ابر می بارد و من می شوم از یار جدا
چوں کنم دل بہ چنیں روز ز دلدار جدا
برسات کا موسم ہے اور میں اپنے دوست سے جدا ہو رہا ہوں، ایسے (شاندار) دن میں، میں کسطرح اپنے دل کو دلدار سے جدا کروں۔
ابرِ باراں و من و یار ستادہ بوداع
من جدا گریہ کناں، ابر جدا، یار جدا
برسات جاری ہے، میں اور میرا یار جدا ہونے کو کھڑے ہیں، میں علیحدہ رو رہا ہوں، ابر علیحدہ رو رہا ہے، اور یار علیحدہ رو رہا ہے۔
سبزہ نوخیز و ہوا خرم و بستاں سرسبز
بلبلِ روئے سیہ ماندہ ز گلزار جدا
تازہ تازہ اگا ہوا سبزہ اور دل خوش کرنے والی ہوا اور سرسبز باغ ہے، اور ایسے میں سیاہ چہرے والی بد قسمت بلبل گلزار سے جدا ہے۔
اے مرا در تہِ ہر موئے بہ زلفت بندے
چہ کنی بند ز بندم ہمہ یکبار جدا
اے میرے محبوب تو نے مجھے اپنی زلف کے ہر بال کی تہ کے نیچے باندھ لیا ہے، تو کیا باندھے گا جب تو مجھے یکبار ہی اس بند سے جدا کردے گا۔
دیدہ از بہرِ تو خونبار شد، اے مردمِ چشم
مردمی کن، مشو از دیدہٴ خونبار جدا
اے میری آنکھ کی پتلی، میری آنکھیں تیرے لیے خونبار ہیں، مہربانی کر اور اب تو ان خون بہانے والی آنکھوں سے جدا نہ ہونا۔
نعمتِ دیدہ نخواہم کہ بماند پس ازیں
ماندہ چوں دیدہ ازاں نعمتِ دیدار جدا
میں آنکھوں کی نعمت اس کے بعد نہیں چاہتا کہ میری آنکھیں تیرے دیدار کی نعمت سے محروم اور جدا رہیں۔
حسنِ تو دیر نپاید چو ز خسرو رفتی
گل بسے دیر نماند چو شد از خار جدا
اے محبوب تیرا حسن زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گا، جب تو خسرو کے پاس سے چلا گیا کہ جب کوئی پھول کانٹے سے دور ہو جاتا ہے تو وہ زیادہ دیر تک نہیں رہتا۔
طالب دعا.. صادق بابا کوئٹہ بلوچستان