نئی سرکار نے آتے ہی ملک میں انقلابی تبدیلی کے لئے ہر شعبے میں اکھاڑ پچھاڑ کا آغاز کر دیا تھا۔دوسرے شعبوں کی طرح ادب پر بھی خصوصی توجہ دی گئی اور ملک کے ادیبوں کے لئے کچھ قاعدے قانون بنائے، جن پر عمل درآمد کا آغاز ایک شاندار سیمینار سے کیا جا رہا تھا جو اُس چوٹی کے ادیب کے اعزاز میں تھا جسے کبھی کسی سرکار نے بھولے سے بھی یاد نہیں کیا تھا۔ مگر نئی سرکار کی بدولت سرکاری ایوانوں میں تبدیلی کی ایسی ہوا چل پڑی کہ سیاسی ماحول یکسر ادبی موسم میں بدل گیا تھا۔ صفِ اول کے اس کہانی کار کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لئے لاہور جیسے ادبی مرکز میں ایک سیمینار رکھ دیا گیا، ایک ایسا شہر جہاں کے پوش علاقے لکشمی مینشن میں رہتے ہوئے وہ تقسیم کے دنگے فساد کے خونی لمحات کا چشم دید گواہ بن کر انہیں اپنے افسانوں میں اتارتا رہا اور امر ہوتا رہا۔ سیمینار کے بارے میں جس نے بھی سنا سرکار کی جھولی میں چند تعریفی سکے پھینکے بغیر نہ رہ سکا کہ چلو اس کی زندگی میں نہ سہی، مرنے کے بعد ہی افسانے کے اس بے تاج بادشاہ کو تسلیم کر لیا گیا تھا۔
٭٭٭
”صرف دو تین گھنٹوں کی تو بات ہے شازی، تم کیوں انکار کر رہی ہو؟“ دلاور نے اپنی بیوی سے کہا
”تم پاگل ہو کیا؟ تمہیں نظر نہیں آ رہا کہ منا بیماری سے تڑپ رہا ہے، میں کیسے اُسے چھوڑ کے جا سکتی ہوں؟“ شازی نے تیکھا سا جواب دیا جو گود میں اپنے ننھے بیٹے کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی۔
”منے کو میں دیکھ لوں گاتم اِس کی چنتا مت کرو، مگر تم یہ موقع ہاتھ سے مت جانے دو۔ اور پھر کرنا بھی کچھ نہیں ہے صرف کالی شلوار ہی تو پہننی ہے۔“ دلاور نے اُسے سمجھاتے ہوئے کہا
ُ”دلاور ضد مت کرو ناں، میرا دل نہیں مان رہا۔ میں اپنے بیمار بیٹے کو کیسے تڑپتا ہوا چھوڑ کر چلی جاﺅں؟ “ شازی اکتاتے ہوئے بولی
”شازی…! تم سوچو تو سہی کہ چند گھنٹوں کے اتنے سارے پیسے مل رہے ہیں، جن سے ہم اپنے منے کا بہتر علاج کروا سکتے ہیں۔ قسم سے اتنے پیسے تو تم پورا مہینہ گاہک نمٹا کر بھی نہیں کما سکتی ہو اور اوپر سے بڑے لوگوں سے جان پہچان بھی ہو جائے گی جو آگے چل کر بہت کام آ سکتے ہیں۔“ دلاور نے اسے بہتیرا سمجھاتے ہوئے کہا اور شازی اُس کی بات سن کرچپ چاپ اسے یوں دیکھنے لگی جیسے اُس کے اندر ٹوٹ پھوٹ جاری ہو۔
”تم بھی بہت عجیب ہو، پیچھے ہی پڑ جاتے ہو مگر میں دو گھنٹوں سے زیادہ وقت نہیں دوں گی۔ سن لو تم۔“ شازی نے ہامی بھرتے ہوئے کہا
”ہاں ہاں تم اِس کی فکر نہ کرو، میں اُن سے کہہ دوں گا۔ تو میں انہیں ہاں کر دوں پھر؟‘ ‘ دلاور نے جوشیلے انداز میں پوچھا
”ہاں کہہ دو۔“
شازی نے بیزاری سے کہا اور دلاور کا بجھا ہوا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ اُسی وقت اٹھا اور خوشی خوشی گھر سے باہر نکل گیا۔ شازی اداس آنکھوں سے گود میں سوئے اپنے بیٹے کو دیکھنے لگی جو کل رات سے سخت بخار میں پھنک رہا تھا۔
٭٭٭
لاہور کے ایک اعلیٰ ترین ہوٹل کا سب سے بڑا ہال زرد اور سفید روشنیوں میں نہایا ہوا تھا۔ ہوٹل انتظامیہ نے بھی کمال کر دکھایا تھا کہ سرکاری آقاﺅں اور ادیبوں کو خوش کرنے کے لئے عارضی طور پر ہال کا نام ہی ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال رکھ دیا تھا جو اس کے افسانوں کا سب سے بڑا حوالہ تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال میں ہر طرف اس بڑے ادیب کی تصویریں، اس کے کاٹ دار تیکھے جملے اور مختلف بینر لگے ہوئے تھے۔ہال کے باہر تو اس کی شان ہی الگ تھی کہ جہاں اس کا ایک بڑا سا سنہری رنگ کا چمکتا ہوا عینک والا مجسمہ نصب کر دیا گیا تھا جس کے ساتھ کھڑے ہو کر ہر آنے جانے والا فوٹو بنوا کر اس سے اپنی عقیدت کا اظہار کرتا نظر آتا تھا جن میں زیادہ تر نوجوان لڑکے لڑکیاں شامل تھیں۔
شہر کا شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال میں امڈ آیا تھا جہاں ملکی سطح کے جانے مانے ادیبوں نے اس کی ادبی خدمات کو سراہتے ہوئے اُس کی کہانیوں کو موجودہ سماجی ناہمواریوں کے ساتھ جوڑ کر انہیں نئے زاویئے عطا کئے۔ اس کی الجھی ہوئی شخصیت کی کئی گمنام پرتیں کھول کر لوگوں کی آنکھوں پر حیرتیں باندھی گئیں اور پردہِ سکرین پر اس کی ڈاکو مینٹری پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اس کے مشہورِ زمانہ افسانہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پر مبنی ٹیلی فلم دکھا کر تقریب میں نئے رنگ بکھیرے گئے تھے اور اس کا لازوال تخلیقی جملہ "اوپڑ دی گڑ گڑ دی اینکس دی بے دھیانہ دی منگ دی دال آف لالٹین" پورے ہال میں بارہا گونجتا رہا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہال کبھی تالیوں سے جی اٹھتا، کبھی افسردگی کے گاڑھے دھوئیں سے بھر جاتا اور کبھی پورے ہال پر ایک دم سے سنجیدگی کی چادر تن جاتی تھی۔ میڈیا کے لوگ ان یادگار لمحات کوکیمرے دکھاتے پھر رہے تھے ۔سٹیج پر صفِ اول کے نامی گرامی ادیبوں کے علاوہ چند بڑے حکومتی عہدیدار بھی بڑے طمطراق کے ساتھ کالے چشمے لگائے براجمان تھے۔
سیمینار کا دلچسپ ترین اور حیران کن پہلو یہ تھا کہ اس بڑے ادیب کی عظمتوں کو ایک نئے ڈھنگ سے پیش کرنے کی ایک بہت عمدہ کوشش کی گئی تھی۔ علامتی طور پر اس کے چند مشہور کرداروں کو بھی سٹیج پر بٹھایا گیا تھا اور حاضرین کی آنکھیں تو جیسے ان سے چپک کرہی رہ گئی تھیں۔ جن میں "ممد بھائی" ، "ٹوبہ ٹیک سنگھ" ، "بابو گوپی ناتھ" ، "گورمکھ سنگھ کی وصیت" کا گورمکھ سنگھ اور "کالی شلوار" کی سلطانہ بھی شامل تھی اور یہ سب یادگار کردار تمام لوگوں کی خصوصی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے۔
رات گئے تک سیمینار جاری رہا اور لوگ آخری دم تک پرجوش ہو کر یوں بیٹھے رہے جیسے سٹیج پر وہ چوٹی کا ادیب بھی بیٹھا ہو۔ تقریب ختم ہوئی تو لوگوں نے تمام علامتی کرداروں کو گھیر لیا اور ان کے ساتھ تصویریں بنوانے لگے۔ کافی دیر تک فوٹو سیشن چلتے رہے اور پھر آہستہ آہستہ لوگ وہاں سے رخصت ہونے لگے۔ باہر سے آئے ہوئے تمام بڑے لوگ جو مہمان تھے، دن بھر کے تھکے ماندے اپنے اپنے ٹھنڈے کمروں میں جا گھسے۔ اس بڑے ادیب کے سبھی کرداروں کو بھی رخصت کر دیا گیا تھا سوائے کالی شلوار والی سلطانہ کے جو سٹیج پر بھی کالی شلوار پہنے اپنے حسن اور بولتے خدوخال سے سبھی کے دلوں میں ہلچل مچاتی رہی اور لوگوں کی تیکھی نظریں اسے جگہ جگہ سے ٹٹولتی رہی تھیں۔ بڑے لوگوں کی فرمائش پر سلطانہ کو زبردستی ہوٹل میں ہی روک لیا گیا اور رات بھر اس کی کالی شلوار مختلف کمروں میں سفر کرتی رہی۔
صبح ہوئی تو دیر تک بڑے لوگ اپنے کمروں میں دھت پڑے رہے۔ ہوٹل کی انتظامیہ انہیں نہ جگاتی تو شاید وہ سارا دن یونہی بستر سے چمٹے رہتے۔ ناشتے کے لئے سب ایک ہی جگہ پر جمع ہو گئے۔ سبھی کے خمار آلود چہروں پر ایک خاص قسم کی مسکراہٹ ناچ رہی تھی اور ان کی چمکتی آنکھیں کالی شلوار والی کو ڈھونڈتی ہوئیں ادھر ادھر گردش کرتی آپس میں ٹکرا جاتیں مگر وہ کسی کو بھی نظر نہیں آ رہی تھی۔ کوئی بھی نہ جانتا تھا کہ کالی شلوار والی سلطانہ صبح ہوتے ہی کہاں چلی گئی تھی؟ رات کے نشیلے لمحوں میں کھوئے سب نے مل کر پر تکلف ناشتہ کیا اور پروگرام کے مطابق اس بڑے ادیب کی قبر پر حاضری دینے کے لئے سب تیار ہو گئے جہاں انہیں پھول اور چادر چڑھانا تھی۔
دس بارہ لوگوں کا وفد ایک بڑی سی گاڑی میں بیٹھ کر سیدھا میانی صاحب قبرستان کی طرف روانہ ہو گیا۔ آگے پیچھے پولیس کی دو گاڑیاں دوڑ رہی تھیں جن پر گنیں تھامے کالی وردیوں میں ملبوس پولیس کے جوان چوکس بیٹھے تھے۔پون گھنٹے کی مسافت کے بعد وہ سب قبرستان کے داخلی دروازے پر کھڑے تھے۔ غیر معمولی گہما گہمی، بڑے لوگوں کا ہجوم، گاڑیوں کے بجتے سائرن، پروٹوکول اور کیمرے والے لوگوں کو دیکھ کر ہوائی چپل پہنے بوکھلایا ہوا گورکن دور سے بھاگتا ہوا آیا اور عاجزانہ انداز میں جھک کر ان کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
"اُس شرابی افسانہ نگار کی قبر کس طرف ہے…؟" ایک منحنی سے شخص نے ادھیڑ عمر گورکن سے عجیب طنزیہ انداز میں پوچھا جس نے ایک ہاتھ میں گلاب کی پتیوں سے بھری ٹوکری اور دوسرے ہاتھ میں قبر پر چڑھانے کے لئے چادر تھام رکھی تھی ۔ وہ شاید سرکاری عملے کا کوئی اہلکار تھا جس کے چہرے پر بیزاری کے نوکیلے کانٹے اگے ہوئے تھے۔
"حضور اس طرف ہے….چلیں میں لے چلتا ہوں۔" گورکن نے قبرستان کے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے نہایت عاجزی سے کہا۔ اس کی پھٹی ہوئی آستین لٹک رہی تھی اور اس کا سانولا بازو باہر کو جھانک رہا تھا۔
وہ وفد کے آگے آگے چلتا سفید کتبوں والی چھوٹی بڑی قبریں عبور کرتا ہوا اسی سمت چل پڑا جس طرف اس نے اشارہ کیا تھا۔ اس دوران کیمروں کے دو تین فلیش جھمکے اور گورکن سمیت وفد کی تصویریں اخباری نمائندوں کے کیمروں میں محفوظ ہو چکی تھیں۔ پولیس والوں کے بھاری بھرکم بوٹوں کی دھم دھم نے قبرستان کے سکوت کو تہس نہس کر دیا تھا جو وفد کے اعلیٰ نمائندوں کے آگے پیچھے چل رہے تھے۔ گورکن کی معیت میں کچی پکی قبروں کو پھلانگتے ہوئے وہ اس کہانی کار کی قبر کی طرف بڑھ رہے تھے جو قبر کی بجائے کتابوں میں پڑا ہوا تھا۔
کالی عینکیں چڑھائے دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ وہ سب جونہی ا س مایہ ناز ادیب کی سنگِ مرمر کی سفید قبر پر پہنچے تو ایک دم سے ان کے قدموں کی گونجتی دھم دھم یوں دم توڑ گئی جیسے ان کے پیروں سے سانپ لپٹ گئے ہوں۔ اکڑے ہوئے جسموں والے وفد کے قدم کچی قبر کی طرح سے بُھرنا شروع ہو گئے اور وہ سب اپنی اپنی جگہ پر ہکا بکا کھڑے تھے۔ جس کالی شلوار کو وہ ناشتے کی میز پر ڈھونڈتے رہے تھے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے سب سے بڑے کہانی کار کی قبر پر چڑھی ہوئی تھی جہاں چند کملائے ہوئے پھول بھی پڑے تھے جن کی بکھری پتیاں بتا رہی تھیں کہ انہیں شدت کے ساتھ نوچا گیا تھا۔