کالا باغ ڈیم؛ کبھی نہیں بن سکتا
ایک ایسے وقت میں جب بڑے ڈیموں کی تعمیر کے بغیر بھی بجلی کی پیداوار کے متبادل ذرائع سے لوڈ شیڈنگ پر کافی حد تک قابو پا لیا گیا ہے، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے لئے ایک مخصوص لابی مسلسل جھوٹا پراپیگنڈا کرنے میں مصروف ہے، یہ بتانے کی کوشش کی جا رھی ہے کہ بارشوں کے پانی کو “ضائع” کرنے کی بجائے اسے ڈیم کی تعمیر کے لئے استعمال کر لیا جائے،
ایک ایسے وقت میں جب پانی کی کمی کا حقیقی خطرہ موجود ہے، اس وقت کالا باغ ڈیم بنا کر پانی کو جمع کرنے کا منصوبہ پیش کیا جا رھا ہے،
جب ذیادہ بارش ہوتی ہے تو سیلاب آجاتے ہیں۔ ڈیموں کے بند پانی کو کھولنا پڑتا ہے تا کہ سیلاب ڈیم کو ہی اڑا کر نہ لے جائے، سمندر میں گرنے والا پانی ضائع نہیں ہوتا، وھاں گرنا ضروری ہوتا ہے، سمندر کی بھی اپنی ایک لائف ہے جس کی اس کے اندر پلنے والی حیاتی زندگی کو زندہ رھنے کے لئے ضرورت ہے۔
ڈیموں کو پانی تو سارا سال چاھئیے، صرف ذیادہ بارشوں کے دنوں میں ہی نہیں، پانی تو پہلے ہی کم ہے۔ پھر آپ کس کے حصے کا پانی روک کر ڈیم کا پانی پورا کریں گے؟
بڑے ڈیم انسانی جانوں کو زیادہ خطرے والے ہوتے ہیں، بڑے ڈیم پانی میں پلنےوالی نوع حیات کو ختم کر دیتے ہیں، بڑے سیلابوں کا باعث بنتے ہیں اور ہزاروں لاکھوں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرنی پڑتی ہے،
بڑے ڈیموں کے متبادل سستے، کم تباھی والے متبادل موجود ہیں، جو پانی کی کمی کو ختم کرنے اور انرجی پیداوار میں بہتری لانے میں ممد ثابت ہوئے ہیں؛ چھوٹے ڈیم، ڈی سنٹرلائزڈ پانی کے ذرائع، ری نیوایبل انرجی پیداوار کے طریقے موجود ہیں۔
جنرل مشرف نے اپنے پورے دور میں کالا باغ ڈیم بنانے کی رٹ لگائے رکھی؛ تین صوبوں نے کھل کر اس کی مخالفت کی، جنرل مشرف کے بنائے گئے جی این عباسی کمیشن نے بھی کالا باغ ڈیم بنانے کی مخالفت کی، مشرف نے اس دور میں انرجی کا ایک بھی متبادل ذریعہ نہ ڈھونڈا؛ بجلی کا بحران شروع ہوا،
پیپلز پارٹی نے بھی 2008 سے 2013 تک انرجی کی پیداوار کے متبادل ذریعوں کو ڈھنڈنے کی بجائے رینٹل پلانٹس وغیرہ پر ہی اکتفا کیا اور وہ بھی نہ لا سکے، بجلی مذید پیدا نہ ہوئی؛ بحران بڑھتا گیا۔
مسلم لیگ ن نے 2013 سے 2018 نے عقل مندی سے کالا باغ ڈیم بنانے کی رٹ لگانے کی بجاۓ، انرجی کے متبادل ذرائع بنانے کے طریقے اپنائے، اگرچہ ہمیں کوئلہ سے بجلی بنانے کے پلانٹوں پر شدید اعتراض ہیں کیونکہ اس سے ماحولیات پر انتہائی برے اور منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مگر پھر بھی 10,000 میگاواٹ تک کی اضافی بجلی پیدا کر لی گئی ہے، بحران کچھ کم ہوا۔
اب ایک بار پھر خاص طور پر پنجاب کے عوام کو ایک خاص پراپیگنڈا کے ذریعے یہ باور کرایا جا رھا ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بغیر گزاراہ ممکن نہیں۔ یہ کام پنجاب کی ایک رجعتی ایلیٹ کلاس کر رہی ہے، اس میں ان کے تاجر طبقے کا بھی ایک بڑا حصہ شامل ہے، جھوٹا پراپیگنڈا کیا جا رھا ہے، جھوٹے اعدادوشمار پیش کئے جا رھے ہیں جھوٹی کہانیاں گھڑی جا رھی ہیں۔ جھوٹ کا ایک بازار سوشل میڈیا پر لگا ہوا ہے،
پنجاب میں بائیں بازو کو زور دار طریقے سے کالا باغ ڈیم بنانے کے نقصانات کو عوام کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے اور متبادل عوام دوست ماحول دوست منصوبوں کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔
رواج بن گیا ہے کہ لکھی لکھائی باتوں کو فارورڈ کر دیا جاتا ہے، نہ کسی تحقیق کی ضرورت اور نہ ہی حقائق کو جاننے کی زحمت، نہ ہی خود لکھنے یا اکثر اوقات پڑھنے کی زحمت؛ بس کسی کا پراپیگنڈا آپ فارورڈ کر کے اپنا فرض نبھانا ضروری سمجھتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم پر لکھا پراپیگنڈا؛ بس ایساہی کچھ ہورھا ہے،
کالا باغ ڈیم منصوبہ ایک ناقابل عمل منصوبہ ہے، یہ کبھی بن نہیں سکتا، تین صوبوں کی مخالفت میں; یہ کیسے بن سکتا ہے؟ اس کے بنانے کی ضد چھوڑیں، ہزار اور طریقے ہیں بجلی اورپانی کی فراھمی کے, جن پر غور کریں، وقت ضائع نہ کریں تو بہتر ہے،
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔