عرفاء حضرت اقبالؒ کو بجا طور پر “قلندرِ لاہوری” اور “کلیم ثانی” کے القاب سے موسوم کرتے ہیں جس کی وجہ تسمعیہ محبت رسولﷺ سے لبریز دل میں ٹھائیں مارتا سمندر بنا ہو گا جس نے ان کی زبان سے کشتئہ عشق رسولﷺ حضرت غازیی علم الدین شہید کے بارے میں مندرجہ ذیل شہرہ آفاق الفاظ کہلواۓ تھے
“اسی گلاں اِی کردے رہ تے درکھاناں دا منڈا بازی لے گیا”
یا پھر ان کی جگہ مشہور نظم
“شکوہ اور جوابِ شکوہ” ہی بنی ہو گی جس میں اقبال نے مسلمانوں کو اپنے رب سے رابطہ بحال کرنے کا درس دیا ہے۔
مجموعی طور پر عرفانِ ذات خودی سے آشنائی اور منفرد مبلغ قلندر لاہوری نے احساس زیاں کو اپنی تبلیغ کا سرنامہ قرار دے کر اصلاح احوال کےلیے اپنا آرام و سکون، علم و فکر اس طرح قربان کیا کہ آج رزم حق و باطل میں کامیاب و کامران کسی بھی شخص سے جب پوچھا جاۓ تو جواب ملتا ہے کہ فکرِ اقبال ہی اس کی رہبر رہی ہے جس میں ان کا یہ شعر پیش پیش ہے
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
آئیے اس فخرِ اسلاف سپوت کے خاندانی پس منظر پر طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
“سپرو” برہمنوں کی ایک شاخ ہے اور برہمن ہندؤں کی ایک اونچی ذات سمجھی جاتی ہے۔
سپرؤں کی نسل سے ایک شخص بابا لول حج تھے جنہوں نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ ان کی شادی ایک مسلم خاتون سے ہوئی جو انہیں دل سے قبول نہ کرتی بلکہ طعنے دیتی۔
دل برداشتہ ہو کر وطن چھوڑا سالہا سال سیاحت اور کئ حج کیے آخر وطن کشمیر کی یاد آگئ اور واپسی ہو گئ کیونکہ
“ہر چیز اپنے اصل کی طرف رجوع کرتی ہے”
حضرت اقبال کے دادا اپنے تین بھائیوں کے ساتھ کشمیر سے سیالکوٹ آۓ یہی کے ہو کے رہ گئے جبکہ بھائی پنجاب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔
بعض روایات کے مطابق کشمیر سے ہجرت کرنے والے بزرگ جمال الدین تھے۔
اقبال کے والد شیخ نور محمد اپنے دس بھائیوں کی یکے بعد دیگرے موت کے بعد زندہ رہ گئے تھے گویا قدرت کو ان سے اقبال کے ذریعے اصلاحِ خلق کا کام لینا تھا۔
نور محمد ناظرہ قرآن پڑھ سکتے تھے بعد میں فارسی اور اردو بھی کافی حد تک پڑھنے کے قابل ہوۓ۔
سیالکوٹ میں پہلی سلائی مشین شیخ نور محمد نے منگوائ تھی۔
ٹوپی اور کپڑے سینے کا کاروبار خوب چلا۔
اللہ کا کرم ہوا اور اللہ نے علامہ اقبال کی صورت میں ان کے گھر خوشی کا پیغام دیا اور ۹ نومبر ۱۸۷۷ کو علامہ اقبال نے اس دینی گھرانے میں آنکھ کھولی۔
شیخ نور محمد کو تصوف سے کافی دلچسپی تھی جس نے اقبال کو صوفی بھی بنا دیا اور نماز روزہ کا پابند بھی۔
اقبال کی تربیت امام بی شیخ نور محمد اور میر حسن نے کی۔
برسوں بعد حضرت اکبر الہ آبادی نے اپنی شاعری میں اعتراف کیا ہے کہ اقبال میں پیدا ہونے والی خوبیوں میں ان کی ماں امام بی بی کا کردار نہایت معتبر ہے۔
اقبال بچپن میں تلاوت کررہے تھے والد نے پوچھا کیا کررہے ہو جواب ملا قرآن مجید پڑھ رہا ہوں۔
فرمایا اسے سمجھتے بھی ہو؟ کہا کچھ نہ کچھ!
فرمایا بیٹا قرآن مجید کو صرف وہ سمجھ سکتا ہے جس پر اس کا نزول ہو جب تک تو یہ سمجھ نہ لے کہ قرآن تیرے دل پر اسی طرح اتر رہا ہے جس طرح حضورﷺ کے قلبِ اقداس پر اترا تھا تو تلاوت کامزہ نہیں۔
اسی کو اقبال نے اپنے شعر میں یوں بیان کیا ہے
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے نہ راضی نہ صاحب کشاف
شیخ نور محمد کی یہی تربیت تھی جس نے اقبال کو معانی در معانی قرآن مجید سے روشناس کرانے کا سلسلہ جاری رکھا
اور ایک دن وہ آیا جب اقبال بول پڑے
“لوح بھی تو قلم بھی تو تیرا وجودالکتاب”
اقبال کہتے ہیں میرا دور شباب تھا ہمارے گھر کے دروازے پہ ایک فقیر بار بار صدا لگا رہا تھا مجھے غصہ آیا، مجھ سے بھول ہوئی اور میں نے اس کے سر پر لاٹھی مار دی۔ اس کی جھولی سے خیرات گر گئ والد صاحب دیکھ رہے تھے سخت پریشان ہوۓ فرمایا کل نبیﷺ کے حضور پیشی ہو گی اور مجھ سے سوال ہو گا کہ میں تمہاری تربیت نہیں کرسکا جس پر میں اتنا نادم ہوا کہ پھر دوبارہ کسی سے اونچی آواز میں بات تک نہ کی۔
میر حسن نے ایک مدرسے میں اقبال کو دیکھا شیخ نور محمد سے رابطہ کیا پھر استاد شاگرد ایک دوسرے کے حسن عمل کا حوالہ بن گئے۔
آپؒ کی تربیت اور اساتذہ کے خلوص اور محنت کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا اور آپؒ اورینٹل کالج لاہور میں میکلوڈ عریبک ریڈر عملی تحقیق پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں بطور معلم خدمات کے ساتھ ساتھ منفرد ذوق مطالعہ اور تخلیقی کارنامے اقبالؒ کی کتاب زندگی کے نمایاں اسباق ہیں۔
فارسی میں ادب کا جو ذخیرہ موجود ہے اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں ہے۔
اقبالؒ کی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی ادب کی جاں بھی ہے اور بیش قیمت خزانہ بھی ہے جس میں زبوز عجم، پیام مشرق اور نواۓ سروش قابل ذکر ہیں۔
۱۹۰۸ سے ۱۹۱۳ اقبالؒ کی پیشہ ورانہ مصروفیت کا دور ہے۔اسی دوران شاعری کے ذریعے پیغام جاری رکھا۔تمام مصروفیت کے باوجود ملی خدمات کا فریضہ خوب انداز میں جاری رکھا۔
۱۹۱۱ میں علی گڑھ جلسے میں معرکہ آرا مضمون
The Muslim Community
پیش کیا جس نے مسلم قوم کی ترجمانی کا حق ادا کردیا۔
الغرض اقبالؒ کی زندگی عمرانی تقاضوں کو نبھانے کا بہترین نمونہ بھی ہے اور روحانی تقاضوں سے انصاف برتنے کی بہترین مثال بھی ہے جس میں پیغام قرآن پر عمل کی کئ صورتیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ تلاوت قرآن اور تفسیر قرآن پڑھنے کا جگری شوق حیات اقبالؒ کا من پسند مشغلہ تھا۔ دوستوں سے کہا کرتے تھے ”
موت اٹل ہے جب آۓ گی تو مجھے متبسّم پاۓ گی”
اسی خیال کو اپنے احباب سے کئ بار ذکر کیا اور ساتھ ہی اپنا شعر سنایا کرتے تھے
نشان مرد مومن باتو گویم
چو مرگ آید تبسم برلب اوست
بستر مرگ پر بھی مولانا مودودی سے ملاقات کے آرزو مند تھے۔
یعنی جب جسم ناتواں بلکہ تقریبا ساکت ہوچکا تھا صرف دماغ چل رہا تھا اس وقت بھی قوم کی حالت بدلنے کی فکر تھی مگر زندگی نے مہلت نہ دی۔
لاہور کی فضا اذانوں سے گونج رہی تھی اور علامہ اقبالؒ کی روح اللہ اکبر کی صداؤں کے ساتھ اپنے رب کی طرف محو پرواز تھی.
علی بخش علامہ اقبالؒ کا وفادار ملازم ان کے قدموں سے لپٹ کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا جب کہ علامہ اقبالؒ کے لبوں پر ہلکا ہلکا تبسم رقصاں تھا۔
*****
معظمہ شمس تبریز