::: کلیم الدین احمد: اردو کا معروضیت پسند تاثراتی اور متنازعہ فی نقاد :::
:::کلیم الدین احمد ( 1909ء – 1983ء ) اردو و انگریزی کے مشہور ادیب ، شاعر و نقاد تھے۔ وہ صادق پور پٹنہ کے ممتاز مجاہد خانوادے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے والد ڈاکٹر عظیم الدین احمد جہاں پٹنہ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسر تھے وہیں اردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے۔ ان کا تخلص عظیم تھا۔ کلیم الدین احمد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد اور حافظ عبد الکریم سے گھر پر حاصل کی تھی۔ سنہ 1924ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اورسنہ 1926ء میں پٹنہ یونیورسٹی سے آئی اے کرنے کے بعد سنہ 1928ء میں بی اے آنرس کا امتحان پاس کیا۔1930میں ایم اے انگریزی کرنے کے لیے انگلستان چلے گئے۔ کیمبرج سے فارغ التحصل ہونے کے بعد واپس آئے اور پٹنہ یونیورسٹی میں انگریزی کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ اصناف شعر و ادب سے متعلق ان کی متعدد کتابیں ہیں۔کلیم الدین احمد اُردو کے نقادوں میں اپنی شدت پسندی کے لئے مشہور ہیں۔ انہوں نے اُردو کے ہر چھوٹے بڑے نقاد پر کڑی تنقید کی ہے۔ 1981ء میں بھارتی حکومت نے انہیں ادب کے لیے بہترین خدمات انجام دینے پر ” پدم شری ” اعزاز سے بھی نوازا۔ اردو کو معروضیت پسند تجزیاتی نقاد کہا جاتا ھے وہ کسی حد تک متنی نقاد ھوتے ھوئے بھی متن کی مرکوزیت سے بھی انحراف کرتے ہیں۔ انھوں نے معروضیت کی ادبی تنقید کو کو نیا شعوری مقام دیا۔ عبادت بریلوی نے معروضیت پسندانہ تجزیاتی تنقید کے بارے میں لکھا ہے" تنقید نگار فنی تخلیقات میں دوب کر اور کھوکر فن کے مفہوم کو سمجنے کی کوشش کرے۔ان کی باتوں پوری طرح سمجھ کر عوام کے سامنے پیش کرے اس کے اچھے بے تمام پہلو نمایاں ہو جائیں گے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں کی تفصیل سے یہ کہ اس کے اچھے برے تمام پہلو نمایان ہو جائین۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ سکتے ہیں کہ سکتے ہیں تفصیل سے یہ بتانا اس کا فرض ہے کہ وہ خیالات کیا پہں ، ان کی نوعیت کیا ہے اور کس قسم کے ہیں، وہ کیوں پیش کئے گئے ہیں، ان کا مقصد کیا ہے، کن حالات نے ان کو پیدا کیاہے اور یہ کہ وہ مفید ہیں یا مضر ۔۔" { ا'اردو تنقید کا ارتقا" از عبادت بریلوی، ایجوکیشنل بک ہاوس، علی گڑھ۔ 1988 صفحی 33} ۔ کلیم الدین احمد کی ناقدانہ زندگی کا آغاز ترقی پسندی کے دور میں ہوا۔ جو ادب کو عمرانیاتی، سیاسی جمالیاتی اور مخصوض آئیڈیالوجی کے تناظر میں ان کا ٹی ایس ایلیٹ کی طرح ادب کی عظمت کو دوسرے اصولوں سے بھی سمجھا۔ مگر ادب کے عدم یا وجود کو صرف ادبی معیارات سے ہی جانچا چاسکتا ہے۔اور مطالعہ کرتا تھا اور اسی حوالے سے لکھتا تھا۔
کلیم الدیں احمد نے اپنے استاد ایف آر لیوس اور انگریزی کے نقاد وں سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ لویس بنیادی طور پر فکشن کے ناقد تھے جب کہ کلیم الدِن کا تمام تنقیدی تحریریں "شاعری" پر ہیں۔ ان کے تنقیدی نظریات کوئی طبعزاز نہیں ہیں اور نہ ان کو نیا کہا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ ان کی خوبی ہے کی وہ مغربی تنقیدی نظرایات کو بڑی چابک دستی اور کمال اظہار سے بڑے سلیقے سے اردو میں پیش کرکے اردو کے قادی کو چونکا دیتے ہیں۔ وہ متنازعہ نقاد ہیں مگر اس کی بات میں "دم " ہوتا ہے۔ ان کے تنقیدی نظریات پر اعتراض بھی کئے گئے ۔ وہ اپنی بات بڑے دبنگ انداز میں بلا کسی بھید بھاو کے بغیر بلا خوف لکھتے ہیں۔ مثلا وہ لکھتے ہیں ۔۔۔" شاعری کی ہندوستان میں قدر و مزلت نہیں" ۔۔۔۔ مگر کلیم الدیں احمد نے شاعر کو ایک حساس آلہ سے تشبہیہ دی ہی جو برابرا تھرتھراتا رہتا ہے جس پر واقعات بابر اثر ڈالتے رہتے ہیں۔ اور یہ سارے واقعات اس کے شعور یا تحت شعور میں محفوظ رھتے ہیں۔ ۔ وقت ضرورت ان سبھوں سے کام لیتا ہے اور لے سکتا ہے۔ جب کوئی پر خوش جذبہ یا خیال اسے بے تاب کرتا ہے اوراپنی ترجمانی پر مجبور کرتا ہے۔ تو سارے اثرات ، نقوش، تصورات ، جذبات و تجربات اس کی مدد کرتے ہیں ۔ سب کے سب وہی موزوں اور مناسب ہوتے ہیں جنھیں یہ مخصوص تجربہ کسی اندرونی اور پوشیدہ رشتے کی وجہ سےکھینچ لیتا ہے۔" { اردو شاعری پر ایک نظر، { حصہ اول} ، از کلیم الدیں احمد، اردو مرکذ پٹنہ ،1952 صفحہ 19} انھون نے اردو کے شعرا میر ، درد سودا، ذوق مومن، میر حسن، نسیم ، شوق انیس اور دبیر کے علاوہ آزاد، شبلی اسماعیل میرٹھی۔ اکبر الہ آبادی، شوق قدوائی، اقبال، جوش، چکبست، حفیظ جالندھری حسرت، فانی ، اصغر اورجگر مراد آبادی۔ کی شعری ماہیت ،ان کے محاسن کے علاوہ ان کے عیوب اور نقائص کو بھی اجاگر کیا ہے۔ سنہ 1979ء میں علامہ اقبال صدی کے موقع پر انہوں نے ایک اور ہنگامہ خیز کتاب لکھی۔”اقبال ایک مطالعہ“ اور اس کتاب میں انہوں نے علامہ اقبال کی نظمیہ شاعری کو تو سراہا ہے لیکن انہیں عالمی شعرا کی فہرست میں شامل نہیں کرتے۔ ان کی اس کتاب کے جواب میں پروفیسر عبد المغنی نے دو ضخیم کتابیں لکھیں اور کلیم الدین احمد کے نظریات کا مسکت جواب دیتے ہوئے کہا کہ علامہ اقبال عالمی شعرا کی فہرست میں بہت اہم نام ہیں۔ جن کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے ٹھوس دلائل دیے۔ کلیم الدین احمد نے اپنی سوانح عمری” اپنی تلاش “ میں عنوان سے لکھی تھی جو دو جلدوں میں شائع ہوئی۔ انہوں نے کلیات شاد، دیوان جوشش عظیم آبادی اورمقالات قاضی عبد الودود کی بھی تدوین کی۔
کلیم الدین نے اپنے طریقئہ نقد میں تقابل اور توازن کو ایک خاص اہمیت دی ہے ۔ ان کا بیشتر تنقیدی سرمایہ موازنہ پر مبنی ہے ۔ کبھی تو وہ موازنہ کے ذریعہ استنباط نتائج کو مستحکم کرتے ہیں اور کبھی فن پارے کے تجزیاتی مطالعہ کی اساس تقابل پر قائم کرتے ہیں۔ایک مثال سودا اور محسن کاکوری کے مشہور قصیدے کے مطلع سے ملاحظہ ہو ۔ انہوں نے ان دونوں شعرا کی تشبیب کا موازنہ موضوع کے پیش نظر جزوی طور پر پیش کیا ہے ۔ سودا کا مطلع دیکھیے :
اٹھ گیا بہمن و دے کا چمنستان سے عمل
تیغ اردی نے کیا ملک خزاں مستاصل
محسن کاکوری کا مطلع :
سمت کاشی سے چلا جانب متھر بادل
برق کے کاندھے پہ لائی صبا گنگا جل
کا تقابل کرتے ہوئے وہ رقمطراز ہیں :
سودا بہار کا نقشہ پیش کرتے ہیں ، محسن کاکوری برسات کا ۔ سودا کی تشبیب سے کم سے کم بہار کی رنگینی و فراوانی کا اندازہ ملتا ہے ۔ محسن کاکوری کے اشعار سے پراگندگی پیدا ہوتی ہے ۔ اور کوئی صاف مکمل نقشہ مرتب نہیں ہوتا۔ سودا میں ایک زور ہے جس نے آورد کو آمد میں تبدیل کر دیا ہے ۔ محسن کاکوری میں یہ زور موجود نہیں ۔
ان کی عملی تنقید میں موازنہ کا طریقہ ایک مخصوص حیثیت کا حامل ہے ۔ کبھی تو انہوں نے فن پارے کی توضیحی اساس تقابل پر منضبط کی ہے اور کبھی استخراجی نتائج کی تائید و تردید کے لیے تقابل کا سہارا لیا ہے ۔ اسی وجہ سے ان کی عملی تنقید کا بیش تر حصہ موازنہ سے عبارت ہے ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ ان کے یہاں شاعری تنقید میں کسی فن پارے کا کلی طور پر تقابلی مطالعہ نہیں ملتا،بلکہ جزوی طور پر نمایاں ہوتا ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ غالباً یہ ہوتی ہے کہ وہ جس متن کو اپنے تجزیاتی مراحل سے گزراتے ہیں اس کا تقاضہ یہی ہوتا ہے کہ مقاصد کی تکمیل جزوی تقابل سے پوری ہوجاتی ہے ۔ بعض مواقع میں کلیم الدین کا تقابلی مطالعہ ناقص رہتا ہے ۔ کیونکہ وہ اپنے وضع کردہ اصولوں کے انطباق میں نفس مضمون اور عندیہ متن کی تحریف کا لحاظ کیے بغیر فن پارے سے استدلال کرتے ہیں ۔ بہر کیف اس کے باوجوبھی ان کا تقابلی طریق نقد ، متون کی توضیح ، استنباط نتائج اور تعین قدر کے اعتبار سے صحت مند ہے {کلیم الدین احمد کا تصور نقد اور نقد شعر۔ از شاکرعلی صدیقی۔ نوان/9 شمارہ تحقیق وتنقید 1 ۔۔ ستمبر 16۔ اردو ریسرچ جرنل}
وہ لکھتے ہیں ۔۔" آزاد اور حالی نے مغربی ادب سے استفادہ کرنے کا مشہورہ پیش کیا تھا اور اس مشورے پر عمل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ جس اساس نے آزاد اور حالی کو سرگرم عمل بنایا تھ۔ وہ ان کے بعد بھی کار فرما رہا۔ اردو میں پیروئی مغرب عام ہوئی۔ نئےلکھنے والوں کو مغرب اور اصول تنقید تک رسائی تو ہوئی لیکن نتیجہ اچھا نہیں ہوا"۔ { اردو تنقید پرا یاک نظر صفحہ ۔ 138۔139} کلیم الدیں احمد ارسطو، کروچے، ایس ٹی کالرج ، میھتیو آرنلڈ ٹی ایس ایلیٹ۔ آئ اے رچرڈ اور ایف ر لیوس کے تنقید سے متاثر تھے۔ ان کی تنقید اردو میں ہنگامے لے کر آئی اور گذر گئی۔۔۔ "میری تنقید میں وہ لکھتے ہیں " جیاں تک میری تنقید سے متعلق بہت سی باتیں کہی گئی وہان ایک بات یہ بھی ہے کی میری تنقید تخریبی ہے" ۔ کلیم الدین کی عملی تنقید شعرو ادب کے متن کو بنیادی حیثیت عطا کرتی ہے ۔ ان کی تنقید کی اساس فن پارے پر مرتکز رہتی ہے ۔ وہ فن پارے کے مختلف انسلاکات اور معروضی لوازمات سے قطع نظر فنی تخلیق پر اپنی پوری توجہ صرف کرتے ہیں اور کبھی کبھی وہ فن کارکی قدر سنجی کے لیے اس کے معاشرتی پس منظر کا بھی مطالعہ کرتے ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے فن پارے کی عملی تنقید کرتے وقت متن کے مرکزی خیال اور موضوع کی نشاندہی کرکے اسے کے حسن و قبح پر زیادہ تر بحث کی ہے ۔ انہوں نے موضوع اور ہیت کو منفرد اکائی کے طور پر پرکھنے کی کوشش کی۔۔ان کی تنقید جھنجھلاھٹ، زود رنجی، مغرب سے مرعوبیت، نقد اور تخلیق گریزی کے نمونے ہیں جو نہ ھی مکمل طور ہر عملی تنقید ھے اور نہ ہی یہ تاثراتی نقد کے معیار پر پوری اترتی ہیں۔ کلیم الدیں احمد ترقی پسندوں کے سخت مخالف تھے۔ ۔ وہ اردوتنقید کی سطحیت، بے راہ روی، انتشار اور عدم مقصدیت کو اپنی غیر مومالی ذہانت، فطانت اور قوت اعتماد و مطاالے بنیاد پر بے نقاب کیا ہے۔ یو اپنے تجرابات کے ترجمان نہیں ہیں دوسروں کے منہ اگلے ہوئے نوالے چباتے ہیں اور ان کا پرچار کرتے ہیں۔ وہ ان کا موقف ہے " ترقی پسند شعرا شاعر نہیں، وہ چند خیالات کی ترویج کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنے تجربات کے ترجمان نہیں، ابتہ دوسرون کے خیالات کی تشہیر کرتے ہیں۔ " { اردو شاعرے پر ایک نظر۔ صفحہ 157}یہی نہیں انھوں نے ترقی پسندوں کے سب سے بڑے دشمن محمد حسن عسکری کو بھی اپنی تحریروں میں آڑے ہاتھوں لیا۔ انھوں نے اردو انتقادات کی سطحیت، بدنظمی،کھوکھلی فکری گہرائی، اور ستائش باھمی کے منفی رویوں کو بڑی دلیری سے بے نقاب کیا اور ان کے عیوب کی نشاندھی بھی کی انھوں نے اردو غزل کو نیم وحشی شاعری کہ کر ایک ہنگامہ کھٹرا کردیا۔ حالانکہ یہ ان کی طبعزاد "فکر خلاقی" نہیں تھی۔ یہ اصل میں اٹلی کے فلسفی اور ماہر جمالیات " کروچے" کا تصور ھے۔ جھنوں نے شاعری کو " وحشی صنف" کہا تھا۔ انھوں نے کروچے کے اس خیال کو بغیر حوالے اور سوچے سمجھے اردو غزل سے بھڑوادیا۔ اور ساتھ ھی اردو تنقید کا وجود فرضی قرار دیا۔ ان کا " تنقیدی شعور" اقبال، غالب اور فیض کے شاعرانہ فن و فکر سے بھی مطمن نہیں ھے۔وہ انھیں واجبی شاعر تصور کرتے ہیں۔انھوں نے سنجیدہ اور حساس موضوعات کو بھی " دل لگی" سمجھ کر لکھا۔ اور قاری نے ان کے اس عمل اور رویے سے اپنی ناراضگی کا اظہار بھی کیا۔کلیم الدیں احمد نے اپنے ایک مضمون میں مرثیے اور میر انیس کے حوالے سے لکھتے ھوئے امام حسین ( ر۔ض) کو لکھنو کا دولھا بنا دیا۔ وہ "نئی امریکی تنقید" سے بھی متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔ کلیم الدیں احمد رنگا رنگ پھلجھڑیاں چھوڑ کر اردو تنقید کو "رنگا رنگ" تو بنا دیا۔ مگر ان کے یہ تنقیدی رویوں اور حرکتون کے سبب نہے آنے والے نقادوں کو نراجیت، اشتعال پسندی کے روش اور جھنجھاہٹ کا درس دیا۔
کلیم الدیں احمد پرمیرے دیگر مضامین کراچی کے مرحوم ادبی جریدے ۔۔"تشکیل" ۔۔ جنوری 1995،۔۔۔۔۔۔۔۔ نیویارک (امریکہ)کے ادبی جریدے ۔۔" زاویہ" ۔۔ اگست۔ نومبر 2001 ۔۔۔۔۔۔ اور نیویارک کے ہفت روزہ" ٹائم میگ" کے ادبی ایڈیش { ، ، اگست 2010 کی اشاعتوں میں شائع ھوچکا ھے۔ میری کتاب " تنقیدی مخاطبہ "{2017، ممبئی} میں کلیم الدیں احمد پر ایک مضمون شامل ہے۔
**** کلیم الدین احمد کی تصانیف ***
=====================
25 نظمیں
موتی لال بنارسی داس
1966
42 نظمیں
مکتبۂ طور، پٹنہ
1965
اپنی تلاش میں
شاہدہ حیدری برائے کلچرل اکیڈمی
1975
ادبی تنقید کے اصول
مکتبہ جامعہ دہلی
1983
اردو تنقید پر ایک نظر
ادارہ فروغ اردولکھنؤ
1957
اردو تنقید پر ایک نظر
دائرۂ ادب پٹنہ
1983
اردو شاعری پر اک نظر
حصہ دوم
عظیم پبلشنگ ہاؤس، پٹنہ
اردو شاعری پر ایک نظر
حصہ اول
بک امپوریم پٹنہ
1985
اردو شاعری پرایک نظر
عنوان پبلیکشن کراچی
اقبال: ایک مطالعہ
کریسنٹ کوآپریٹیو پبلشنگ سوسائٹی لمیٹڈ، گیا
1979
بیالیس نظمیں
مکتبۂ طور، پٹنہ
1965
تحلیل نفسی اور ادبی تنقید
بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
1990
دو تذکرے
لیتھو پریس، پٹنہ
1959
سخن ہائے گفتنی
کتاب منزل سبزی باغ پٹنہ
1967
عملی تنقید
جلد ـ 001
کتاب منزل سبزی باغ پٹنہ
1963
عملی تنقید
جلد – 001
اردو کتاب گھر،حیدرآباد
فرہنگ ادبی اصطلاحات
ترقی اردو بیورو، نئی دہلی
1986
فن داستان گوئی
دائرۂ ادب پٹنہ
میر انیس
بہار اردو اکیڈمی، پٹنہ
1988
نذرکلیم
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔