صبح اٹھتے ہی اسے لگا کہ یہ دن کوئی سانحہ لیے ہوئے ہے.. یہ صبح تھی کوئی.. کالی صبح.. سامنے والی خالہ رشیدہ کی کالی بلی جیسی کالی صبح، جو ہزار بار اس کا راستہ کاٹ چکی تھی مگر اس نے کبھی راستہ نہیں بدلا.. اسے بلیاں بالکل پسند نہیں تھیں، اسے لگتا تھا کہ بلیاں انسانوں میں رہ کے انسانی حرکتیں کرنے لگتی ہیں. یہ خیال اس کا بچپن سے تھا جب وہ ماموں عادل کے ہاں جاتے تو ان کی پالتو بلی کو کھانا چارپائی پہ بیٹھ کے کھاتے دیکھتا تو اسے عجیب سا خوف محسوس ہوتا.. اور بچپن کا خیال یقین میں مکمل تب بدلا جب وہ اس کالونی میں کرائے پہ مکان لے چکا تھا. وجہ تھی سامنے والے گھر میں رہتی خالہ رشیدہ کی لڑاکا طبعیت اور گلے کا لاؤڈ سپیکر. خالہ رشیدہ اتنا اونچا بولتی تھیں کہ ان کی سرگوشی دو سو کانوں تک پہنچتی ہو گی. اور ان کی کالی بلی انھی کی ہم آواز تھی. اونچے سُروں میں بلی کی میاؤں میاؤں اسے چیخوں جیسی لگتی تھی ، بات یہاں تک رہتی تو شاید اس کے بچپن کا خیال، یقین کی منزل پہ پڑاؤ نہ ڈالتا مگر خالہ رشیدہ کی طرح ان کی بلی کی لڑاکا طبیعت، اسے بلیاں پسند نہیں تھیں مگر اس بلی سے اسے نفرت تھی اور شدید نفرت کے باوجود وہ وہمی نہیں تھا کہ بلی کے کاٹنے پہ راستے بدلتے پھرتا.. مگر آج کا دن اس کو کھٹک رہا تھا
بستر سے اٹھ کے بنیان شلوار اتار کے غسل خانے میں جاتے ہوئے بھی وہ یہی سوچ رہا تھا کہ آج کچھ ہونا ہے کیا؟ کیا ہونا ہے؟ آئینے کے سامنے اس نے شیونگ فوم نکالی اور برش ڈھونڈنے لگا. پھر یاد آیا کہ وہ دو دن پہلے غسل خانے کے فرش پہ گرا تھا تو غصے میں پھینک دیا تھا اور نیا خریدنا یاد نہیں رہا. منہ پہ پانی کا چھپاکا مارا اور ہاتھ پہ فوم لگا کے بڑھی ہوئی شیو پہ مَلنے لگا. ہاتھ سے فوم لگانے پہ عجیب سی آواز بھی آ رہی تھی اور وہ سوچ رہا تھا کہ مکان کا کرایہ تو ابھی دس دن پہلے دیا ہے. بلیڈ چہرے پہ 'نون غنہ' بنا رہا تھا.. بجلی کا بل بھی ادا ہو چکا ہے. سیلنڈر وہ خود بھروا کے لاتا ہے
کیتلی میں چائے کے لیے کھلی پتی ڈالنے سے چائے مگ میں انڈیلنے تک اس کا دھیان صبح کے حادثاتی ہونے کے احساس پہ اٹکا ہوا تھا،کام پہ کچھ کیا تو نہیں میں نے؟ مطلب کچھ غلط؟ مگر نہیں ابھی پرسوں ہی اس نے ڈیڑھ ماہ بعد ایک گاڑی کی ڈیل کی تھی، ڈیل نے اس کے اعصاب کی ایسی کی تیسی پھیر دی تھی کہ وہ صاحب شو روم میں آئے تو ساتھ چار پانچ سال کا بچہ بھی لائے تھے. گاڑی کے بارے میں تمام مطلوبہ و غیر مطلوبہ معلومات رٹائے ہوئے طوطے کی طرح انھیں سنا دیں. صاحب نے گاڑی میں بیٹھ کے سیٹ کے آرام دہ ہونے کی تسلی بھی کی. اور جو باتیں اس نے انھیں گاڑی کے متعلق بتائی تھیں وہ سبھی اپنے بچے کو بھی بتا رہے تھے. بچے کی توجہ والد کی دکھائی جانے والی گاڑی پہ کم اور ہاتھ میں پکڑی کھلونا گاڑی کی طرف زیادہ تھا. ان صاحب نے گاڑی کو اندر باھر سے خوب ٹھونک بجا کے معائنہ کرنے کے بعد گاڑی پسند کر لی. بات گاڑی کے رنگ پہ آ ٹھہری. ان صاحب کے صاحبزادے نے اپنی کھلونا گاڑی سامنے میز پہ رکھی
پاپا مجھے یہ رنگ والی گاری چاہیے
اب اس نے ایک لحظہ گاڑی کو دیکھا، پھر بچے کو اور پھر بچے کے پاپا کو.. کھلونا گاڑی کا رنگ نہ جانے کیا تھا، کچھ عجیب ہی رنگ تھا پتا نہیں کتنے کی رنگوں کا ملغوبہ سا تھا
سر ،یہ رنگ تو ناممکن ہے، آپ اس میں
مجھے یئی چاہیے
بچے نے کھلونا گاڑی میز سے اٹھائی اور فرش پہ پٹخ دی. وہ زور سے زور سے میز کو ٹانگیں مارے جا رہا تھا، ان صاحب نے غصیلی نظروں سے اسے دیکھا اور بچے کو بہلانے باھر لے گئے. وہ سر پکڑ کے بیٹھ رہا
کوئی دس پندرہ منٹس کے بعد وہ صاحب آئے اور سفید رنگ میں ڈیل کر کے چلتے بنے
چائے کا مگ ابھی ہاتھ میں ہی تھا کہ سامنے گھڑی پہ نظر پڑی تو اچھل پڑا.. جلدی جلدی میں جیکٹ پہنی، دروازے کے دائیں طرف دیوار پہ ٹنگی موٹر سائیکل کی چابی لی، دروازے کو تالا لگایا اور دوڑتا ہوا سیڑھیاں اتر گیا. کمپاؤنڈ میں کھڑی موٹر سائیکل پہلی کِک میں ہی سٹارٹ ہونا بھی کوئی معجزہ ہی تھا جو ہو گیا. جاڑے کے دن تھے اور دھند نے سارے کو لپیٹے میں لیا ہوا تھا. چار قدم سامنے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا. موٹر سائیکل کی لائٹ دھند میں جیسے واپس پلٹ کے آنکھوں کو چندھیا رہی تھی. اس نے ہیلمٹ پہنا اور موٹر سائیکل کمپاؤنڈ سے سڑک پہ لے آیا. ابھی سڑک پہ ذرا سا ہی آگے بڑھا یو گا کہ یک دم سپیڈ بریکر کے پاس موٹر سائیکل پوری ڈول گئی، مشکل نے خود کو گرنے سے بچایا اور موٹر سائیکل سڑک کنارے روک کے دیکھا تو سامنے والے ٹائر پہ خون تھا. وہ دوڑ کے واپس پلٹا تو سپیڈ بریکر پہ پاس خالہ رشیدہ کی کالی بلی کچلی ہوئی پڑی تھی
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...