کالے بھوتوں کا بسیرا۔۔۔۔
غروب آفتاب کے ساتھ ہی کالی رات کے دہشت ناک سائے بستی کے گلی کو چوں میں سنسناہٹ کے بین بجانا شروع کر دیتے تھے۔ بین کی خوفناک چیخوں نے بستی کو شبِ عاشورہ میں تبدیل کیا تھا اور برسوں سے چھائے ہوئے خو ف و دہشت کے ان پر اسرار سیاہ سایوں نے بستی کو کالے بھوتوں کا بسیرا بنا ئے رکھا تھا ۔ بستی کے بے بس مکین اپنی خوف زدہ نئی نسل کو ان کالے بھوتوں کے خونین پنجوں سے بچائے رکھنے کے جتنے بھی گُر آزمالیتے وہ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی اس وقت سراب ثابت ہوجاتے جب کسی اور بچے کے غائب ہونے کی منحوس خبر گھر گھر پھیل جاتی ۔ لوگوں کے ذہنوں میں انتشار کی رو تیز ہو رہی تھی کہ رات کے سیاہ سایوں میں کونسے غیبی ہاتھ ان کی معصوم نسل کو اُن سے چھین لیتے ہیں ۔
اُس دن….. طلوعِ آفتاب کے ساتھ ساتھ ….. موبائل پر شمشیر دیوانہ کو مبارک بادی کے پیغامات آنے شروع ہو گئے۔ ہر پیغام پر شمشیر دیوانہ خوشی سے جھوم اٹھتا کیونکہ پچھلے چند برسوں سے امن دشمن ، عوام دشمن اور دیش دشمن عناصر کا خاتمہ کرتے ہوئے اُس نے جو بہادرانہ،ایماندارانہ اور منصفانہ کارکردگی دکھائی تھی۔ اُس کے اعتراف میں سرکار نے انھیں فرض شناس پولیس آفیسر قرار دیکر’’ستارۂ امن ‘‘کے میڈل سے نوازنے کا فیصلہ کیا تھا ۔
کریم چاچا …..شمشیر دیوانہ کا پرانا گھریلو خدمت گار…..بچپن سے ہی اس گھر میں ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ اپنا فرض نبھاتے ہوئے اب بڑھاپے کی سرحدپر کھڑا تھا ۔ وہ مالک کی ترقی پر گھر میں آئے ہوئے مہمانوں کی خاطر تواضح کرنے میں فخر محسوس کر رہا تھا ۔’’یومِ امن ‘‘کی تقریب شروع ہونے والی تھی اور شمشیر دیوانہ کو اس تقریب میں اعزازی میڈل ملنے والا تھا۔ وہ تقریب میں جانے کے لئے تیار ہو رہا تھا ۔ کریم چاچا نے اُسے اپنے گمشدہ بیٹے کی یاد پھر دلائی ۔ کریم چاچا کے بڑھاپے کا سہارا کچھ دنوں سے غائب تھا اور اُس کی امیدیں اپنے آقا اور نامور پولیس آفیسر سے وآبستہ تھیں ۔
’’نئے عہدے کا چارج سنبھالتے ہی میں اُسے تلاش کرونگا‘‘ شمشیر دیوانہ نے مسکراتے ہوئے کریم چاچا کو دلاسہ دیا۔ ’’ اس وقت تم اسپتال چلے جاؤ۔ ڈاکٹر کہہ رہا تھا کہ منّا کی حالت بگڑ رہی ہے ۔ ‘‘
کریم چاچا اپنے گمشدہ بیٹے کا غم بھول کر مالک کے بیٹے کی دیکھ بھال کے لئے اسپتال کی طرف روانہ ہو گیا ۔
شمشیر دیوانہ جب اپنے محل نما حویلی سے نکل کر لان کی طرف بڑھنے لگا تو گاؤں کے لوگ قطار میں کھڑے ہو کر اس کے استقبال میں کھڑے تھے ۔ مبارک،مبارک کی صدائیں ہر طرف سے آرہی تھیں اور وہ شکریہ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا ۔گاؤں کے بزرگ اُس کی طرف آس بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور گمشدہ بچوں کی مائیں آبدیدہ نگاہوں سے امید کا دامن پھیلا رہی تھیں۔لوگوں کے غمزدہ چہروں کو دیکھ کروہ ہمدردانہ لہجے میں انہیں دلاسہ دیتے ہوئے کہنے لگا:
’’ آپ کے بچے مجھے اپنے بچے جیسے ہیں۔ ‘‘ شمشیر دیوانہ نے ہمدردانہ لہجے میں ان سے کہا .
’’ میں سرکار سے خصوصی اختیارات حاصل کر کے انہیں ڈھونڈنے کی کوشش کروں گا۔‘‘
شمشیر دیوانہ سرکاری گاڑی میں سوار ہو کر تقریب کی جانب روانہ ہوا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کی درجن بھر سفید و سبز رنگ گاڑیاں سائرن بجاتے ہوئے قافلے کی صورت میں اُس کے ساتھ دوڑ رہی تھیں ۔ شمشیر دیوانہ اسپیشل فورس کا آفیسر تھا ۔اس کو جس جگہ کا بھی چارج دیا جاتا تو وہ اپنا فرض اس سلیقے سے انجام دیتا تھا کہ ڈیپارٹمنٹ میں وہ انکاونٹرماسٹر کے نام سے مشہور ہو گیا تھا اور وہاں پر کسی انسان کو لا اینڈ آڈر کے بارے میں سوچنے کی ضرورت ہی نہ رہ جاتی تھی۔
تقریب شروع ہونے کے ساتھ ہی شمشیر دیوانہ کو اسٹیج پر بلایا گیا ۔وہ بڑے فخر کے ساتھ اپنی نشست پر بیٹھ گیا ۔ جلسہ گاہ میں لوگوں کی کافی تعداد موجود تھی۔ پولیس آفیسرز اور سیاست دان اپنے اپنے مخصوص انداز میں شمشیر دیوانہ اور دوسرے پولیس آفیسرز کی فرض شناسی، امن دوستی اور وطن پرستی کی داستانیں بڑھا چڑھا کر سُنا رہے تھے۔ تقریب کے آخر پر شمشیر دیوانہ کو ڈائس پر بلایا گیا ۔ وہ تالیوں کی گونج میں جذباتی اندازسے تقریر کرنے لگا :
’’کچھ شر پسند اور دیش دشمن عناصر اپنے حقیر مفادات کی خاطر ہمارے معصوم اور بے گناہ
نوجوانوں کو دہشت گردی کے جال میں پھنساتے ہیں اور ان کی معصو م زندگیوں سے کھیلتے ہیں
جس کا عذاب سارے ملک کو جھیلنا پڑتا ہے۔آپ لوگ ہمارے محکمے پرپورا بھروسہ رکھیں وہ
سب بے ضمیر درندے اور انسانیت کے دشمن جلد ہی بے نقاب ہو جاینگے اور یہاں پھر سے
امن وامان بحال ہوگا۔‘‘
تقریر ختم کرنے کے بعدشمشیر دیوانہ کو "ستارۂ امن "سے نوازنے کی تیاری ہو رہی تھی ۔ اچانک میڈیا کی ایک گاڑی جلسہ گاہ میں نمودار ہوگئی اور اسٹیج کے سامنے رک گئی۔میڈیا کے افراد ایک زخمی نوجوان کو سہارا دیتے ہوئے اسٹیج پر چڑھ گئے ۔ نوجوان کے لباس پر خون کے دھبے تھے۔سبھی لوگ اس غیر متوقع صور ت حال سے حیران ہوگئے اور جلسہ گاہ پر سناٹاسا چھا گیا۔ خاموش سمندر میں سونامی کی لہریں اٹھنے لگیں ۔ لہروں نے کالے بھوتوں کے بسیر ے کواپنی لپیٹ میں لے لیا ۔ غیبی ہاتھوں پررعشہ طاری ہوگیا۔شمشیر دیوانہ کے چہرے پر خوف کی ہوائیں اڑنے لگیں ۔خوف اور حیرانی کاچکرویو گشت کرنے لگا۔یہ غیر متوقع حادثہ دیکھ کر وہ حواس باختہ ہوگیا اور اس کے منہ سے بے ساختہ نکل پڑا :
’’کریم چاچا کابیٹا۔۔۔۔زندہ۔۔۔۔؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وڈی پورہ ہندارہ کشمیر..193221 [email protected]
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔