(Last Updated On: )
کوئی شاعر و ادیب اپنے عہد کے سماجی ‘ سیاسی ‘ علمی و ادبی تغیرات و تحریکات سے بے نیاز و بے پروا نہیں رہ سکتا ۔ اس کے برخلاف وہ ان تغیرات ‘ تحریکات اور انقلابات کا نہ صرف گہرائی سے جائزہ لیتا ہے بلکہ ان کے نتیجے میں سماجی زندگی اور انسانی اقدار پر مرتب ہونے والے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنا مخصوص نقطۂ نظر ‘ شعر و ادب کے ذریعے پیش کرتا ہے ۔ اگر وہ شاعر و ادیب کے ساتھ ساتھ فلسفی اور مفکر بھی ہوتو اس کی دور رس نظر اپنے عہد کے تقریباً تمام مسائل پر نہ صرف مرکوز رہتی ہے بلکہ وہ اپنے فکر وفلسفے کی روشنی میں اُن مسائل کا انتہائی باریک بینی سے محاکمہ و محاسبہ کرتے ہوئے ان کا حل پیش کرنے کی سعیِ مشکور بھی کرتا ہے ۔ ایسے شاعر و ادیب کے تخلیق کردہ شعر و ادب میں اس کا مکمل عہد سانس لیتا نظر آتا ہے ۔
علامہ اقبال ؔ(۱۸۷۵ء تا ۱۹۳۸ء ) کا شمار بھی دنیا کے ان چند عظیم شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے مخصوص شعری رویّے اور فکر و فلسفے سے ایک زمانے کو متاثر کیا۔ اقبال ؔ کو فلسفہ و شعر کے ساتھ ساتھ اسلامیات اور سیاسیات سے بھی خصوصی دلچسپی تھی لہٰذا ان کی شاعری میں یہ تمام عناصر اپنے مکمل شعری حسن کے ساتھ بدرجۂ اتم پائے جاتے ہیں۔
اقبا لؔکا عہد بڑا ہنگامہ خیز رہا ہے۔ ایک طرف دنیا کا بیشتر حصہ مغربی استعماریت کے شکنجے میں پھنسا ہوا تھا تو دوسری طرف انقلابِ روس کی وجہ سے اس استعماریت اور سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہل رہی تھیں۔ دنیائے اسلام کے خلاف مغربی اقوام کی سازشیں عروج پر تھیں۔ انھیں سازشوں کے تحت عالم عرب کو ترکوں کے خلاف بھڑکاکر خلافتِ عثمانیہ کے تاروپود بکھیر دیے گئے تھے۔ ہندوستان اور دیگر ایشیائی ممالک تاجِ برطانیہ کے زیر نگیں تھے۔ ہندوستان میں انگریزوں کے خلاف جدوجہدِ آزادی کی آگ تیز سے تیز تر ہوئی جارہی تھی۔ عالمی سطح پر کئی نئے نئے تصورات وتغیرات جنم لے رہے تھے۔ چاہے وہ ہندوستان گیر پیمانے پر ہوں یا عالمگیر سطح پر، اقبالؔ ؔکی نظر اپنے عہد کے تمام تصورات، تغیرات ، تحریکات اور انقلابات پر تھی۔ اسی لیے ان کی شاعری میں ان کے عہد کی تمام تصویریں متحرک نظرآتی ہیں۔ اردو کے یہ واحد شاعر ہیں جن کے کلام میں ان کا مکمل عہد اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ عصری حسیت جس قدر اقبالؔ کے کلام میں دیکھی جاسکتی ہے وہ کسی اور اردو شاعر کے کلام میں نظر نہیں آتی۔
بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اقبالؔ کا سیاسی شعور پختہ ہوگیا تھا اور اس وقت کے ہندوستان کے سیاسی حالات پر ان کی گہری نظر تھی۔ چنانچہ ’’بانگِ درا‘‘ کی نظم ’’تصویرِ درد‘‘کے تیسرے بند میں ۱۹۰۴ء کے آس پاس ہندوستان میں رونما ہونے والے سیاسی وقومی حالات کی عکاسی کی گئی ہے۔ اہلِ وطن کے آپسی افتراق واختلاف پرا پنے شدید رنج وغم کا اظہارکرتے ہوئے ہندوؤں اور مسلمانوں کو آپسی اختلافات مٹاکر متحد ومتفق ہونے کی تلقین کی ہے۔ کہتے ہیں:
رلاتاہے ترا نظارہ اے ہندوستاں مجھ کو
کہ عبرت خیز ہے تیرا فسانہ سب فسانوں میں
ذرا دیکھ اس کو جو کچھ ہورہا ہے ہونے والا ہے
دھرا کیا ہے بھلا عہدِ کہن کی داستانوں میں
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤگے اے ہندوستاں والو
تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
ان اشعار سے اس وقت کے ہندوستان کے قومی حالات کی عکاسی تو ہوتی ہی ہے ساتھ ہی اقبالؔ کی حب الوطنی کے جذبات کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔
’’ضربِ کلیم‘‘ کی نظم ’’گلہ‘‘ میں بھی ہندوستان کے سیاسی واقتصادی حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے اپنے ذہنی کرب وقلبی احساس کا اظہار کیا ہے۔ کہتے ہیں کہ معلوم نہیں ہندوستان کا حشر کیا ہونے والا ہے۔ اسے آزادی ملے گی یا نہیں، اب تک تو یہ تاجِ برطانیہ کا قیمتی گوہر ہے۔ انگریزوں نے اپنے سرمایہ دارانہ نظام سے اس ملک کے دہقانوں کو مُردوں سے بدتر کردیا ہے۔ ان کا جسم اور روح دونوں بھی زمین داروں کے پاس گروی ہیں۔ ان کے پاس رہنے کو مکان تک نہیں۔
نظم’’وطنیت‘‘ (بانگِ درا) کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اُس زمانے میں مغربی افکار ونظریات کے تحت وطن کا ایک مخصوص سیاسی تصور جڑپکڑ رہا تھا، جس کے مطابق وطن کو ایک بت کی حیثیت دی جارہی تھی۔ وطنیت کے اس غیر اسلامی تصور سے مسلم ممالک بھی متاثر ہورہے تھے۔لیکن اقبالؔوطن کے اس تصور کے مخالف تھے۔چنانچہ وہ اس تصور پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اس دور میں مے اور ہے جام اور ہے جم اور
ساقی نے بنا کی روشِ لطفِ ستم اور
مسلم نے بھی تعمیر کیا اپنا حرم اور
تہذیب کے آذر نے ترشوائے صنم اور
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیراہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
نظم’’شکوہ‘‘ (بانگ درا) ۱۹۰۹ء میں لکھی گئی ہے ۔ اس نظم میں اقبالؔ نے اس عہد کی ساری دنیا کے مسلمانوں کی حالتِ زار ، سیاسی ناداری، اقتصادی کمزوری اور ذلت ورسوائی کو نہ صرف شدت سے محسوس کیا ہے بلکہ بے حدرنجیدگی اور برافروختگی کے عالم میں اللہ سے شگوہ گزار ہیں۔ اس نظم سے ہمیں اُس وقت کے مسلمانوں کے مجموعی حالات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ (ایک صدی گزرنے کے باوجود آج بھی کم وبیش یہی حالات ہیں۔) نظم ’’غرۂ شوال‘‘ (بانگ درا) میں بھی ۱۹۱۱ء کے آس پاس مسلمانوں کی جو مجموعی صورتِ حال تھی اس کی عکاسی کی گئی ہے۔ یعنی مسلمانوں کے آپسی اختلافات ،فرقہ بندیوں اور تنزل کے مقابلے میں غیر مسلموں کے اتحاد واتفاق اور ترقی کی صورتِ حال کو نظر میں رکھتے ہوئے مسلمانوں کو سنبھل جانے کی تلقین کی ہے۔ خاص طور پر ان دو اشعار:
سازِ عشرت کی صدا مغرب کے ایوانوں سے سن
اور ایراں میں ذرا ماتم کی تیاری بھی دیکھ
چاک کردی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ اوروں کی عیاری بھی دیکھ
میں ایران اور ترکی کے سیاسی حالات کی طرف اشارہ کیا ہے جو نہایت ابترہوچکے تھے۔ انگریزوں اور روسیوں نے ایک خفیہ معاہدے کی رو سے ۱۹۰۷ء میں ایران کو آپس میں تقسیم کرلیا تھا اور یہ دونوں قومیں اس ملک میں بدنظمی پھیلارہی تھیں۔ مسلسل خانہ جنگی اور بدنظمی کی وجہہ سے ایران کا دیوالیہ نکل گیا تھا۔ ترکی بھی ایسی صورتِ حال سے گذررہا تھا۔ا ن پُر آشوب صورتِ حالات کے پیشِ نظر شبلیؔ نعمانی نے بھی کہا تھا :
مرا قش جاچکا ایراں گیا اب دیکھنا یہ ہے
کہ جیتا ہے یہ ترکی کا مریضِ نیم جاں کب تک
’’جواب شکوہ‘‘ کے مصرعے ’’تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے‘‘میں بھی اسی طرف اشارہ ہے۔
نظم ’’شمع اور شاعر‘‘(بانگِ درا) میں بھی اقبال ؔنے مسلمانوں کی زبوں حالی، پستی اور انحطاط کو شدت سے محسوس کرتے ہوئے اس پر نوحہ خوانی کی ہے۔ اس نظم میں انھوںنے کہا ہے کہ کارواں (مسلمانوں ) سے متاع ِ کارواں (جذبۂ عشقِ رسولؐ) چلاگیا۔ یعنی مسلمانوں نے جذبۂ عشقِ رسولؐ جیسی متاعِ گراں بہا(جس پر دین ودنیا کی تمام کامرانیوں کا انحصار ہے) نہ صرف گنوادی بلکہ ان میں اس نقصانِ عظیم کا احساس تک نہیں۔ کہتے ہیں :
وائے نا کامی متاعِ کارواں جاتارہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا
۱۹۱۲ء میں ہوئی جنگِ طرابلس سے اقبالؔ بہت متاثرتھے۔ ان کی دو نظمیں ’’فاطمہ بنتِ عبداللہ‘‘ اور ’’حضورِ رسالت مآبؐ میں‘‘ (بانگِ درا) اسی جنگ کے پس منظر میں لکھی گئی ہیں۔ ’فاطمہ بنتِ عبداللہ ‘ایک چودہ سالہ عرب لڑکی تھی جس نے اس جنگ میں غازیوں کو پانی پلاتی ہوئی خود بھی جامِ شہادت نوش کیا۔ نظم’’حضور رسالت مآبؐ میں‘‘ جنگِ طرابلس میں ہوئے مسلمانوں کے نقصانِ عظیم پر اپنی بے قراری کا اظہار کیا ہے۔’’ جوابِ شکوہ‘‘ (بانگِ درا) کے تیسویں بند:
ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
قافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کی خودداری کا
کیوں ہراساں ہے صہیل ِفرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے
میں ریاست ہائے بلقان کی طرف سے ۱۹۱۳۔۱۹۱۴ء میں ترکی پر کیے گئے حملے کی طرف اشارہ ہے۔
نظم’’محاصرہ ادرنہ‘‘(بانگِ درا) بھی ریاست ہائے بلقان کے ترکی پر متحدہ حملے کے پس منظرمیں لکھی گئی ہے۔ اس جنگ کے دوران ایک واقعہ پیش آتا ہے اور یہی واقعہ اس نظم کی تخلیق کا محرک بنا۔ واقعہ یہ ہے کہ جب ترکستان کی فوج بلقانی فوج کی یورش کی تاب نہ لا کر’ ادرنہ‘ کے قلعے میں داخل ہوجاتی ہے تو بلقانی فوج اس قلعہ بند شہر کا محاصرہ کرلیتی ہے۔ باہر سے سامانِ رسد نہ آنے کی صورت میں اسلامی لشکر مجبوراً ذمیوں کا مال اپنے تصرف میں لاتا ہے، مگر جب اس غیر شرعی طرزِ عمل کی خبر فقیہِ شہر کو ہوتی ہے تووہ فتویٰ صادر کرتا ہے کہ ذمیوں کا مال اسلامی لشکر پر حرام ہے۔ اس فتویٰ کے عام ہوتے ہی اسلامی لشکرکسی ذمی کے مال کو ہاتھ نہیں لگاتا۔ ۱۹۱۳ء کے اس واقعے کو اقبالؔ نے اپنی نظم کے ذریعہ زندۂ جاوید بنادیا ہے۔
نظم ’’دریوزۂ خلافت‘‘ (بانگ درا) کا تاریخی وسیاسی پس منظریہ ہے کہ ۱۹۱۸ء میں ترکستان پر انگریزوں کو مکمل فتح حاصل ہوتی ہے۔ اس بنا پر وہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کی کاروائی شروع کردیتے ہیں۔ حالانکہ انھوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے ایسا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس واقعہ سے برافروختہ ہوکر ہندوستانی مسلمان دسمبر ۱۹۱۹ء میں امرتسر میں منعقدہ خلافت کانفرنس کے اجلاس میں یہ طے کرتے ہیں کہ جنوری ۱۹۲۰ء میں ہندوستانی مسلمانوں کا ایک وفد انگلستان جائے اور حکومتِ برطانیہ سے یہ درخواست کر ے کہ خلافتِ عثمانیہ کا خاتمہ نہ کیا جائے۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اس فیصلے کو اقبالؔ نے ’’دریوزۂ خلافت‘‘ یعنی خلافت کی بھیک سے تعبیر کرتے ہوئے کہا ہے :
خریدیں نہ ہم جس کو اپنے لہو سے
مسلماں کو ہے ننگ و ہ پادشائی
’’خضرِ راہ‘‘ (بانگ درا) اقبالؔ کی شاہکار نظموں میں سے ایک ہے جس میں عصری سیاست اور اس عہد کے سرمایہ و محنت کی کشمکش کو پیش کیا گیا ہے اس کے علاوہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے کئی واقعات بھی اس میں سمٹ آئے ہیں۔ مثلاً :
بیچتا ہے ہاشمی ناموسِ دین مصطفےؐ
خاک وخوں میں مل رہا ہے ترکمانِ سخت کوش
اس شعر میں اقبالؔ نے ۱۹۱۶ء کے اس واقعے کی طرف اشارہ کیا ہے جب شریفِ مکہ نے انگریزوں کی شہ پر ترکوں سے غداری کرکے ترکستان کو فتح کرلینے میں انگریزوں کی مدد کی تھی۔ اس نظم کے آخری تین بند بھی دنیائے اسلام سے متعلق ہیں جن میں مغربی اقوام کی دنیائے اسلام کے خلاف ریشہ دوانیوں اور مسلم حکمرانوں کی نادانیوں کا ذکر ہے۔ ان تین بند میں اقبالؔ نے اس عہد کے عالمِ اسلام کا مکمل نقشہ پیش کیا ہے۔ مراقش، الجیریا، تونیشیا، طرابلس ، مصر، شام ، فلسطین ، عراق ، ایران اورہندوستان یعنی تمام مسلم ممالک آہستہ آہستہ عیسائی اقوام کے غلام ہوتے گئے۔ خود حجاز بھی اپنی کوتاہ بینی سے فریبِ فرنگ کا شکار ہوکر فرنگیوں کے زیرِنگیں ہوگیا۔ حکمتِ مغرب سے ملتِ اسلامیہ ٹکڑے ٹکڑے ہوگئی۔ عرب اور ترک ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔وطنیت کا غیر اسلامی تصور ان ممالک میں جڑ پکڑنے لگا۔ غیر اسلامی اصول ونظریات کو اپنانے سے اسلامی اصول ونظریات کو خطرہ لاحق ہوگیا۔ ان حالات کا تجزیہ کرنے کے بعد اقبالؔ نے یہ کہا ہے کہ اپنے ممالک اپنی نادانی کی وجہ سے ہاتھ سے نکل گئے۔ اب اگر بصیرت سے کام لیں تو یہ ممالک دوبارہ حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ تمام اسلامی ممالک متحد ہوں تو مشرق کی تقدیر چمک سکتی ہے۔ اقبالؔ نے یہ خیال بھی پیش کیا ہے کہ ملتِ بیضا کے اتحاد میں مشرق؍ایشیا کی نجات مضمر ہے۔ غرض اقبالؔ نے ان تین بند میں اس عہد کے عالمِ اسلام کے تمام حالات پیش کیے ہیں۔ ساتویں بند میں محنت وسرمایہ کی کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے مزدور کو نئے زمانے کی بشارت دی ہے :
اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
آٹھویں بند میں انقلابِ روس (۱۹۱۷) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے:
آفتابِ تازہ پیدا بطنِ گیتی سے ہوا
آسماں ڈوبے ہوئے تاروں کا ماتم کب تلک
توڑ ڈالیںفطرتِ انساں نے زنجیریں تمام
دوری ِجنت سے روتی چشمِ آدم کب تلک
نظم ’’فرمانِ خدا‘‘‘ اس عہد کے جاگیردارانہ نظام، زمین داری، سیاسی غلامی اور دولت پرستی کے خلاف اعلانِ بغاوت ہے۔ ساتھ ہی عصری حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے سلطانیِ جمہور کی بشارت بھی دی گئی ہے۔’’ابلیس کی مجلس شوریٰ ‘‘(ارمغانِ مجاز) اہلِ مغرب کے سرمایہ دارانہ مزاج‘ سامراجی چالوں، مکروفریب ، سیاسی عیاریوں ، دنیا میں پھیلائی ہوئی تباہی اور دنیائے اسلام کے خلاف یورپی ممالک کی ابلیسی سازشوں کا بیان ہے ‘جس سے اس عہد کے یورپ کے ذہن وفکر پر روشنی پڑتی ہے۔ نظم’’ابلیس کی عرضداشت‘‘ (بالِ جبریل) بھی مغربی سیاست کی دسیسہ کاریوں کو ظاہر کرتی ہے جس میں ابلیس خدا سے یہ گزارش کرر ہا ہے کہ :
جمہور کے ابلیس ہیں اربابِ سیاست
باقی نہیں اب میری ضرورت تہہِ افلاک
’’بالِ جبریل ‘‘ کی نظم’’ لینن خدا کے حضور میں‘‘ مغربی تہذیب وتمدن کے نقائص اور تجارتی ، تعلیمی اور صنعتی خامیوں پر تنقید ہے جو لینن کی زبانی کی گئی ہے۔ اس نظم میں مغربی مزاج ومنہاج اور تجارتی ذہن وفکر کو نہایت عمدگی سے اجاگر کیا گیا ہے:
یورپ میں بہت روشنیٔ علم وہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جواہے
سود ایک کالاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہودیتے ہیں تعلیمِ مساوات
’’ابلیس کا فرمان اپنے سیاسی فرزندوں کے نام‘‘ اور’’ مسولینی‘‘(ضربِ کلیم) خالص سیاسی نظمیں ہیں جوعہدِ اقبالؔ کے سیاسی مسائل پر روشنی ڈالتی ہیں۔ نظم ’’ساقی نامہ‘‘ (بالِ جبریل) کے دوسرے بند میں اقبالؔ نے اپنے عہد کے بدلتے ہوئے رحجانات ، انقلابات ا ور نئی نئی تحریکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان حالات کا تجزیہ بھی کیا ہے اور اس زمانے کے مسلمانوں کی مجموعی صورتِ حال پر ناقدانہ نگاہ بھی ڈالی ہے:
زمانے کے انداز بدلے گئے نیا راگ ہے ساز بدلے گئے
پرانی سیاست گری خوار ہے زمیں میر وسلطاںسے بیزار ہے
مسلماں ہے توحید میں گرمجوش مگر دل ابھی تک ہے زنّارپوش
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
’’ضربِ کلیم‘‘ میں شامل ’’محرابِ گل افغان کے افکار‘‘ کے تحت نظم نمبر ۶میں ایجاد، تقلید اور تجدید پر روشنی ڈالتے ہوئے صاحبِ ایجاد کی مدحت اور کورانہ تقلید کی مذمت کی ہے۔ ساتھ ہی مشرقی ممالک ترکی ، ایران ، افغانستان اور ہندوستان میں مصطفٰے کمال پاشاہ، رضا شاہ، امان اللہ خاں اور غلام احمد قادیانی کی جانب سے تجدید کے نام پر جو بے دینی پھیلائی جارہی تھی اس پر اپنے اندیشے کا اظہار بھی کیا ہے :
لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ آوازۂ تجدید
مشرق میں ہے تقلیدِ فرنگی کا بہانہ
محرابِ گل افغان، کے تحت نظم ۱۲ کا یہ شعر :
لا دینی و لا طینی ‘ کس پیچ میں الجھا تو
دارو ہے ضعیفوں کا لا غالبِ الّا ھوُ
ترکی کے مصطفیٰ کمال کی طرزِ حکمرانی کی طرف اشارہ کرتا ہے جس نے یورپی تہذیب سے مرعوب ہوکر اپنے ملک میں دینِ اسلام پر پابندی لگادی تھی ‘ اور اپنی حکومت کو سیکولر اسٹیٹ قرار دیا تھا ۔ ۱۹۲۴ ء میں اسی شوقِ تجدید میں مصطفے ٰ کمال نے ترکی زبان کا رسم الخط تبدیل کرتے ہوئے اسے لاطینی رسم ِ خط میں لکھنے کے احکامات جاری کیے تھے ۔
عراق‘شام ‘ فلسطین‘ شرقِ اردن اور عرب کو انگریز وں نے ترکوںکے خلاف بھڑکا کران سے آزادی دلانے کے بہانے جس طرح وہاں اپنا تسلط قائم کیا اور اس کے بعد وہاں تہذیب وتمدن کے نام پر اپنی لادینی اور فحش تہذیب رائج کردی ‘اس کا بیان ہمیں نظم ’’دامِ تہذیب‘‘ (ضربِ کلیم ) میں نظر آتا ہے ۔ کہتے ہیں :
ترکانِ جفا پیشہ کے پنجے سے نکل کر
بے چارے ہیں تہذیب کے پھندے میں گرفتا ر
نظم ’’شام و فلسطین ‘‘ ( ضرب ِ کلیم ) بھی فرانس کے شام پر تسلط اور وہاں اپنی تہذیب کو رواج دینے کے پس منظرمیں لکھی گئی ہے ۔ اقبال ؔ کااحساس تھا (اور بجا تھا ) کہ شام و فلسطین پر فرانس اور بر طانیہ کے قبضے کا مقصد تجارتی فائد ے سے بڑھ کر عربوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا تھا‘ تاکہ وہ ہمیشہ ان اقوام کے دستِ نگر رہیں ۔ اقبالؔ کا یہ کہنا بھی حق بجانب ہے کہ :
ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپا نیہ پر حق نہیں کیوں اہلِ عرب کا
نظم ’’جمعیتِ اقوام ‘‘ ( ضربِ کلیم ) میں اقبال ؔنے ’’لیگ آف نیشنز ‘‘ کی جانکنی کی تصویر پیش کی ہے اور ’’پیرانِ کلیسا ‘‘ کی ان کو ششوں اور دعاؤں کا تذکرہ کیا ہے جن کے ذریعے وہ اس ‘‘لیگ آف نیشنز ‘‘ کوکچھ اور دن زندہ رکھنا چاہتے تھے ۔ اس نظم سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی ’’لیگ آف نیشنز ‘‘ اسی طرح نا کا رہ ہوچکی تھی جیساکہ آج ’’اقوام متحدہ ‘‘کا ادارہ ہے ۔ نظم ’’جمعیتِ اقوامِ مشرق ‘‘ ( ضربِ کلیم ) میں اقبال ؔ نے اس احساس کا اظہار کیا ہے کہ اگر اقوامِ مشرق خصوصاَ مسلمان ’’لیگ آف نیشنز ‘‘ کی طرح ( جس کا مرکز جنیوا تھا ) اپنی بھی جمعیت بنا کر تہر ان کو اپنا مرکز بنا لیں تو دنیا میں ایک انقلاب بر پاہو سکتا ہے یعنی کرئہ ارض کی تقدیر بدل سکتی ہے ۔
۱۸؍اگست ۱۹۳۵ء کو اٹلی نے بلا وجہہ ابی سینیا (حبشہ ) پر حملہ کیا تھا اس واقعے پر اقبالؔ کے در د دوالم سے مملو احساسات کا عکس ہمیں ان کی نظم ’’ابی سینیا ‘‘ میں نظر آتا ہے ان نظموں کے علاوہ اقبال ؔ کے مجموعہ ہائے کلا م میں اور بھی ایسی نظمیں اور کئی اشعار ایسے ہیں جن میں انھوں نے اپنے عہد کے فکر ونظر اور حالات و و اقعات پر بھرپور تبصرہ کرتے ہوئے اپنا نقطئہ نظر واضح کیا ہے ۔ گویا کلامِ اقبالؔ کا وافر حصّہ عصری حسیت سے معمور ہے ۔
اقبال ؔ شاعر کے ساتھ ساتھ دانشور ‘ مفکر اور فلسفی بھی تھے ۔ اس لیے یہ ناممکن تھا کہ ان کا دانشو رانہ ذہن اپنے عصری حالات کے ادراک و تفہیم اور تحلیل وتجزیے کی کوشش نہ کرتا اور ان کی دوررس نگاہ اپنے عہد کے نشیب و فراز کا تنقیدی جائزہ نہ لیتی ۔ اقبالؔ کی حساس طبیعت اپنے عہد سے متا ثر بھی ہوئی اور انھوں نے اپنی فکر ونظر سے اسے متا ثر بھی کیا۔ غرض اقبالؔ کا کلام ایک ایسا آئینہ خانہ ہے جس میں اس عہد کے تمام واقعات ‘ حادثات تغیرات ‘ انقلابات اور نظریات اپنے پورے خدوخال کے ساتھ نظر آتے ہیں ۔
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں حسبِ ذیل کتب سے مددلی گئی ہے۔
(۱) بانگِ درا از اقبالؔ
(۲)بالِ جبریل از اقبالؔ
(۳)ضربِ کلیم از اقبال ؔ
(۴)شرحِ بانگِ در از یوسف سلیم چشتی
(۵)شرحِ بالِ جبریل از یوسف سلیم چشتی
(۶) شرحِ ضربِ کلیم از یوسف سلیم چشتی