھی ظلم نہیں کرتا( اسلام میں ظلم تو کسی پر جائز نہیں) اور ایسے وقت جب ایک مذہب سے اس کی غیرت کو للکارا جا رہا ہو اور وہ اپنے ٹوٹے پھو ٹے، عارضی پیدا ہونے وا لے مذہبی جذبات میں ایسا رد عمل پیش کرتا ہے جو قاری نے کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔ لیکن یہ افسانہ نگار کی کردار نگاری کا عمدہ مظا ہرہ ہے کہ برا ئی سے بھلا ئی، رات سے دن اور تیرگی سے روشنی بر آ مد کر کے اپنے کردار کو زندگی بخش دیتا ہے۔ جب ما ریا خود کو پیش کر نے کے لیے اپنے ٹاپ کے بٹن کھولنے لگتی ہے تو ابو دادا کا
رد عمل اور جملے کیا رنگ دکھاتے ہیں، ملا حظہ کریں:
’’ابو دادا نے اس کے کھلے بٹنوں کو ایک ایک کر کے بند کرنا شروع کردیا۔ وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے آ ہستہ سے کہا’’ ماریا۔۔۔ہم بھی مسلمان ہیں۔۔۔۔۔کلمہ گو۔۔۔کس چیز کی کیا قیمت ہو تی ہے وہ ہم بھی جانتا ہے۔۔۔۔!‘‘ پھر اس نے اس کے ہاتھ کو آہستہ سے پکڑا۔ دروازہ کھولا اور اسے نہایت خلوص کے سا تھ با ہر کردیا۔‘‘
ماریا، قاری اور کہانی سننے والے سبھی انگلی دانتوں تلے دبائے کھڑے رہ جاتے ہیں۔ ابو دادا نے اچانک یہ کیا کردیا۔ اس نے تو سبھی کو بو لڈ کردیا۔ یہاں افسا نہ نگار نے دو مذاہب کو ایک دوسرے کے مقا بل لادیا ہے۔ جہاں جسمانی جنگ نہیں ہے بلکہ اپنے اخلا قی رویوں سے اپنے اپنے مذہب کا دفاع ہے۔ کہانی ختم ہو جاتی ہے۔ ماریا چلی جاتی ہے اور اس کی جاتے وقت کی مسکرا ہٹ، ابو دادا کے دل و دماغ پر ہمیشہ کے لیے جم جاتی ہے۔ لیکن قاری حیرت کے سمندر میں غرق، بے حس سا ہو جاتا ہے۔ وہ نہ ماریا کے ساتھ دور تک جاتا ہے اور نہ ابو دادا کے ساتھ ماریا کو جاتا ہوا دیکھتا ہے بلکہ کہانی کے انجام پر سوچتا رہ جاتا ہے۔
یہاں مجھے منٹو کے دو کردارممد بھا ئی اور قادرا قصائی بری طرح یاد آرہے ہیں۔ نو ر الحسنین کے ابو دادا میں دو نوں کردار ضم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ممد ابو دادا کی طرح ایک بے حد خطر ناک غنڈہ ہے اور اپنے آس پاس کے لوگوں اور ساتھیوں کا خاص خیال رکھتا ہے۔ ایک مو قع پر محلے کی شیریں بائی کی لڑ کی کی عزت خراب کر نے وا لے شخص کا قتل کر دیتا ہے اور جیل چلا جاتا ہے اور قادرا قصائی، عیدن کو جو اس پر دل و جان سے فدا ہے اور اس کے پائوں پڑ رہی ہے،یہ کہہ کر ٹھو کر مارتا ہے کہ ہم نے آ ج تک کسی کنجری کو منہ نہیں لگایا۔ ممداور قادرا قصائی کے کرداروں کے اندر سے پھو ٹنے والی رو شنی ابو دادا کی شکل میں ظا ہر ہو رہی ہے۔ ابو دادا کا عمل فطری ہے اور کہانی کو نئی سمتDimentionعطا کرتا ہے۔
کہانی میں کسی بھی کردار کو اس کے اعمال و افعال اور زبان ،استحکام عطا کرتے ہیں۔ نو ر الحسنین نے ابو دادا کے کردار کو مستحکم بنانے کے لیے ہر گو شے پر محنت کی ہے۔ ابو دادا کی پو ری زندگی کی تصویر ہمارے سامنے ہے۔ اس کی بطور برے آدمی شہرت ہے۔ وہ گالیاں بکتا ہے مار پیٹ کرتا ہے۔ لنگوٹ کا کمزور ہے۔ سود کا کارو بار کرتا ہے۔ شراب کی پارٹیاں کرتاہے۔ اس کے چیلے چپاٹے اس کے حکم پر کچھ بھی کر سکتے ہیں۔ اسے اپنے عشقیہ اور ہوس زدہ لمحات اور جذبات اپنے دوستوں کو سنانے میں مز اآ تا ہے۔ وہ ماریا کے تصور میں کھویا کھویا رہتا ہے۔ دوستوں میں اظہار کرتا رہتا ہے۔
’’میں اگر جھوٹ بو لا تو میرے منہ میںہے سو خاک۔۔۔!‘‘ ابو نے مرغ کی ٹا نگ کو دانتوں سے نو چتے ہوئے کہنا شروع کیا۔اب ہے سو کیا بولوں۔۔۔ ،میں ایک دم اکیلا۔۔۔ان نے منی اسکرٹ میں۔۔۔۔۔۔اس کی ننگی ٹا نگیں۔۔۔۔۔باپ میری طبیعت ایسی مچلی کہ بس۔۔۔۔۔۔۔! اس نے جلدی جلدی مرغ کی ٹا نگ کو چپانا شروع کیا اور مالوم۔۔۔۔چوڑے ٹاپ میں سے جھانکتے ہوئے دو سفید براق کبوتر۔۔۔۔۔۔۔ہائے ہائے۔۔۔۔میں تو تڑپ کر رہ گیا۔۔۔۔کیا؟‘‘
ابو، کا یہ بیان اس کی ذہنیت اور نیت کی عکا سی کر تا ہے۔ اسی طرح وہ ناراض ہوتا ہے تو مخا لف کی گردن بھی مروڑ دیتا ہے۔ اس کا اپنا انداز ہے۔ بہت دن سے غا ئب اپنے مقروض بھا سکر کو دیکھتا ہے تو اس کا خون کھول اٹھتا ہے۔
’’ مو بائیل کو نہرو شرٹ کی جیب میں رکھتے ہو ئے ابو دادا نے جونہی دروا زے سے با ہر دیکھا، بھا سکر پان کی پٹری پر کھڑا ہواتھا۔ دوسرے ہی لمحے وہ تیر کی طرح نکلا اور اس کی گردن دبوچ کر اپنی بیٹھک میں لے آیا اور پھر زور سے جھٹکا دے کر دہا ڑا’’ کیوں رے میرے کو کیا گلا ہوا سیتا پھل سمجھا تھا تو۔۔۔۔۔ہو۔۔۔‘‘
جہاں وہ اپنے کام میں ماہر ہے اور قرض وصولنے کے سبھی طریقے جانتا ہے وہیں وہ قرض کو جسمانی لذت کی شکل میں بھی وصولنے سے گریز نہیں کرتا۔ عورت اس کی کمزوی ہے جب کہ بھا سکر خود کو بچا نے کے لیے اپنی بیوی کے ہاتھ کی ہڈی ٹوٹنے کی بات کرتا ہے تو ابو، صرف عورت کے ذکر ہی پر، کیا کیا سوچ لیتا ہے:
’’خوف ایک بار پھر بھاسکر کی زبان پر گھگھیایا۔ بھائی میری عورت۔۔۔۔‘‘
تیری عورت؟ابو دادا کی آ نکھوں میں شانتی کا گدرایا ہوا بھر پور جسم ابھرا اور شہوت کسی رس گلے کی مانند اس کے حلق کو میٹھا کر گئی۔ اس کے بدن میں ایک عجیب سی مسرت دوڑنے لگی۔‘‘
ابو دادا نے بھا سکر کی بات پوری بھی نہیں ہو نے دی اور اپنے بو الہوس ذہن کو تصور کی ننگی سڑک پر بھا سکر کی عورت کے جسم کے طواف میں لگا دیا۔ اس نے یہ تصور کرلیا کہ شاید بھا سکر اپنے قرضے کے عوض اپنی عورت کی بات کرنا چاہتا ہے جو اس کے قرض کے وصول کرنے کا احسن طریقہ تھا۔ اس بیان سے اس کے ہوس پرست ہونے کو تقویت ملتی ہے۔ لیکن یہ سب اس کے کردار کا ایک پہلو ہے جو اس کا ظا ہری رو پ ہے۔ اس کے باطن میں ایک اور ابو ہے جو واقعی ابو یعنی باپ ہے۔ جس کا دل رحم سے بھرا ہوا ہے۔ جو چھو ٹوں اور غریبوں کا مسیحا ہے۔
’’طبیلے کے ادھر ادھر غریب پس ماندہ طبقات کی جھونپڑیاں تھیں۔ وہ ان کا مائی باپ تھا۔ کوئی شادی بیاہ اس کی مرضی کے خلاف نہیں ہو سکتی تھی۔ اسے سب معلوم تھا کہ کس جھونپڑے کی کون سی لڑ کی سن بلوغ کو پہنچ رہی ہے۔ وہ ان کی فر مائشیں بھی پو ری کرتا۔ ان کو ڈانٹ ڈپٹ بھی کرتا۔ ان کے جھگڑے ٹنٹے بھی مٹاتا۔ وقتاً فوقتاً ان کی پٹا ئی بھی کرتا رہتا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ وہ ان کی چھو ٹی مو ٹی ضروریات کی تکمیل بھی کردیتا۔‘‘
یہی نہیں ابو اتنا رحم دل اور مذہب پرور ہے کہ ایک بچے کی تعلیم کے پیسے کی وجہ سے رک جانے پر اپنے چیلے رمضانی سے کہتا ہے:
’’وہ نرسمہا ہے نا۔اس کے پیسے میں چھین لیا تو ان نے رو رہا تھا۔ کاہے کو بو لے تو کتے بچے کے امتحان کی فیس بھرنا تھی۔۔۔ارے ہم کو کیا کرنا ہے۔۔۔ہے نا بھائی۔۔۔!‘‘ رمضا نی تم ہے سو مسلمان ہے نا۔۔۔۔؟ ارے اللہ میاں حکم دیا نا کہ علم کو عام کرو اور تم اس کو پڑھنے سے روک دیے۔۔۔۔۔؟ ابھی جائو اور نرسمہا کو میرے پاس بھیج دو۔۔۔۔میرے کو تمہارا یہ کام ہے سو پسند نہیں آیا۔‘‘
ابو کا یہ روپ قا ری کی اس سے نفرت کو بہت حد تک کم کردیتا ہے۔ ابو کے اندر کا یہ شخص اسے منفرد اہمیت عطا کرتا ہے۔ مذہب پر اس کا یقین اور جمعے کو غلط کام نہ کر نے کا اس کاانداز اسے قاری کے قریب کردیتا ہے۔ نور الحسنین نے مہارت سے کردار کو Establishکیا ہے۔ کہانی میں ابو دادا اور ماریا برونٹ دو اہم کردار ہیں۔ دو نوں دو مختلف کردار ہیں۔ ایک ہندو ستانی غنڈہ اور عجیب و غریب قسم کا مسلمان ہے۔ دوسرا انگریز کردار ہے جو حسین اور جوان ہے۔ ان دو نوں ہی کرداروں کی زبان نے افسا نے کو Power fullبنا دیا ہے۔ نو ر الحسنین نے دو نوں کرداروں کی زبان، فطری طور پر ان کی زبان ہی رکھی ہے۔ ابو کی زبان ایک غنڈے کی زبان ہے جب کہ ما ریا کی زبان ایک کم کم ہندوستانی جاننے وا لے انگریز کی زبان ہے۔ ابو کے چند جملے دیکھیں:
’’ تم کو اس کے پاس جانے کا بو لا تھا میں؟‘‘
’’ ابو دادا نے آج تک کسی پر ایک دمڑی بھی نہیں چھو ڑا۔‘‘
ماریا کے جملے بھی ملا حظہ ہوں۔
’’اوہ۔۔۔۔۔رئیلی یو آر گریٹ(oh really you are great)
’’امارا ڈیڈی لندن میں بیمار ہو گیا۔ وہ ام کو رو پیہ نہیں بھیجا۔‘‘
یہی نہیں ایک ضمنی کردار اجمل کا ایک جملہ دیکھیں
’’یہاں دستر پر کھانا اور بستر پر عورت کو زخمی حالت میں نہیں چھوڑتے۔‘‘
یہ صرف ایک جملہ نہیں بلکہ زندگی کا تجربہ ہے۔ نور الحسنین نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کو عمدگی سے لفظوں میں ڈھالا ہے۔ ایک اور مشاہدہ دیکھیں۔ جب بھینسوں کا خیال رکھنے والا سوامی، ابو دادا کو بھو ری بھینس کے خاص اشارے ملنے کے بارے میں بتاتا ہے تو مصنف کا یہ بیان کتنا با معنی ہے۔یہ بھی ابو دادا کی زبانی ہے۔
’’ جانور بھی خوب ہو تے ہیں۔ اپنے کسی جذبے کے لیے انہیں کسی پردے کی ضرورت نہیں۔۔۔۔اظہار کے لیے کوئی تکلف نہیں۔۔۔۔ایک بھو ری کا میں بھی انتظار کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
جانور کی آزادی اور انسان کی آ زادی میں بہت فرق ہو تا ہے۔ انسان اگر جانور کی آ زادی کو اپنا لے تو وہ جانور ہی کہلائے گا۔ ایک طرف جانور کا بیان ہے تو دوسری طرف ابو کا بھو ری کا انتظار۔ یہ جملے تجربے کی بھٹی میں تپنے کے بعد ہی قلم تک آ تے ہیں۔
’کلمہ گو‘ ایک عمدہ افسا نہ ہے، جو کردار اساس بھی ہے اور یہ ثا بت کرتا ہے کہ نئی صدی کے افسانوں میں بھی اچھے کردار موجود ہیں جنہیں ہم منٹو، بیدی، کرشن چندرجیسے قلم کا روں کے کرداروں کے بالمقابل رکھ سکتے ہیں۔
٭٭٭
“