شوق ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا
یہ شعر غیر متداول دیوان کے اس شعر کی اصلاحی صورت ہے :
کارخانہ سے جنوں کے بھی میں عریاں نکلا
میری قسمت کا نہ ایک آدھ گریباں نکلا
یعنی وہ کارخانہ جہاں مجنوں تیار کیے جاتے ہیں۔ مجھے بھی وہاں سے تیار کرکے بھیجا گیا اور ظاہر ہے کہ وہاں پھٹے گریبانوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مگر ہائے رے میری قسمت! کہ ایک آدھ گریبان بھی مجھے نصیب نہ ہوا۔ میں کارخانے ہی سے عریاں نکلا ہوں۔ ایک آدھ پھٹا ہوا گریبان مل جاتا تو جنوں کی صحیح اور معتدل تصویر کھنچ جاتی۔ اس شعر میں "بھی" حشوِ قبیح ہے۔
اب اصل شعر کی طرف آتے ہیں۔ پہلے شعر کا مطلب سمجھ لیا جائے، بعد ازیں اس کے فنّی و تشکیلی پہلوؤں پر گفتگو کرتے ہیں۔
مطلب : شوق (عِشق) ہر حال میں دنیوی حدود و قیود کا دشمن رہا ہے۔ ایک عاشقِ صادق بجز معشوق کے دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہوتا ہے۔ قَیس چونکہ سراپا عشق تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کی جب تصویر بنائی گئی تو وہ اس میں بھی عریاں رہا۔ اگرچہ تصویر سازی میں اس کا پردہ ظاہر کرنے کے لیے مختلف رنگ استعمال کیے گئے لیکن چونکہ وہ از سر تا پا عشق ہے، اس لیے اس کی تصویر رنگ و بُو کی احتیاج سے مستغنی ہی رہی اور وہ باوجود مختلف رنگوں کے استعمال کے، پردۂ تصویر پر عریاں ہی کھِنچا۔
ایک مصور بااختیار ہوتا ہے۔ وہ چاہے تو انسان کے سر پر سینگ بنا دے، چاہے تو تصویر میں پرندے کی دو چونچیں کھینچ دے۔ تصویر ساکت ہوتی ہے اس میں کسی بھی منظر کی اصل یا نقل کو مصور اپنے ارادے سے بند کر سکتا ہے۔ لیکن عشق کی اثر آفرینی کا یہ عالم ہے کہ قَیس کی تصویر بناتے ہوئے مصوّر کا اختیار تک سلب کر دیا گیا۔ وہ اس تصویر کو باپردہ رکھنا چاہتا ہے مگر پھر بھی وہ باتنِ عریاں ہی کھِنچتی ہے۔ اسے عشق کی طلسمانہ اثر انگیزی کہیے کہ جب ایک ساکت شے پر اس کا اتنا تسلط ہے، تو متحرک اشیاء پر کتنی گرفت ہو سکتی ہے۔
منظور احسن عباسی نے شعر کا مرکزی خیال "بے سر و سامانئ اہلِ عشق" لکھا ہے۔ میرے خیال میں شعر کا بنیادی تصوّر "استغناءِ اہلِ عشق" ہے کیونکہ اس استغناء ہی میں عشق کا وقار ہے اور بے سروسامانی میں اس کی تحقیر و تذلیل۔ مہاراج کرشن کول نے اپنی فرہنگ میں "بے نیاز" ہی لکھا ہے۔ پروفیسر یوسف سلیم چشتی نے بھی شعر کا کلیدی نکتہ لکھا ہے کہ ”عشق انسان کو علائقِ دنیوی سے بیگانہ کر دیتا ہے“۔
شعر کا مطلب خود غالبؔ کی زبانی بھی دیکھتے چلیں۔ اپنے ایک خط میں عبد الرزاق شاکر کو لکھتے ہیں :
”رقیب بمعنیٰ دشمن۔ یعنی شوق سر و سامان کا دشمن ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ مجنوں کی تصویر باتنِ عریاں ہی کھِنچتی ہے جہاں کھِنچتی ہے“۔
(بحوالہ : عودِ ہندی از مرزا اسد اللہ خان غالبؔ، صفحہ 153، مطبع منشی نولکشور لکھنؤ)
"نکلا" میں ابہام ہے۔ ایک محاورۂ عام کے معنیٰ میں۔ یعنی نمودار ہوا، واقع ہوا، ثابت ہوا۔ دوسرا معنیٰ تحریکی ہے۔ یعنی پہلی حالت سے دوسری حالت میں منقلب ہوا۔ ثبات سے حرکت اور ٹھہراؤ سے روانی کی طرف منتقل ہوا۔
پہلے معنیٰ کی تائید میں تقریباً تمام شارحین جمع ہیں۔ دوسرے معنیٰ کی طرف درگا پرشاد نے اشارہ کیا ہے :
”مجنوں کو، جو تصویر کے رنگ میں لیلیٰ کے دیکھنے کا شوق ہوا تو جیسا کہ زندگی میں دیوانگی میں کپڑے پھاڑ کر ننگا رہتا تھا، تصویر میں بھی شوق (شدّتِ آرزوئے میلان یا وحشت) نے ننگا ہی رکھا“۔
(تلاشِ غالبؔ، نثار احمد فاروقی، صفحہ 242)
بین المصرعَین کچھ اہم مناسبتیں بھی دیکھنے کے لائق ہیں :
✳️مصرعِ اول دعویٰ جبکہ دوم دلیل ہے یا اس کا برعکس۔ غالبؔ نے خود اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے دوسرے مصرعے کو دلیل اور پہلے کو دعویٰ قرار دیا ہے۔
✳️پہلا مصرع اول مماثِل (بالکسر) اور دوم مماثَل (بالفتح) وغیرہ۔
✳️یہاں "قیس" علامتی کردار ہے، عشق و جنون سے استعارہ، اور یہ استعارہ برائے استغراق ہے۔
✳️سر و سامان سے مراد ہے دنیوی علائق، نام و ننگ، رسوم و قیود، روشِ عام وغیرہ وغیرہ۔ عُشّاق اس چھوٹی دنیا کے اسباب و سامان کی احتیاج سے بہت اوپر ہوتے ہیں۔ بقولِ وحشیؔ بافقی :
بلند و پست و ہجر و وصل یکساں ساختہ بر خود
ورائے نور و ظلمت از زمین و آسماں فارغ
✳️ لفظی رعایتیں حسنِ صُوَری میں اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ شعر میں"پردہ" حشوِ مستحسن ہے اور اس کی رعایت عریانی کے ساتھ واضح ہے۔ "رنگ" کا محل نہ تھا بلکہ بقولِ طباطبائی جائے "حال" تھی۔ سو "تصویر" کی مناسبت سے لایا گیا۔ "پردہ" اور "عریانی" باہم لفظی متناسبات ہیں۔
✳️"قَیس" مضمونِ شعر کی روحِ رواں ہے۔ غالبؔ جب بھی پائیدار عشق کی مثال دیتے ہیں تو ہمیشہ قَیس کو سرِ فہرست رکھتے ہیں۔ تصویر تک میں عریانی اسی "قَیس" کے شوقِ فضول و عشقِ رندانہ کی مرہونِ منت ہے، ورنہ عام تصویر کا حال معلوم! محسن فانیؔ کاشمیری کا شعر ہے :
نیست عارف را نظر بر جلوۂ حسنِ بتاں
چشمِ بلبل مستِ دیدارِ گلِ تصویر نیست
✳️شعر غالبؔ کے مخصوص فلسفے کا بیانیہ ہے۔ یہ "سروسامان" جسے غالبؔ کبھی ”رسوم و قیود“ سے تعبیر کرتے ہیں اور اس کے خمار کی سرگشتگی سے فرہاد کو متہّم ٹھہرا کر بیزاری کا اظہار کرتے ہیں، کبھی ”لاشِ بے کفن“ کہہ کر اپنے ”خستہ جاں“ ہونے کا ثبوت دیتے ہیں۔ کبھی ”پا بستگئ رسم و رہِ عام“ پہ حرف زَن نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ غالبؔ کا اعتقاد ہے کہ ان رسوم و قیود اور سر و ساماں کے لحاظ کو اتنا اہم اور ما بہ النزاع نہ بنائیں تو صلحِ کل کا مشرب عام ہو جائے :
ہم موحّد ہیں، ہمارا کیش ہے ترکِ رسوم
ملتیں جب مٹ گئیں، اجزائے ایماں ہو گئیں
واجد دکنی شعر کی معنویت پر ایک اعتراض خود کرتے ہیں اور دوسرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
اعتراض اول : مرزا صاحب کا یہ بیان کہ مجنوں کی تصویر باتنِ عریاں ہی کھِنچتی ہے، محلّ تامّل ہے۔ کیوں کہ مصور جیسی تصویر بنائے گا ویسی ہی بنے گی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ وہ بدصورت بنائے تو خوب صورت بنے یا وہ عریاں بنائے تو بالباس بنے۔
جواب : شوق کو سر و ساماں سے کلی استغناء حاصل ہے۔ یہ استغناء اس کی فطرت میں اس درجہ راسخ ہو چکا ہے کہ صاحبِ شوق (قَیس) سالم و مشخّص صورت میں بھی تنِ عریاں کی کیفیت پیدا کر لیتا ہے، فطری شدّت کی اسی برانگیخت پہ تصویر تک لباسِ ظاہری سے بے نیاز ہو کر کھِنچتی ہے۔ ورنہ مصوّر کا مطمعِ نظر با لباس تصویر گری ہی کرنا ہے۔ مجنوں کے عشق کی انتہا بے سر و سامانی کی انتہا ہے، جو ایسی عریانی تک پہنچ گئی ہے کہ تصویر کا پردہ بھی اس کی پردہ پوشی نہیں کر سکتا۔
اعتراض دوم : یہ اعتراض واجد دکنی کا ہے کہ پردہ میں عریاں نکلنا ایک بے معنیٰ سی بات ہے۔ کیوں کہ جو چیز پردے میں ہوگی وہ عریاں کیوں کر ہوگی؟ ایسی ترکیبوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔اگر اجتناب و احتراز نہ کیا جائے تو کلام مہمل و بے معنیٰ ہو جاتا ہے۔
جواب : اول تو قیس کا استعارہ یہاں برائے تمثیل ہے۔ قیس سے فردِ معیَّن مراد نہیں بلکہ شوق کو مشخّص حالت میں پیش کرکے معنوی ترتیب کا ڈھانچہ کھڑا کیا ہے۔ دوم یہ کہ پردے میں بھی عریاں نکلنا مبالغہ کی قبیل سے ہے اور ظاہر ہے یہاں یہی مطلوب ہے۔ ایسی ترکیبیں کلام میں ندرت اور رنگینی پیدا کرتی ہیں۔ اگرچہ واقعیت کی فضا نہ بھی ہموار ہو، شاعرانہ کَیف، زورِ بیان، استعارے کا جلوہ، بندش کی چستی اور مبالغہ آرائی یوں بھی شعر میں ظاہری حسن کا سبب بنتے ہیں۔
**
مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
ناتوانی سے حریف دمِ عیسٰی نہ ہوا
صدمۂ : سانحہ، دو چیزوں کا باہمی تصادم
حریفِ دمِ عیسیٰ : دمِ عیسیٰ کا مدمقابل یا متحمل
دمِ عیسیٰ : حضرت عیسٰی علیہ السلام کا "قُم" کہہ کر مُردوں کو زندہ کرنا یا مطلق دَم کرنا
مصرعِ اول اپنی ابتدائی بُنت میں یوں تھا :
مر گیا صدمۂ آواز سے "قُم" کی غالبؔ
اس میں جو عیوب تھے ان کی طرف طباطبائی کی نظر نہ گئی اور انھوں نے "اصلاحاتِ غالبؔ" میں صرف اتنا لکھ دیا کہ اصلاح کے بعد مبالغہ میں نزاکت پیدا ہو گئی۔ حالانکہ اس میں دو بڑے عیب موجود تھے :
1) قُم سے مُردے زندہ ہوتے ہیں، اس آواز سے مرنے کا تصور درست نہیں۔ کیوں کہ جنبشِ لب سے جو سخن نکلتا وہ "قُم" نہ ہوتا بلکہ دعائے صحت ہوتی۔ اور دعائے صحت زندوں کے لیے کی جاتی ہے۔
2) مصرعے میں لفظی تعقید تھی جس سے معنیٰ میں سخت الجھاؤ پیدا ہو رہا تھا۔ اسی اغلاق کو دور کرنے کے لیے مصرع بدل دیا۔ موجودہ مصرع نہ صرف گنجلک نہیں بلکہ کامیابی سے ابلاغ بھی کر رہا ہے اور شعر کا جمالیاتی رنگ بھی مزید نکھر گیا ہے۔
مطالبِ شعر :
(الف) میری ناتوانی کی شدت کا یہ عالم تھا کہ دمِ عیسیٰ کا بھی متحمل نہ ہو سکا کہ ابھی حضرتِ مسیح نے لب کو جنبش ہی دی تھی کہ میں اس کے صدمے کی تاب نہ لا سکتے ہوئے مر گیا۔ جنبش سے ہوا میں جو معمولی سا تموُّج پیدا ہوا، وہ بھی میری ناتوانی کے باعث بارِ خاطر واقع ہوا۔
(ب) اگر جنبشِ لب سے اپنے لب کی حرکت مراد لیں تو شعر کا مطلب یہ ہوگا کہ میں نے ابھی لبوں کو یہ کہنے کے لیے حرکت ہی دی تھی کہ "اے مسیح! میرے لیے دعا کریں" لب ہلانے کی دیر تھی کہ ضعف نے کچھ کہنے نہ دیا اور میں دمِ عیسیٰ سے محروم رہ کر مر گیا۔ اپنی حرکتِ لب سے مر جانے کا مضمون مؤمن بھی باندھ چکے ہیں :
دعا بلا تھی شبِ غم سکونِ جاں کے لیے
سخن بہانہ ہوا مرگِ ناگہاں کے لیے
اگرچہ مولوی ضیاء بدایونی نے اس شعر کی شرح میں ضعف کو وجہ قرار دیا ہے مگر شعر میں یہ قرینہ موجود نہیں۔ نیز "سخن" بامعنیٰ کلام کو کہتے ہیں، مؤمن کم از کم ایک بامعنیٰ کلام تو کر گئے۔ غالبؔ کا ضعف اتنا شدید ہے کہ فقط لب کھولتے ہی ناطاقتی کے ہاتھوں موت واقع ہو گئی۔
(ج) اگر عیسیٰ سے معشوق مراد لیں تو معنیٰ یہ ہوگا کہ بہرِ عیادت معشوق میری سرِ بالیں آیا۔ اس نے گفتگو شروع کرنا چاہی۔ ابھی اس نے لبوں کو جنبش ہی دی تھی کہ مجھے اس سے وہ خوشی ملی کہ میری جان شدتِ مسرت کی متحمل نہ ہو سکی اور گفت و شنید سے قبل ہی میں مر گیا۔
شعر کے پہلے معنیٰ میں یہ رعایت ملحوظ ہے کہ حضرتِ مسیح کی اہانت کے پہلو سے گریز کرتے ہوئے جنبش کہا، ورنہ بعد از مسیحائی موت واقع ہوتی تو دعا کی بے اثری لازم آتی۔
بیخودؔ موہانی نے طباطبائی کے بیان کردہ مطلب میں ایک سقم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر جنبشِ لب سے موت واقع ہو گئی تو دمِ عیسیٰ سے زندگی مل جانی چاہیے کیوں کہ مسلَّمہ حقیقت ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کے قُم بإذن اللہ کہنے سے مُردے زندہ ہو جایا کرتے تھے۔ یہاں مرنے کے بعد زندہ ہو جانے میں کون سا امر مانع تھا کہ مُردہ دوبارہ زندہ نہ ہوا۔
بیخودؔ کا طباطبائی کے بیان کردہ مطلب کو سقیم کہنا بالکل بجا ہے۔ مگر یہ سقم دو طرح سے دور کیا جا سکتا ہے۔
(الف) اول یہ کہ عیسیٰ سے معشوق مراد ہو۔ اس ضمن میں واجد دکنی کا یہ جملہ نہایت کارآمد ہے کہ "زندہ ہونے کو اپنے لیے ننگ سمجھا کیوں کہ لبِ معشوق نے مارا ہے"۔ اس طرح مسلمہ حقیقت کا انکار واقع نہیں ہوگا
(ب) دوم یہ کہ ضعف کی شدت کے باعث دمِ عیسیٰ بھی کارگر ثابت نہ ہوا۔ اس معنیٰ میں مرکزی قرینہ شدتِ ضعف ہے اور کسی قرینہ کے باعث مسلمات کا ٹوٹنا شعراء روا رکھتے ہیں۔ مثلاً امیر اللہ تسلیم کا یہ شعر دیکھیں :
یہ ضعف ہے کہ رگِ تارِ بسترِ غم ہوں
گر آئی بھی تو مجھے پائے گی قضا کیوں کر؟
یہ مسلمہ امر ہے کہ قضا سے رستگاری ممکن نہیں مگر یہاں شاعر نے قرینہ یہ رکھا کہ ضعف کے باعث بدن کو تارِ بستر کی رگ بنا ڈالا اور یوں قضا کو مریض کی شناخت کرنے میں مشتبہ متصور کیا۔ یعنی اگر قضا آ بھی گئی تو سامنے بسترِ غم کے علاوہ کچھ نہ پائے گی۔
شعرِ غالبؔ میں ایک دلچسپ رعایت دیکھیں۔ صدمہ دو چیزوں کے باہمی ٹکراؤ کو کہتے ہیں۔ دونوں لبوں کی جنبش (ٹکراؤ) سے صدمہ پیدا ہونا کتنا خوب صورت محاورہ ہوا۔ اب "صدمۂ جنبشِ لب" کو غالبؔ کی نہایت بلیغ اختراع کہیں تو بیجا نہ ہوگا۔ ہاں! صدمہ کا لغوی استعمال ناسخؔ کے ایک شعر میں موجود ہے :
صدمہ دل کو جو ہوا، نالۂ سوزاں نکلا
جس طرح سنگ سے ہو آتشِ پنہاں پیدا
**