پاکستان کے انتہائی شمال میں چین کی سرحد وں کے قریب کئی گمنام مقامات پر دنیا سے کٹے چند قبیلے اپنی خاموشی زندگیاں گزار رہے ہیں ۔ سا ئنس اور ٹیکنالوجی کی ترقیوں نے نہ تو ان قبیلوں کو مستفید کیا ہے اور نہ ہی آلودہ ۔ ان قبلیوں میں سب سے بڑا قبیلہ شاذر ہے جو تبت سے چند سو میل دور پہا ڑوں کے بیچ آباد ہے ۔ اس قبیلے کے لوگ صدیوں پرانی روایا ت اور مقامی قوانین پر عمل پیراہیں ۔ نہ ان کو جنوبی اور جنونی جمہوریت کی پر واہ ہے نہ شمالی اشتمالی نظام کی ۔ ان کی اپنی جرگہ نما کونسل ہے جو قبیلے کے دس سرکردہ سرداروں پر مشتمل ہے اس کو نسل کو مقامی زبان میں ورتا کہا جا تا ہے ۔
یہ قبیلہ تین چا ر دیہا تو ں میں آباد ہے ۔ جو تھو ڑے تھوڑے فا صلے پررہائش پزیر ہیں ۔ ان کی عما رتیں پتھر و ں،لکڑی، مٹی اور ایک مخصو ص سفو ف کے مسا لے سے بنا ئی جا تی ہیں جو ندی نا لو ں کے ذریعے سے بہہ کر آ تا ہے۔ ان مکا نو ں کی تعمیر میں انتہا ئی دیدہ زیبی اور نفاست دکھا ئی دیتی ہے۔ جو جگہ میں بیا ن کر رہا ہو ں و ہا ں تقر یبا سا رے مکا نا ت ایک صدی پرا نے ہیں ۔تمام مکانوں کے دروازے، کھڑکیاں،چھجے، اور دیواریں ایک جیسی ہیں۔ جیسے کسی ایک ہی راج نے سارا گاؤں اکیلا ہی بنایا ہو۔مکا نو ں کو صنو بر، صند ل اور دیو دار کے فلک بو س در ختو ں نے اپنے دامنِ پنا ہ میں لے رکھا ہے۔ چھو ٹے چھو ٹے پتھر وں سے بنا ئے گئے زینے بڑے بڑے صحنو ں سے چھتو ں کو جا تے ہیں۔ لو گو ں کا پیشہ ز یا دہ تر کھیتی با ڑی اور گلہ با نی ہے۔ سر کا ری دفا تر ، سکو لو ں اور ملا زمتو ں کے مشینی معمو ل سے ما ور ا یہ لو گ من مو جی زند گی گز ار رہے ہیں ۔صبح اور دوپہر کے درمیا ن بھر پو ر نا شتہ کر کے مر د اپنے کا مو ں پر نکل جا تے ہیں ۔کو ئی کھیتو ں کی طرف اور کو ئی ریو ڑ وں کے سا تھ قدرتی چر اگا ہو ں کی طر ف روا ں دواں ہو تا ہے۔ گھڑ یو ں سے نا آشنا لو گ ہما ری گھڑیو ں کے تقر یبا نو دس بجے صبح کے سمے اپنے گھر وں سے نکل پڑ تے ہیں ۔خو ب گہما گمی ہو تی ہے۔ نو جو ان اور بو ڑھے چروا ہو ں کی جو ان اور بو ڑھی بو لیا ں گا ئیو ں کے ڈکا رنے اور بکر یو ں کے ممیانے میں گھل مل جا تی ہیں ۔ سٹر کو ں ، گلیو ں اور مید انو ں میں ہر جا سبز ے کا مخملیں قا لیں بچھا ہو نے کے نا طے یہ انسا نی اور حیو انی قا فلے بغیر مٹی اور گر د اڑ ائے اپنی اپنی منز لو ں کی طر ف روا ں دواں ہو جا تے ہیں۔ خو اتین گھر کی صفا ئیو ں سے فا رغ ہو کر ایک دو سرے کے گھر وں کا رخ کر تی ہیں یا کشادہ چھتوں کا رخ کرتی ہیں جہاں اپنی اپنی عمر کی ہمسائیوں سے طویل کھسر پھسر یا ہنسی مزاق شروع ہو جاتا ہے۔ اب یہ علا قہ مر دوں سے عا ری خا لص زنا نہ بن چکا ہے آج تیز ہو ا چل رہی ہے ۔ تیز ہو ائیں مخملی ز مین کے سبز کچو ر گھا س کے ننھے منے تنکو ں کو یو ں رقص کر وا ر ہی ہیں جیسے نپو لین کی فو جیں پر یڈ کر رہی ہو ں ۔ گا ؤ ں کے جنو بی حصے میں آئیں تو ایک چھو ٹا سا چو را ہا دکھا ئی دیتا ہے ۔ غربی جا نب پتھر یلی گلی کے کنا رے گھا س لمبا ہو چکا ہے اور ہو ا کے دوش پر مکا نو ں کی دہلیز وں کے نر م و شیر یں بو سے لے رہا ہے ۔ اس گلی کے چو تھے مکان کی چک اٹھی ہو ئی ہے اور ایک سر خ چہر ہ دورجا تے ہو ئے ریو ڑ کو دیکھ رہا ہے۔ اس ریو ڑ کار کھوالا جیو نت اس لڑ کی کے سر کا سا ئیں ہے ۔شا نز لے کتنی دیر سے مکا ن کے دروازے میں کھڑ ی ہے ۔ بھا ری بھر کم چک اس کی نا تو اں کمر پر بو جھ نہیں بن رہی ۔اس کی لا مبی آنکھو ں پر پلکو ں کی کنگھیاں سا یہ کیے ہو ئے ہیں۔ اس گا ؤ ں کی حسین لڑ کیو ں کی طر ح اس کی زلفیں بھی گھنگھر یالی ہیں ۔ زلفو ں کے سیا ہ گھونگھر تیز ہو امیں دھیرے دھیرے اوپر نیچے ہو رہے ہیں جیسے بحر اوقیا نو س میں چا ند نی را ت کو جو ار بھا ٹا شروع ہو نے وا لا ہے ۔ میڈ ونا اور میڈ ورا کے نا مو ں سے انجا ن سر خ سر خ گلا بی با ریک سے ہو نٹ نمی چھلکا رہے ہیں ۔ کاسنی رنگ کے لبا س میں ملبو س شا نز لے کو ایک نظر دیکھ کر ہی یہ با ت دعو ے سے کہی جا سکتی ہے کہ جیو نت دنیا کا خوش قسمت تر ین انسا ن ہے۔ دو پہر اور صبح کا درمیا نی وقت ہے ابھی تک ان کی 3سا لہ بیٹی شینی کمر ے میں گہر ی نیند سو رہی ہے۔
شینی اپنے ابو سے بہت ما نو س ہے ۔ یہ محبت بھی اسی فطری محبت کی طر ح ہے جو ہر بیٹی اپنے والد کے لیے محسو س کر تی ہے اور جس محبت کو مغر بی دنیا جا نے کن کن گھٹیا جذ با ت کی آئینہ دار سمجھتی ہے ۔ جیونت اپنے ریو ڑ کو لے اس وقت واپس آتا ہے جب سورج غربی گلیشیر کے قریب پہنچ جا تا ہے ۔ اس وقت شا نز لے اور شینی دو نو ں اپنی گلی، چو را ہے اور گا ؤ ں سے نکل کر پہا ڑی ند ی کے کنا رے جیو نت کا استقبا ل کر تی ہیں۔ جب ریوڑ قر یب آتا ہے تو جیو نت شینی کی طر ف اور شینی جیو نت کی طر ف بھا گتی ہے ۔ جسیے ہی ننھا سا دل ایک بھر پو ر مر دانہ سینے سے ٹکر اتا ہے کا ئنا ت مسکر اا ٹھتی ہے۔ پر ند ے آسما ن کو سر پر اٹھا لیتے ہیں ۔ گائیں ڈ کا رڈکار کر اور بکریاں ممیا میا کر ہنسنا شروع کر دیتی ہیں۔ میمنے محض مسکراہٹ پر اکتفا کر تے ہیں۔ ایک دفعہ با پ کی طر ف بھاگتے ہوئے شینی پاؤں میں موچ آنے پر دھم سے گر پڑی تھی۔اس کی درد بھری چیخوں کے احترام میں ساری کائنات پر ماتمی خاموشی طاری ہو گئی تھی۔
جیو نت سو رج غر وب ہو تے ہیں اس بہشتی ما حو ل میں شا م کا کھا نا کھا تا ہے۔ شینی با پ کے سا منے آلتی پالتی ما ر کر بیٹھ جا تی ہے۔ جیو نت ایک نو الہ اپنے اور ایک شینی کے منہ میں ڈالتا ہے۔ چاہے شینی ایک نوالہ چبا نے اور نگلنے میں کا فی دیر بھی لگا دے۔جیونت کی پسند شینی کی بھی پسند ہے۔ اگر جیونت کو دال ماش اور آلوؤں کا بھرتہ پسند ہے تو شینی کے بھی یہ پسندیدہ کھانے ہیں۔جب گھر میں ان میں سے کوئی کھانا بنتا ہے تو یہ باپ بیٹی کے لیئے ضیافت بن جاتا ہے۔
سو نے سے پہلے جیو نت اپنی پوٹلی کھو لتا ہے جس میں مو سمی جنگلی پھل اور بیر یا ں ہو تی ہیں۔ شینی کو جنگلی توت خاص طور پر کالے توت بہت اچھے لگتے ہیں اور وہ ان کو کھا تے ہو ئے اپنے ہا تھو ں ، رخساروں اور ہو نٹو ں کو سیا ہ کر دیتی ہے۔ کالے توتوں کے گاڑھے خونی رس نے پوٹلی کو سیاہ بنا دیا ہے۔ شینی کو یوں لگ رہا ہے کہ پوٹلی کے اندر توتوں کی جگہ گوشت ہے اور کالا کالا خون پوٹلی سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سو تے سمے ما ں بیٹی کو اپنے سا تھ سلانا چا ہتی ہے لیکن شمی حسب معمو ل ابو کے سا تھ سو نے پر بضد ہے ۔اسے شا ید بابا کے تنو مند اور مضبو ط پٹھو ں والے با زو کے علا وہ کہں نیند نہیں آتی ۔ سو نے کے بعد اس کو جیا ں سلا دیا جا ئے اس سے شینی کو کو ئی غر ض نہیں ۔
یہ چھو ٹا سا گھر انہ اپنی خوشیو ں میں مگن زند گی گز ار رہا تھا۔ لیکن ایک دن کچھ الٹ ہو گیا۔ سا تھ وا لے گا ؤ ں کا ایک چر وا ہا اکثر جیونت کے پنپتے ہو ئے ریو ڑ کو حسد کی نگا ہ سے دیکھتا تھا۔ ایک دوپہر کو جیو نت جب اپنے ریو ڑ کے سا تھ جا رہا تھا کہ ایک وادی میں گھا س بہ افرا ط دکھائی دی ۔ جا نو ر گھا س چر نے میں لگ گئے ۔ جیو نت ایک در خت تلے سستا نے لگا۔جا نے کب اس کی آنکھ لگ گئی۔ ہمسا یہ گا ؤ ں کا چر واہا کتنے ہی دنو ں سے مو قع کی تا ک میں تھا۔ اس نے جب جیو نت کو سو تے دیکھا تو مو قع غنیمت جا نتے ہو ئے اس کی پا نچ مو ٹی موٹی بھیڑ وں کو ہانک کر لے گیا ۔ جیو نت کی آنکھ کھلی تو اس کو ریو ڑ کمز ور دکھا ئی د یا ۔ مشرق کی طر ف نظر دو ڑا ئی تو 5بھیڑ یں ایک آدمی کے سا تھ جا تی دکھا ئی دیتی ہیں۔جیونت نے آؤ دیکھا نہ تا ؤ اور اس ہمسا یہ گا ؤ ں کے چروا ہے کے پیچھے بھاگ پڑا اور تھوڑی دیر میں ہی اس کے قریب پہنچ گیا۔ دوسرا چروایا بھی تو انا نو جو ان تھا ۔ پہلے تلخ کلا می ، پھر گالم گلوچ اور پھر ہاتھاپا ئی شر وع ہو گی ۔ جیو نت کا مقصد محض اپنے مو یشی لو ٹا نا تھا لیکن طیش میں اس کی لا ٹھی نے اس چروا ہے کا سر پھا ڑ دیا ۔ خو ن ایک فوا رہ اڑا ،آنکھیں پتھر ائیں اور جسم ٹھنڈ اہو گیا ۔ورتا کا اجلا س ہو ا جس میں جیو نت کو 2سال قید اورپھر سزا ئے مو ت دینے کا فیصلہ ہو ا۔ا سارت کی پہلی رات تین روحو ں نے پھٹی آنکھو ں گزا ردی۔ صبح کے وقت شینی کے سنہر ی بال کھچڑی ہو رہے تھے ۔مو ٹی آنکھیں شب بیداری اور بیزا ری کے سبب دہک رہی تھیں ۔ وصا ل کے لمحو ں کے کر ب سے نا آشنا شینی ایک انجا ن قسم کی بے چینی اورذہنی کو فت سے دوچا ر رہی ۔ با پ
کے بھر پو ر مر دانہ پٹھوں وا لابازونما تکیہ نہ ملا تو نیند کیسے آسکتی تھی اور وہ بھی بغیر کچھ کھا ئے پیئے۔ پچھلی را ت شینی حسبِ معمو ل کھا نے کے وقت اپنے روئی جیسے پو پلے ہا تھوں کو دھو کر اپنی جگہ آن بیٹھی ۔ لیکن اپنے سامنے ابو کو غیر مو جو د پا کر کھا نا کھا نے سے انکا ر کر دیا ۔ جب سو نے کا وقت آیا تو ما ں کے سا تھ سو نے پر آما دہ نہ ہو ئی۔ شا نز لے نے تھو ڑی سختی کی تو بلک بلک کر آنسوؤ ں کے دریا رواں کر دیے۔ چا ر ونا چا ر با پ کی خا لی چا ر پا ئی پر ہی لیٹ گئی ۔ آدھی رات تک ما ں بیٹی ایک دوسرے کو نمدار کنکھیو ں سے د یکھتی رہیں ۔ پھر شا نز لے کی آنکھ لگ گئی ۔ خو اب میں اس نے دیکھا کہ جیونت کا لے تو تو ں کی ایک بو ری گھسیٹ کر گھر لا رہا ہے۔ بڑ ی حیر ان ہو ئی کہ یہ کیا ما جر ا ہے۔ اچانک اس کی آنکھ کھلی تو دیکھا کہ شینی ادوائن کے اوپر سر رکھے ٹا نگیں نیچے لٹکا ئے نیم بیداری کے عا لم میں پڑ ی ہو ئی ہے۔ اس کے لبو ں پر مسکر اہٹ جھلک رہی ہے۔ اور اس نے اپنے اسیر بابا کی سرخ سرخ پو ٹلی اٹھا رکھی ہے۔ جس میں جیو نت مو سمی پھل بیر یا ں اور کا لے تو ت لا یا کر تا تھا۔گوشت کی جگہ خون کے دھبے بچے تھے۔
ما ں بیٹی اب ریو ڑ کو خو د چر ایا کر تیں۔ لیکن جا نو روں کی دیکھ بھا ل ان دونو ں کے لیے نا ممکن تھی۔ ایک ایک کرکے جا نو ر بکتے گئے۔ جب سب کچھ ختم ہو گیا تو ورتا کو دوبا رہ اجلا س بلو ا نا پڑا ۔ اجلا س میں اس چھو ٹے سے خا ند ان کے لیے و ظیفہ مقر ر کر دیا گیا جو انتہا ئی محد ود لیکن قو ت لا یموت کے برابر تھا۔
آج صبح سے ٹھنڈ ی ہو ا چل رہی ہے۔ پچھلی را ت مو سلا دھا ر با رش ہو تی رہی ہے۔ مو سم گر م کے ابتد ائی دن ہیں۔ لیکن یہ علا قہ مو سم گر ما کی حدت سے نا آشنا ہے۔ صندل، صنو بر اور دیو دا ر کے درخت سبز کچو ر پتوں کے سا تھ تیز ا ہو ا میں سا ئیں سا ئیں کر تے ہو ئے ایک دو سر ے کے گلے مل رہے ہیں۔ گا ؤ ں سے با ہر ایک پر انی حو یلی ہے جسے وہ لو گ اپنے زبا ن میں گو شۂ انصا ف کہتے ہیں ۔حویلی میں آج بڑ ی چہل پہل ہے۔ کل صبح سو یر ے یا آج را ت کے آخر ی پہر ایک معصو م گڈ ریے کو قتل کر نے پر جیو نت کو پھا نسی پہ چڑھا یا جا نا ہے۔ قبیلے کی روا یا ت کے مطا بق زند گی کی آخر ی را ت جیو نت نے اپنے گھر گزا رنی ہے ۔ اس مقصد کے لیے گا ؤ ں کے 50تو انا نو جو ان اس کے گھر کو را ت بھر حصا ر میں رکھنے کے لیے چن لیئے گئے ہیں۔ گو شہء انصا ف کی صفا ئی جا ری ہے۔ پھا نسی گھا ٹ کا پھند ا لٹکا دیا گیا ہے۔ انصا ف کی فرا ہمی پر سا را گا ؤ ں انتہا ئی پر جو ش ہے۔شا نز لے آج معمو ل سے پہلی اٹھی ہے۔ اس نے اپنے سو سا ل پرا نے گھر کی صفا ئی ستھر ائی شر وع کر دی ہے۔ اس نے اپنے گھنگریا لے با لو ں میں کنو ل کا ایک پھول بھی سجا یا ہو ا ہے۔ آج اس نے سر میں تیل نہیں لگا یا کیو نکہ شا ید کل کنو ل کے پھو ل میں سجی خو شبو دار زلفیں خا ک آلو دہ ہو ں گی۔ شینی کے با ئیں رخصا رپر ہونٹوں کے قریب ڈمپل آج بڑا گہرا ہو گیا ہے۔ وہ صبح سے اپنی سہیلیو ں کو بھا گ بھا گ کر بتا رہی ہے کہ آج میر ابابا وا پس آرہا ہے۔آج سے میں تمہارے ساتھ نہیں کھیلا کروں گی۔ تمہیں پتہ ہے بابا میرے لیئے کالے توت، املوک،لیچیاں اور سیب بھی لائے گا۔ اب میں روز بابا کے پوپلے بازوؤں پر سو یا کر وں گی۔ اب میں 5سا ل کی ہو چکی ہو ں اور بڑی ہو گئی ہو ں۔ اس لیے بابا کے کند ھو ں پر نہیں بیٹھو ں گی تا کہ با باکے کند ھو ں میں دکھن نہ ہو ۔شینی نے آج سفید رنگ کا لبا س پہن رکھا ہے نہا نے کے بعد جسم اور کپڑے کی سفید ی ایک دوسرے کی تکمیل کر رہی ہیں۔پو را دن با دل چھا ئے رہنے کے بعد غر وب آفتا ب سے کچھ پہلے مطلع صاف ہو گیا ہے۔ سو رج آج کی آخر ی کر نیں جیو نت ، جیونت کے گھر اورجیونت کے ننھے سے خاندان کے اوپرڈال رہا ہے۔ یہ جیونت کے جیون کی آخری روشنی ہے۔ جیونت سورج ڈھلنے سے کچھ پہلے اپنے پر سکو ن گھر میں ابھی ابھی دا خل ہوا ہے ۔اس کی آنکھیں سب کچھ دیکھنے کے با و جو د بے نو ر ہیں۔ سفید کپا س کا پھو ل اس کے سینے سے لگا ہو اہے لیکن جیو نت کا جسم پتھر کی طر ح بے حس اور آنکھیں نمکین پا نی سے لبر یز ہیں ۔شاید اسی نمکین پہا ڑنے شانز لے کے بت کو بھی ماند کر دیا ہے جو سامنے ہی کھڑا ہے۔ اچھا ہی ہو ا ور نہ شا نزلے کے آنسو ؤ ں کو دیکھ کر جا نے جیو نت پر کیا گز رتی ۔
شا نز لے نے جیو نت کے لیے اس کے پسندید ہ کھا نے دال ما ش اور آلو ؤں کا بھر تہ بنا یا ہے۔آج کی اس آخری دعوت کویادگار بنانے کے لیئے شانزلے نے ایک ہمسا ئے کے بچے کے ہا تھوں سیا ہ تو ت بھی منگو ا لیئے ہیں۔ شا نز لے بیک وقت ہجر و فرا ق کے جذبا ت کی رو میں بہی چلی جا رہی ہے ۔زبا نیں گنگ، آنکھیں نم اور جذ با ت سر د ہو چکے ہیں۔ لیکن تھو ڑی دیر بعد سب کچھ قدرے نا رمل ہو جا تا ہے۔ اتنا وقت نہیں کہ شا نز لے دو سا لو ں کے دکھ بتا ئے۔ وقت اتنا بھی نہیں کہ عہد و پیمان کا جو ڑ تو ڑکیا جا ئے ۔
دعو ت شیرا ز شر وع ہو چکی ہے۔ شینی بابا کے ہا تھو ں چھوٹے چھوٹے نوا لے کھا رہی ہے ۔اب کے شینی کے کھانے کی رفتا ر تیز ہے اور جیو نت کی بہت آہستہ ۔شینی کھانا بھی کھا تی جا رہی ہے اور صدیو ں کے بچھڑ ے بابا سے با تیں بھی ۔
با با کھا نا کتنا اچھا ہے۔ بابا ما ں نے تیر ے بعد یہ کھا نا کبھی نہیں بنا یا تھا ۔میں کہتی بھی تھی لیکن پھر بھی ماں نہیں بنا کر دیتی تھی۔ آج بابا تم آئے ہو تب ہی مجھے یہ چیز یں ملی ہیں۔ با با اب تو تم ہمیں چھو ڑ کر نہیں جا ؤ گے نا؟
بابا تمہیں پتہ ہے کہ ہم را ت کو اکیلے کتنے ڈرتے تھے ۔بابا تو کتنا گندہ ہے کہ ہم دونوں کو اکیلا چھوڑ گیا۔ بابا مجھے تکیے پر نیند نہیں آتی تھی ۔ میں تمھا رے مو ٹے با زو کے بغیر سو ہی نہیں سکتی تھی۔ امی سے پو چھ لو میں نے ایک را ت بھی تیر ی چا رپا ئی کے کے بغیر نہیں گز اری ۔
جی جی شینو مجھے پتہ ہے مجھے پتہ ہے اب چپ کر جا ؤ، جیونت نے شرمندگی اور غم کے بوجھ تلے بڑی مشکل سے چند الفاظ اپنے منہ سے نکالے۔
نہیں بابا میں چپ نہیں ہو ں گی۔میں چپ ہو گئی تو تم پھر چلے جا ؤ گے ۔با با میں تمھا رے با لو ں میں ما لش کر تی ہو ں ۔ تمھی مجا آئے گا تو تم ہمیں چھو ڑ کر نہیں جا ؤ گے ۔ نہیں پہلے میں تمھا رے پا ؤ ں دبا ئی ہو ں ۔ تم پتہ نہیں کتنی دور سے چل کر آرہے ہو گے۔
شا نز لے کے با لو ں میں کنو ل مر جھا رہا ہے۔ لیکن اس کی انا ر نما رنگت پہلے کی طر ح دمک رہی ہے ۔ ہو لے ہو لے آتی جاتی سا نس پیتل کی سر خ نگ وا لی نتھلی کو آہستہ آہستہ متحرک کر رہی ہے۔
جیو نت چشمِ تصور میں اگلے دن کا منظر دیکھ رہا ہے جب گھنگریالے با لو ں میں کنو ل کے پھو ل کی جگہ را کھ ہو گی ۔ انا ر کا رس نچڑ چکا ہو گا ۔ نتھلی گھر کے کسی گمنا م گو شے میں پھینک دی جا ئے گی۔ شا یدتنے زور سے پھینکی جائے گی کہ اس کا سرخ نگ بھی ریزہ ریزہ ہو جائے گا۔
رات آہستہ آہستہ گہر ی ہو تی جا رہی ہے۔ جیو نت کے ہا تھو ں شینی کا لے تو ت کھا تے کھا تے ایک عجیب طمانیت ، آسو دگی اور احسا س تحفظ کو محسوس کر تے ہو ئے اونگھنے لگ گئی ہے ۔ با پ نے اچا نک اس کے ڈ مپل پر اس زور سے چکی کا ٹی ہے کہ وہ خو ف اور تکلیف میں ہڑ بڑا کر اٹھ بیٹھی ہے۔لیکن بابا کو دیکھ کر تکلیف کے باوجود مسکراہٹ شینی کے لبوں پر بکھر گئی ہے۔ جیو نت نہیں چاہتا کہ شینی جلد سو جا ئے ۔جلد سو نے کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ صبح سو یر ے اٹھ جا ئے گی۔جیو نت کی خو اہش ہے کہ مجھے پھانسی کے لیے جب نکالا جا ئے تو شینی گہر ی نیند سو رہی ہو۔ اس کی بیداری میں تو جیو نت دو ہر ی سزا ئے مو ت کی تکلیف سے گز رے گا۔
''بابا سو نے دو نا۔۔۔۔۔ گد گد ی کیو ں کر تے ہو اتنی مدت بعد مجھے گہر ی نیند آرہی ہے ''۔
''نہیں شینوتم نے آج نہیں سونا''۔ جیو نت بو لا۔'' کیا میر ے سا تھ کر نے والی با تیں ختم ہو گیءں'' ؟
''نہیں بابا با تیں صبح کر یں گے ۔ تمھا رے مو ٹے با زو پر مجھے بہت نیند آرہی ہے''۔۔۔۔۔ اور شینی سو گئی۔۔۔۔۔
اب کی شا نز لے کی با ری تھی ۔بیوی بیچاریوں کی باریاں ہمیشہ بچوں کے سو جانے کے بعد ہی آتی ہیں۔شا نز لے اب چپ نہیں تھی۔ شا نز لے کی زبا ن، آنکھیں ، ہا تھ، زلفیں ۔۔۔۔۔۔ ایک ایک عضو بو ل رہا تھا ۔ آج شا نز لے کو جیو نت سے کچھ نہیں لینا تھا۔ آج شا نز لے نے جیو نت کو کچھ نہیں دینا تھا۔سودا بازی کا زمانہ ختم ہو چکا تھا۔ نشۂ عشق کاظر ف چند گھنٹو ں کے پیما نے میں کیسے بھر اجا سکتا تھا۔ تا رہ صبح نمو دار ہو نے کو ہے۔ایک ہجوم کے دور سے آنے کی آواز سنائی دے رہی ہے۔ آج انصا ف زند ہ ہو رہا ہے، یہ انصا ف کی صبح ہے، یہ روشنی کا آغاز ہے۔جیونت چیخ کر کہتا ہے دوستو شور نہ مچاؤ میری بیٹی جاگ جائے گی،میں اس کے سامنے گھر سے نہیں نکلنا چاہتا۔
شا نز لے بھا گتی ہو ئی دروا زے پر جا تی ہے۔ کنڈ ی پر دنو ں ہا تھ مضبو طی سے رکھ کر اپنی خو بصو ت پیشانی بھی اس پر ٹکا دی ہے ۔ شا نز لے کو ا تنی طا قت جا نے کہا ں سے مل گئی کہ پو رے گا ؤ ں کا را ستہ اس نے روک لیا ہے۔ چیخیں بڑ ھتی جا رہی ہیں۔ شا نز لے کے کندھوں کو کو ئی پیا رسے جھنجھوڑ رہا ہے ۔'' شا نز لے ہٹ جا۔۔۔ مسا فر کو نکلنا ہے ۔۔۔۔ کنڈی کھو ل دے ''۔۔۔۔ شانزلے کی سا ری طا قت اچا نک ہو اہو جا تی ہے۔
''یہ کیا؟ شا نز ی میر ی قد مو ں میں کیو ں گر گئی ہو؟ سجد ے تو مجھے کر نے چا ہیں ۔۔۔۔ معا فیا ں تو مجھے ما نگنی چا ہئیں''۔۔۔۔۔ جیونت اپنی بیوہ کے گھنگریالے بالوں کے گھونگر ہموار کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے بولتا جا رہا ہے۔
''شانزی میری شینو کا خیال رکھنا۔۔۔۔۔اس کو کالے توت کھلاتی رہنا۔۔۔۔۔شینو نے کبھی کالے توتوں کے علاوہ مجھ سے کچھ فرمائش نہیں کی تھی۔ وہ تم سے بھی کچھ نہیں مانگے گی۔ہماری بیٹی بڑی صابراور شاکر ہے۔ وہ میری غیر موجودگی کو بھی کچھ عرصے بعد فراموش کر دے گی۔ ۔۔۔اب تووہ مجھ سے الگ اور میرے بغیر سونے کی عادی ہو چکی ہے۔ اب تم کو میرے بعد کوئی خاص تکلیف نہیں ہو گی''۔
شانزلے ''ناں'' کہنا چاہتی تھی لیکن زباں ساتھ نہیں دے رہی تھی۔وہ بت بنی چوکھٹ اور جیونت کے قدموں کے بیچ حائل تھی۔لگتا تھا کہ اس گوشت پوست کی پوٹلی میں نہ جند ہے نہ جان۔اس گوشت کی پوٹلی میں سے سرخ سرخ خون یوں ٹپک رہا تھاجیسے گوتم بدھ کے مجسمے کی آنکھوں سے آنسو ٹپ ٹپ نکل رہے ہوں۔
''شانزی تو عظیم عورت تھی۔ تو نے ایک عظیم عورت بن کر دکھانا ہے۔ تو عمر قید کی اذیت بھگتو گی۔ میں سزائے موت پا کر آزاد ہو جاؤں گا۔ عمر قید کی سزا موت کی سزا سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے''۔ جانے جیونت کو اس مرحلے پر کہاں سے قوتِ گویائی مِل گئی تھی جب بڑے بڑے جواں مردوں کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔
''شانزی میں نے زندگی بھر تم پر کئی احکامات جاری کئے۔جِن کی تم نے ایک فرمانبردار غلام کی طرح بجا آوری کی۔تو میری یہ آخری بات بھی مان لے۔ یہ میرا حکم نہیں ہے، ایک درخواست ہے، التجا ہے، عذر ہے۔۔۔۔۔۔۔تم میرے بعد کسی اورسے شادی کر لینا''۔۔۔۔۔
زمین پر پڑے بت میں لرزاہٹ ہوتی ہے اور وہ آن کی آن میں تن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔بت بولنے لگا ہے۔
''او ہماری روایات کے منکر۔۔۔۔۔کچھ تو باقی رہنے دے۔۔۔۔میرا مان ہی سہی۔۔۔۔۔میں سپنوں میں زندگی گزار لوں گی۔۔۔۔۔۔ یادوں میں رہ لوں گی لیکن جیونت کی بجائے کسی اور کو اپنا جیون ساتھی نہیں بناؤں گی۔۔۔۔تو میرے جزبوں کو تو نہ کچل۔۔۔۔تو جانتا ہے نا میں پہاڑی علاقے کی عورت ہوں۔ ہم پہاڑی عورتیں صرف ایک مرد کے لیئے پیدا ہوتی ہیں۔ ۔۔۔ایک مرد یا پھر موت۔۔۔۔ یا یادیں۔۔۔۔ کوئی چوتھا راستہ نہیں۔ جیونت کیا تو اندھا ہو گیا ہے؟ اور سنبل کے نیچے پڑی ہوئی راکھ کی ڈھیری تمہیں دکھائی نہیں دے رہی؟یہ راکھ بیوگی کا زیور ہے۔۔۔۔میں نے اس راکھ کے سہارے زندگی گزارنی ہے۔ آج کے بعد یہی راکھ میرا غازہ بنے گی۔۔۔۔۔ میری مانگ میں پڑے گی۔۔۔۔۔''
دروازہ کھل چکا ہے۔ جیونت شرمندگی کے ساتھ اپنے گھر کی دہلیز کو عبور کر رہا ہے۔ لگتا ہے مرد گھر میں رہ گیا ہو اور عورت کو ہجوم نے جکڑ لیا ہو۔نسوانیت کی چادر تانے جیونت سر نیوڑھائے جلوس کے ساتھ ساتھ چلا جا رہا ہے۔
شفق کو پو پھٹ رہی ہے۔ سبک رفتار بادِصباایک نئے دن کا اعلان کر رہی ہے۔مطلع صاف ہے اور دھلا دھلا لگ رہا ہے۔ہجوم آخری حدِنگاہ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ گاؤں کے جنوبی علاقے کی پتھریلی گلی خاموش ہے۔ اس گلی کے چوتھے مکان کی چک اٹھی ہوئی ہے۔ ایک سرخ چہرہ دور جاتے ہوئے ریوڑ کو دیکھ رہا ہے۔