مرزا اسداللہ خاں غالب اردو شاعری کے سرخیل ہیں۔غالب کا شاعرانہ مرتبہ اپنے عہدمیں بھی بلند تھا اور آج تو ان کی عظمت کا چہار سو اعتراف ہورہا ہے۔مرزا غالب کا تعلق خوش حال اور فارغ البال گھرانے سے تھا۔مگر وقت کی بے سروسامانی نے ان کی زندگی سے وہ تمام سُکھ چھین لیے جو اُنھیں میسر آنے چاہیے تھے۔نامصائب حالات، وقت کی ستم ظریفی، قدرتی آزمائشوں اور آلام و روزگار کی کشاکش نے انھیں زندگی بھر بے قرار ہی رکھا۔غالب اس اعتبار سے خوش نصیب واقع ہوئے کہ ان کی صحبت میں کئی باصلاحت رفقاء اور دانشور شاگرد تھے جنھوں نے ان کی عظمت کو پہچانا اور ان کی شہرت کے ضامن بھی بنے۔خطوطِ غالب اور یادگار غالب اس کی بہترین مثالیں ہیں۔اگر مجھ سے کہا جائے کہ اردوکا سب سے بڑا شاعر کون ہے؟ تو میرا جواب مرزا غالب ہوگا۔غالب نے اپنی شاعری کے ذریعے نہ صرف اپنے عہد کو متاثر بلکہ آج دو سو سال بعد بھی ان کا چراغ ستاروں کی مانند روشن نظر آتا ہے ۔اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کی شہرت و مقبولیت میں ذرا سی بھی کمی نہیں آئی۔اردو میں کلامِ غالب کے شارحین کی تعداد سب سے زیادہ ہیں۔اُن پر سیکڑوں مقالات بھی لکھے جاچکے ہیں۔علامہ اقبال کے بعد غالب ہی وہ شاعر ہیں جنھیں یہ اعزاز حاصل ہے۔
مرزا غالب کی شاعری میں ان کی زندگی اور حالات پوری طرح منعکس ہوئے ہیں۔غالب کی شاعری کو اُن کی زندگی سے الگ کر کے نہیں سمجھا جا سکتا۔ان کی غزلوں میں زندگی اور حیات و کائنات کے راز ہائے سربستہ موجزن ہیں۔غالب کی غزلوں میں گہرے تفکر کے ساتھ ادراک و اگہی کے رموز ملتے ہیں۔غالب کی غزل گوئی میں جہاں حیرت و جستجو، منفرد افکار و خیالات،مفکرانہ مزاج کی تہہ داریاں اور زندگی کی حقیقت و ماہیت کے راز منکشف ہیں ، وہیں اس میں رعنائی و رومانی عناصر بھی جابجا نظر آتے ہیں۔غالب نہایت ہی کم عمری اپنے والدین کے سایے سے محروم ہوگئے تھے۔تاہم ان کی ابتدائی شاعری میں اس محرومیت کے عناصر زیادہ نظر نہیں آتے،اس کا اندازہ ان کی ابتدائی دور کی شاعری سے بہ آسانی لگایا جا سکتاہے۔اس ضمن میں غالب کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟
کوئی بتلاؤ! کہ ہم بتلائیں کیا؟
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا!
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا!
مرزا غالب کے یہاں اس قسم کے بہت سے اشعار میں موجود ہیں ۔جو معنیاتی اور لفظیاتی اعتبار سے سادہ فہم ہیں اور ان کا شمار ضرب المثل اشعار میں بھی ہوتا ہے۔وگرنہ غالب کے یہاں ایسی بھی غزلیں ہیں جو پیچیدہ ترکیبات و استعارات اور تشبیہات سے بھری پڑی ہیں۔مگرغالب ہی کا کمال ہے کہ چند غزلوںنے انھیں بامِ عروج پرپہنچادیا۔غالب کے اشعار میں رومانی اور جذباتی کیفیات،شعری حسن اور رعنائی خیال کا بڑا حسین امتزاج ہے۔ان کی شاعری میں فکر کی گہرائی، تخیل کی پروازاور معنی آفرینش پائی جاتی ہے۔مندرجہ بالا اشعار سے غالب کی موزونی طبع کا حساس ہوتا ہے۔چھوٹی بحر، بیان کی سادگی اور پُرکاری کا یہ حسن غالب ہی کے یہاں موجود ہوسکتا ہے۔غالب کی شاعری میں عشق اور رومان کا اظہار جسمانی لذت کا اظہار نہیں ہے بلکہ عشق ان کے یہاں ایک ایسی قوت ہے جو انسان اور کائنات میں ربط پیداقائم کرتی ہے۔غالب کے کلام میں تمنا، عشق اور شوق ایک ہی قوت کے مختلف مدارج ہیں۔غالب کے مندرجہ بالا نوعیت کے اشعار کی ایک خاصیت یہ بھی ہے انھوں نے ان کے ذریعے کسی ایک مکتبہ فکر کو متاثر نہیں کیا بلکہ یہ اشعار ہر مکتبہ خیال کے زبان زد ہوگئے ہیں۔مرزا غالب کے اسی ذمرے کے چند اور اشعار آپ کے گوش گزار کرتے ہیں:
سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں؟ کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا
عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے، وہ دل ہی نہیں رہا
عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری وحشت تیری شہرت ہی سہی
نہ گلِ نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز
جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تیری رہ گزر کو میں
تماشا کہ اے محو آئینہ داری
تجھے کس تمنا سے ہم دیکھتے ہیں
یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسم پنہاں اُٹھائیے
متذکربہ بالا اشعار سے بھی غالب کی شاعری میں رومانی اور رعنائی جیسے خیال کو تقویت پہنچتی ہے۔غالب کی شاعری کے ایک اہم شارح شمس الرحمن فاروقی کی تفسیر’’ تفہیم غالب‘‘ میں ان اشعارکو ان کی سن اشاعت کے ساتھ اندراج کیا گیا ہے اور موصوف نے کلامِ غالب کی سابقہ شرحوں کو مدِ نظر رکھ کرمعتبر دلائل کے ساتھ بہترین تشریح کی ہے۔ اس کے علاوہ فاروقی صاحب نے ہر شعر کے ساتھ اس کا زمانۂ تحریر بھی دیا ہے۔جو ظاہر کرتے ہیں کہ مندرجہ بالا اشعار 1816سے 1827تک لکھے گئے ہیں۔یعنی جب غالب عالمِ شباب میں تھے۔
غالب کی شاعری میں شوخ مزاجی اور ندرت کی عمدہ فن کاری ہے۔ان کی طبیعت میں موزونیت اور شاعرانہ تعلی کا اظہار بھی نمایاں ہے۔ان کے عشق و رومانی اور رعنائی خیال سے آراستہ اشعار میں دھیما لہجہ استعمال ہوا ہے۔جو ان شعارکے حسن کی کیفیت بڑھاتے ہیں۔ حسن و رعنائی ،خیال آفرینی ، تخیل پردازی، جدت طرازی اور منفرد لب و لہجہ غالب کو اپنے ہم عصروں اور متاخرین سے ممتاز کرتاہے۔