شیخ امام بخش ناسخؔ (1838 – 1772) فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے لکھنؤ کو جائے مسکن قرار دیا اور اردو زبان و ادب کی ایسی خدمت انجام دی جوتاریخ میں اپنی مثال آپ ہے ۔انھوں نے اردو شاعری کو اپنی کاوشوں سے انتہائی بلندیاں عطا کیں جس وجہ سے اہلِ زبان و ادب ان سے بہت متاثر ہوئے اور ان کی پیروی میں مشقِ سخن کرنے لگے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاح زبان ہے۔ لکھنؤیت سے شاعری کا جو خاص رنگ مراد ہے اور جس کا سب سے اہم عنصر خیال بندی کہلاتا ہے، وہ ناسخؔ اور ان کے شاگردوں کی کوشش کا نتیجہ ہے۔
دورِ حاضر سائنس اور ٹیکنالوجی کا دور ہے۔اور ہم ہر لمحہ نئی نئی ایجادات اور انکشافات سے آشنا ہو رہے ہیںاس لئے کہیں نہ کہیں اس کا اثر ہمارے ادب پر بھی پڑ رہا۔آنے والی نسلیں سائنسی فکر لے کے آگے بڑھ رہی اس لئے ہر چیز کو سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرتی ہیں۔آج کی نسل ہی اپنے دور کے ادب یا معاشرے کو سائنسی زاوئے سے نہیں دیکھتی بلکہ اُس کے مطالعہ میں اگر کوئی کلاسیکی شاعر بھی ہو تو وہ اس میں سائنس تلاشنے کی کوشش کرتی ہے۔یہ مضمون بھی اسی نوعیت کا ہے جس میں ناسخؔ لکھنوی کے کلام کو سائنسی نظریات کی روشنی میں پرکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
فوڈ چین مختلف قسم کے حیاتیات (Organisms)ہے جس کے ذریعہ کھانے کی توانائی (Food Energy)ایک ماحولیاتی نظام (Ecosystem)میں بہتی ہے۔دراصل یہ ایک غذائی چین ہے جس کی غذائی توانائی ایک ذی حیات سے دوسرے ذی حیات تک منتقل ہوتی ہے اس طرح ایک نظام قائم رہتا ہے۔اگر یہ نظام قائم نہ ہو تو غذائی توانائی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل نہیں ہوگی اور زندگی کا نظام بھی قائم نہیں رہے گا۔جب سے اس دینا میں زندگی نے قدم رکھا ہے تب سے یہ نظام قائم و دائم ہے۔اس نظام کی ابتداء ہرے پیڑ پودوں سے ہوتی ہے جو سورج کی روشنی میںاپنا کھانا خود تیار کرتے ہیں۔ان ہرے پیڑ پودوں کو سبزی خور جانور مثلاً جراف،ہرن،بکری ،بھینس وغیرہ خوراک کے طور پر کھاتے ہیںاور اپنی غذائی توانائی حاصل کرتے ہیں ۔اسی طرح ان سبزی خور جانوروں کو گوشت خور جانور بطور خوراک استعمال کرتے ہیںاس طرح غذائی توانائی کا نظام چلتا رہتا ہے۔غذائی توانائی کی مختلف چین ہیں جو ایک دوسرے سے آپس میں منسلک رہتی ہیں۔لیکن ان سب کی شروعات ہرے پیڑ پودوں سے ہی ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ایک مختصر فوڈ چین دیکھیں:
’’ہرے پودے اورگھاس کو ٹڈّا کھاتا ہے،ٹڈّے کو میڈک کھاتا ہے،میڈک کو سانپ کھاتا ہے،سانپ کو مور کھاتا ہے۔اس طرح یہ نظام اس وقت سے قائم ہے جس وقت سے زندگی کا وجود عمل میں آیا ہے یعنی مور اورسانپ کی یہ دشمنی ازل سے قائم ہے۔
جب ہم ناسخ ؔ کی ایک غزل کا شعر اس سائنسی عمل پر کھتے ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے ناسخؔ طاؤس و مار کو بطور تلمیح ہی نہیںبلکہ سائنسی اصولوں کے مطابق بھی قلم بند کر رہے ہیں:
؎ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں
دل پُر داغ کو کیوں کر ہے عشق اُس مارِ پیچاں کا؟
’’ازل سے دشمنی طاؤس و مار آپس میں رکھتے ہیں‘‘ اس مصرع سے فوڈ چین اورحیاتیاتی نظام کی اس سائنسی عمل کی ترجمانی ہوتی ہے جس کے سبب کھانے کی توانائی(Food Energy) ماحولیاتی نظام میںبہتی ہے۔
ہمارا جسم مختلف قسم کے عناصر(Elements) اور مرکبات(Compounds) کے سبب بنا ہے۔اب تک 118 عناصر کی دریافت ہو چکی ہے۔تمام عناصر میں تین چوتھائی حصّہ دھاتیں اور ایک چوتھائی ادھاتیں ہیں۔ہماری صحت کی حفاظت اورزندگی کے لئے بھی یہ بہت اہم ہیں۔انسانی جسم میں99% عناصر جو بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں ان میں’’آکسیجن،کاربن،ہائیڈروجن،نائڑوجن،کیلشیم اور فاسفورس‘‘قابلِ ذکر ہیں۔اس کے علاوہ ’’پوٹاشیم،گندھک،سوڈیم،میگنیشیم،تانبے،زنک،سیلینیم،مولبڈینم،فلورین،کلورین،آئیوڈین،مینگیج
(Manganese) کوبالٹ،آئرن ‘‘جیسے عناصر بھی ہمارے انسانی جسم میں موجود ہوتے ہیں جو اس کی نشونمامیں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جو عناصر ہمارے جسم میں پائے جاتے ہیں وہ کم و بیش مٹّی میں بھی موجود ہوتے ہیں۔چاہے وہ صحرا کی مٹّی ہو یا گلستاں کی خاک ۔جس طرح گلستاںمیں پیڑ پودے اور ہریالی اگتی ہے اسی طرح ہمارے جسم پر بھی بال رونما ہوتی ہیںاور جس طرح گلستاں کی خاک میںنشیب و فراز پائے جاتے ہیں اسی طرح ہمارے جسم کی بناوٹ میں بھی نشیب و فراز موجود ہیں۔بظاہر ایسا کہا جاسکتا ہے کہ ہمارا جسم گلستاں کی خاک سے بنا ہے۔ناسخؔ اپنی غزل کے ایک شعر میں اس بات کی طرف ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیںاور استفہامیہ انداز میں کہتے ہیںکیا ہمارا جسم خاکِ گلستاں سے بنا ہے؟
؎ شگفتہ مثلِ گُل،ہر فصلِ گل میںداغ ہوتے ہیں
بنا ہے کیا ہمارا کالبد خاکِ گلستاں کا؟
بلیک ہولز ایسے اجسام ہیں جنہیں ہم دیکھ نہیں پاتے۔ یہ عظیم الشان کمیت والے ایسے مردہ ستاروں کی باقیات ہیں جو اربوں سال کی زندگی گزار کر اپنے آپ میں منہدم ہو چکے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ ایک ستارہ جو گرم گیسوں کا ایک مجموعہ ہے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ختم ہونے کی طرف بڑھتا ہے۔ اس پر موجود گیسیں جل کر ختم ہو جاتی ہیں اور اس کا جسم اپنے مرکز کی طرف شدید کشش ثقل کے باعث سکڑنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ ہزاروں میل کا قطر سکڑ کر ایک مٹر کے دانے جتنا ہو جائے۔ پھر ایک دن سارا ستارہ ایک نقطے میں آ کر فنا ہو جاتا ہے۔ بلیک ہولز کی اس لامحدود کثافت کی وجہ سے ان کی کشش ثقل ناقابل بیان حد تک بڑھ جاتی ہے،کہ وہ روشنی کو بھی اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ بلیک ہولز کا مشاہدہ بھی اس باعث ممکن ہے۔ آپ کسی بلیک ہول کو یوں تو نہیں دیکھ سکتے لیکن دور دراز ستاروں سے آنے والی روشنی کا تغیر آپ کو یہ بتاتا ہے کہ اس کے راستے میں ایک بلیک ہول ہے۔ پھر مختلف تغیرات کا مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ بلیک ہول کتنا وسیع ہے۔آئن اسٹائن کے خیال میں بلیک ہول کے قریب سے گزرنے والی ہر شے کو بلیک ہول ہڑپ کر جاتا ہے اور اس کی اندرونی کشش اتنی زیادہ ہے کہ روشنی بھی اس سے باہر نہیں آ سکتی۔ ہاکنگز نے بالآخر آئن ا سٹائن کے نظریات کو کوانٹم فزکس کے ساتھ رکھ کر دنیا کو یہ بتایا کہ بلیک ہول اتنے بھی سیاہ نہیں جتنا ہم انہیں سمجھتے ہیں۔ کوانٹم آلانیات کی رو سے توانائی قلیل مقدار میں اور ناقابل یقین حد تک چھوٹے جوہری ریزوں کی شکل میں بلیک ہول سے فرار اختیار کر لیتی ہے۔جس سے بلیک ہول کے بارے میں پتا چلتاہے۔سائنس دانوں کے مطابق اگر بلیک ہول اپنی جانب بڑھنے والے کسی گیس کے بڑے بادل کو ہڑپ کر لیتا ہے تو اس موقع پر آتش بازی جیسا سماںپیدا ہو گا۔ کیونکہ ان گیسوں میں ستاروں کی موجودگی بھی ہو سکتی ہے۔حال ہی میںایک تحقیق کے مطابق گیس کاایک بادل جس کو جی ٹو کا نام دیا گیا ہے اور اس کی کمیت زمین سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسے پہلی باہر 2011 میں ہماری کہکشاں میں واقع سیجی ٹیریئس اے بلیک ہول کی جانب بڑھتے دیکھا گیا تھا۔ اگر گیس کا یہ بادل بلیک ہول کے قریب پہنچتا ہے تو یہ اتنا گرم ہو جائے گا کہ اس سے ایکس ریز خارج ہوں گی جو بلیک ہول کی خصوصیات پر روشنی ڈالنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔
ناسخؔ اپنے ایک شعر میں’’سیہ خانہ‘‘ کا ذکر کرتے ہیں اگر اس ’’سیہ خانہ‘‘ سے مراد بلیک ہول لے لیا جائے تو ناسخؔ کا یہ شعر بلیک ہول کے کے نظر آنے اور اس کے بننے کے سائنسی نظریات پر کھرا اترتا ہوا نظر آتا ہے:
؎ سِیہ خانہ مرا روشن ہوا ویران ہونے سے
کیا دیوار کے رخنوں نے یاں عالم چراغاں کا
گویا ناسخؔ ’’سیہ خانہ ‘‘ کہہ کر بلیک ہول کی طرف اشارہ کررہے ہیںاور بتا رہے ہیں کہ کس طرح ہماری کائنات میں موجود بلیک ہول جن کو مردہ اور ویران تصور کیا جاتا ہے وہاں بھی روشنی کے امکانات پائے جاتے ہیں ۔کیوں کہ جب اس کے پاس سے روشنی گزرتی ہے یا گیس کا کوئی بڑا بادل گزرتا ہے تو وہاں بھی آتش بازی کا سا سماع پیدا ہو جاتا ہے جیسے سارے عالم میں چراغاں کردیا گیاہو۔اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ بلیک ہول نہیں بلکہ ایک سیاہ خانہ ہے اور یہ روشنی اس میں دیوار کے رخنوں سے داخل ہو رہی ہے۔
پیڑ پودوں میں جڑیں،تنے،شاخیں اور پتیاں ہوتی ہیں۔پتیاں پیڑ پودوں کے لئے غذا بناتی ہیں۔پانی اور معدنیات جو مٹی میں موجود ہوتا ہے اس کو جڑیں جذب کرکے پتیوں تک پہنچاتی ہیں۔ہری پتیوں میں کلوروفل پایا جاتا ہے ان کی سطح پر مسام یا سوراخ ہوتے ہیں ان کے ذریعے سے پتیاں ہوا میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرتی ہیں اور سورج کی روشنی کی مدد سے کاربوہائیڈریڈ بناتی ہیں اور آکسیجن باہر چھوڑتی ہیں۔اس عمل کو تالیفِ ضیائی(Photo Synthesis)کا عمل کہتے ہیں۔اس طرح پتیوں کے ذریعے بنایا گیا کاربوہائیڈریڈ پودوں کے دیگر حصوں میں پھیل جاتا ہے اس طرح پودوں میں تغذیہ کا عمل قائم رہتا ہے۔اس کے سبب ہی پودوں میں نشونما کا ایک سلسلہ شروع ہوتا ہے۔پودوں میں پھول لگتے ہیں ،پھل آتے ہیں۔ہم پھل کھاتے ہیں اور گھٹلی (Seed) پھینک دیتے ہیں جس سے بیج پھوٹ آتے ہیں اور نئے پودے بن جاتے ہیں۔پھر تناور درخت بن جاتے ہیں جس میں پھول لگتے ہیں پھر یہی پھول پھل میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔موسمِ بہار میں آم کے پیڑوں میں پھول لگتے ہیں دراصل یہ وہی پھول ہوتے ہیں جن سے ہمیں گرمیوں میں آم کھانے کو ملتے ہیں۔اگر پودوں میںتالیفِ ضیائی(Photo Synthesis)کا عمل نہ ہو تو پھل بننے کا یہ نظام درہم برہم ہو جائے گا۔نہ پودے کی نشونما ہوگی،نہ اس میں تغذیاتی عمل قائم ہوگا،نہ اس میں تولید (Reproduction) کا سلسلہ جاری رہے گا ،نہ پودا تناور درخت بنے گا،نہ اس میںپھول لگے گے اور نہ اس میں پھل لگ سکیںگے۔ناسخؔ اپنے ایک شعر میںاسی عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں:
؎ جو دل ہی ٹوٹ گیا،کیا ہو شعرِ تر پیدا
ہوئے ہیں شاخِ شکستہ سے کب ثمر پیدا؟
’’ہوئے ہیں شاخِ شکستہ سے کب ثمر پیدا؟‘‘ ناسخؔ کی غزل کا یہ مصرع نہایت گہرائی اور گیرائی کا متحمل ہے۔ ناسخؔ کا یہ مصرع کس طرح اور کب ثمر پیدا ہوتا ہے اور شکستہ شاخ سے ثمر کیوں نہیں پیدا ہو سکتا اس بات پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ یہی غور و فکر سائنس کی راہوں کو ہم وار کرتی ہے کیوں کہ سائنس کو سوالات کے ذریعے ہی سیکھا جاسکتا ہے۔جب تک ذہن میں سوالات نہیں آتے تب تک سائنسی فکر پیدا نہیں ہو سکتی ہے۔
زمین پر مختلف قسموں کے جانداروں کی ارتقاء (Evolution) اور بقا (Survival) کے لئے مناسب حالات پائے جاتے ہیں۔زمین کا درجہ حرارت نہ زیادہ گرم ہے اور نہ زیادہ سرد جتنا کہ زہرہ اور عطارد پر اور مشتری اور دوسرے سیّاروں پر ہے۔زمین کے علاوہ دوسرے کسی سیارے پر حیات کے امکانات نہیں ملتے ہیں۔کیوںکہ وہاں پر نہ تو پانی ہے اور نہ ہی ہوا کا وجود ہے۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ انسان اپنے مفاد کی خاطراس قدرتی ماحول کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔انسانی اعمال کے نتیجہ میں ہزاروں سال سے مخلوقات کی پرورش کرنے والی یہ زمین آج بربادی کی راہ پر گامزن ہے۔اس زمین کی پرتیں ڈھیلی ہوتی جارہی ہیں،مٹّی کی زرخیزی ختم ہوتی جارہی ہے، ہوائیں لطیف سے کثیف ہوتی جارہی ہیں،دریا اور سمندر کاپانی آلودہ ہوتا جا رہا ہے،بہت سے پرندے،جانور اور نباتات کا وجود ختم ہوتا جارہا ہے۔ماحولیات کے عناصر میںبڑی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔کرۂ جمادات،کرۂ آب،کرۂ باداورکرۂ حیات آلودہ ہو چکے ہیں۔کرۂ باد میںشگاف ہو چکا ہے جس کے سبب سورج کی مضر کرنیں زمین تک آرہی ہیں اور زمین کے درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
ماہرینِ فلکیات کے مطابق کائنات کا وجود ایک بڑے دھماکے(Big Bang)کے بعد وجود میں آیا۔دھماکے کے بعد ایک زور دار ہلچل ہوئی اور خلاء میں دور دور تک ملبہ پھیل گیا جس سے کہکشائیں وجود میں آئیں اور اب بھی یہ مسلسل گردش میں ہیں اور پھیل رہی ہیں۔ہمارا نظامِ شمسی بھی اسی طرح بنا ہے۔
جس طرح یہ پھیل رہی ہے اس کا خاتمہ بھی ایک ممکنہ صورت’’ بگ کرنچ‘‘(Big Crunch)کے سبب ہوگا جس میںایک عظیم دھماکا ہوگا اور مسلسل پھیل رہی یہ کائنات سکڑنا شروع کردے گی یہ عمل بالکل ’’بگ بینگ‘‘ کے عمل کا الٹا ہوگا جس کے نتیجہ میں کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ناسخؔ اپنے ایک شعر میںزمین و آسمان کے مٹنے اور نئے عالم ایجاد کرنے کی بات کرتے ہیں:
؎ یہ زمیں ہے بے وفا، یہ آسماں بے مہر ہے
جی میں ہے اب اِک نیا عالم کریں ایجاد ہم
ناسخؔ ایک نئے عالم ایجاد کرنے کی بات کر کے سائنس کی اس فکر کوکی ترجمانی کر رہے جس کے مطابق خلائوں میں ہماری زمیں سے ملتے جلتے اور بھی سیّارے ہوسکتے ہیں جہاں پر انسانی زندگی کے لئے تمام تر مناسب حالات موجود ہوں۔
انسانی دماغ ایک حیرت انگیز معجزہ ہے۔بظاہر یہ ہمارے جسم کا ایک حصّہ ہے لیکن ہماری شخصیت،ہمارے ردِعمل،پسند اور ناپسند،صلاحیتوں،سوچ ا ور فکر،جزبات،احساسات،خیالات سے اس کا گہرا رشتہ ہے۔آنکھ،ناک،کان،ہاتھ،پیر کے چلنے اور کام کرنا سب دماغ کے احکامات کے مطابق عمل کرنا ہے یعنی ہمارے جسم کی ہرحرکت اس کے حکم کے طابع ہے۔بھوک،پیاس کا لگنا،سردی ،گرمی کا محسوس ہونا ،ڈرا ور خوف ،گھبراہٹ وغیرہ یعنی ہر خواہش اورموڈ کے بارے میں یہی ہم کو معلومات فراہم کرتا ہے ۔جب انسان کسی کے عشق میں مبتلا ہوتا ہے یا اس پر جنونی کیفیت طاری ہوتی ہے تو اس کا سبب بھی دماغ سے ہوتا ہے اس پر دل کا زور نہیں چلتا ہے۔جنوں کی کیفیت ایک ایسی کیفیت ہوتی ہے جو کبھی بھی کسی بھی لمحہ تاری ہوجاتی ہے۔کبھی انسان بہت زیادہ جذباتی ہوتا ہے، غم زدہ ہوتا ہے، پریشان حال ہوتا ہے، ذہنی طور پر بیمار ہوتا ہے،یا اس کے جسم میں کسی چیز کی کمی یا زیادتی ہوجاتی ہے جس کے سبب اس پر جنون طاری ہو جاتا ہے۔جنون طاری ہونے کے بعدنہ تواس پر کسی ماحول کا اثر پڑتا ہے نہ اس کو کسی کیفیت کا پتہ چلتا ہے۔نہ کسی موسم کا پتہ چلتا ہے کہ سردی ہے،گرمی ہے،یا موسمِ بہار ہے ۔در اصل جنون ایک ذہنی بیماری ہے جو کبھی بھی ہو سکتی ہے۔ناسخؔ اپنے ایک شعر میں اس بات کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں:
ؔ ؎ ہماری جامہ دری میں ہے گُل کی کب تقلید؟
یہ وہ جنوں ہے کہ وابستۂ بہار نہیں
ہم اپنے چاروں طرف مختلف قسم کی آوازوں سے گھرے رہتے ہیں۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ آوازیں کیسے پیدا ہوتی ہیں؟ یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ کس طرح پہنچتی ہیں؟کس طرح ہم آوازوں کو سن پاتے ہیں؟سائنس کے نقطۂ نظر کے مطابق آوازیں چیزوں میں ارتعاش کے سبب پیدا ہوتی ہیں۔کسی چیز کی اِدھراور اُدھر یا آگے اورپیچھے حرکت کرنے کو ارتعاش (Vibration) کہتے ہیں۔اسی ارتعاش کے سبب آواز پیدا ہوتی ہے۔آواز کو ایک جگہ سے دوسری طرف جانے کے لئے ایک وسیلہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ہماری چاروں طرف موجود ہوا ایک وسیلہ کی طرح کام کرتی ہے اور آواز ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہے۔آواز ارتعاش کی تیزی پر منحصر کرتی ہے جتنا تیز ارتعاش ہوگا اتنی ہی آواز تیز اور دور تک سنائی دیتی ہے۔اگر کوئی کانچ کا برتن یا شیشے کا سامان چوٹ لگنے سے ٹوٹ جاتا ہے تو اس سے بھی ارتعاش پیدا ہوتا ہے جس کے سبب زور دار صدا پیدا ہوتی ہیـ ۔ناسخؔ اپنے ایک شعر میںاس عمل کی خوب صورت تصویر کشی کرتے ہیں:
؎ چوٹ دل کو جولگے ، آہِ رسا پیدا ہو
صدمہ شیشے کو جو پہنچے تو صدا پیدا ہو
اگر ہم ناسخؔ کی غزلوں کا بغور مطالعہ کریں تو ایسے بہت سے اشعار نظر آتے ہیں جن میںسائنسی فکر کی ترجمانی ملتی ہے مثلاً
سورج ایک ستارہ ہے جس کے روشنی کے سبب چاند چمکتا ہے اس سائنسی عمل کو ناسخؔ کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں:
؎ ہے یہی خورشید کا رتبہ حضورِ پیشِ یار
سامنے خورشید کے رتبہ جو ہے مہتاب کا
روشنی ہونے پر ہم چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔روشنی کے راستے میں آنی سے ہی چیزوں کا سایہ وجود میں آتا ہے۔اگر روشنی نہ ہو تو نہ ہم چیزوں کو دیکھ پائیں گے نہ چیزوں کا سایہ ہی بن سکے گا۔ناسخؔ اپنے ایک شعر میں سوال کے انداز میںاس سائنسی عمل کی ترجمانی کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کسی کا کب کوئی روزِ سیہ میں ساتھ دیتا ہے؟
کہ تاریکی میں سایہ بھی جدا رہتا ہے انساں سے
پھول کب مہکتے ہیں؟ کب ان میں خوشبو پیدا ہوتی ہے؟ اس طرف کچھ اس طرح اشارہ کرتے ہیں:
شگفتہ غنچہ نہ جب تک ہو بو نہیں آتی
ہوچاک چاک اگر دل تو ہو اثر پیدا
ناسخؔ اپنے ایک شعر میں اس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کی کس طرح خوشبو بغیر آب و ہوا کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک منتقل نہیں ہوسکتی اور آب و ہوا میں خوشبوکس طرح پھیلتی ہے:
معطّر اُس کے نہانے سے بس کہ آب ہُوا
حبابِ بحرہر اک شیشۂ گُلاب ہوا
الغرض یہ کہا جاسکتا ہے کہ ناسخؔ صرف معاملہ بندی کے ہی شاعر نہیں بلکہ ان کے کلام میں وہ گہرائی اور گیرائی ہے جس کو سائنس کی فکر پر پرکھنے سے ان کے شاعرانہ جوہرمزید کھل کر سامنے آتے ہیں اور ان کا کلام موجودہ دور میں بھی اپنی اہمیت کا لوہا منواتا ہے۔
“