اكتیس جنوری 1666 رات کا آخری پہر ہے ابھی صبح کا اجالا پھیلنے میں کچھ دیر باقی ہے، سردی کا زمانہ ہے اور دریائے جمنا کے دونوں کناروں پر دهند کا راج ہے۔ آگرہ کے قلعہ کے خضری/جل دروازے سے جو دریا کی جانب کھلتا ہے، انسانوں کا ایک مختصر سا جلوس برآمد ہوتا ہے جس میں مرد و زن دونوں ہی شامل ہیں۔ اپنے لباس اور حلیے سے یہ سوگوار مغل شاہی خاندان کے افراد لگتے ہیں۔ یہ مختصر سا جلوس دریائے جمنا میں پہلے سے کھڑی ایک کَشتی کی جانب بڑھتا ہے۔ ان کے کاندھوں پر ایک تابوت بھی ہے۔ دراصل یہ سلطنتِ ہندوستان پر 32 سال تک بلا شرکت غیرے حکومت کرنے والے شہنشاہ "شاہ جہاں" کے جنازے کا جلوس ہے۔ شاہ جہاں پچھلے آٹھ سال سے اس قلعے میں قید و بند کی زندگی گزار رہا تھا۔ اس کو قید کرنے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا سگا بیٹا "اورنگ زیب عالمگیر" تھا۔
شاہ جہاں کی بیٹی "شہزادی جہاں آرا" چاہتی تھی کہ جنازه شاہانہ شان و شوکت کے ساتھ صبح کے وقت اٹھایا جائے اور دن چڑھے عزت و وقار کے ساتھ تدفین عمل میں آئے۔ لیکن جہاں آرا کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی، کیونکہ بادشاہِ وقت "اورنگ زیب" اس وقت آگرہ سے دور دہلی میں تھا۔ جہاں آرا خود بے اختیار تھی، سارا نظام سرکاری عمال کے ہاتھ میں تھا، اس لیے رات کے آخری پہر جنازے کو کشتی میں رکھ کر دریائے جمنا کے راستے خاموشی سے دریا کنارے واقع شاہ برج کے زینے سے شاہ جہاں کی نعش کو "تاج محل" کی عمارت کے اندر پہنچا دیا جاتا ہے اور ممتاز محل کے پہلو میں بطور امانت تدفین عمل میں آتی ہے ۔ غالباً اس وقت یہ خیال رہا ہو گا کہ جلد ہی بادشاہ کی نعش کسی ایسی جگہ منتقل کر دی جائے گی جہاں پر اس کے شایانِ شان مقبره تعمیر کیا جا سکے۔ لیکن ایک پر شکوہ مقبرہ اس کے نصیب میں کہاں تھا۔
"تاج محل" شاہ جہاں کی ملكه ممتاز محل کا مقبره ہے جس کا شمار آج بھی دنیا کے سات عجائبات میں ہوتا ہے۔ اس کو 1631 میں شاہ جہاں نے اپنی ملکہ ارجمند بانو کی یاد میں تعمیر کرایا تھا جسے عرف عام میں ممتاز محل کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
سن1631 میں "شاہ جہاں" دہلی سے ایک ہزار کلو میٹر کے فاصلے پر واقع شہر "برہان پور" میں مقیم تھا۔ اس کے ساتھ اس کی حاملہ ملکہ ممتاز محل بھی تھی۔ سات جون 1631 کو ممتاز محل نے ایک لڑکی کو جنم دیا۔ بنیادی طور پر یہ ایک سیزیرین کیس تھا جس میں سرجری کی ضرورت تھی۔ اس زمانے میں طبیبوں یا دائیوں کو اس قسم کی کوئی مہارت حاصل نہیں تھی، اس مشکل کے باوجود خاصی جدوجہد کے بعد وضع حمل ہو گیا لیکن ملکہ بے پناہ تکلیف برداشت نہ کر سکی اور نڈھال ہونے لگی۔ اس نے خواہش ظاہر کی کہ شہنشاہ کو اُس کے پاس بلا لیا جائے۔ شاہ جہاں جلدی سے اس کمرے میں آیا، ممتاز محل نے آنکھیں کھولیں، نوزائیدہ بچّی کو شوہر کے حوالے کیا اور الوداع کہتے ہوئے
ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئی۔ ممتاز محل کے جسدِ خاکی کو "برہان پور" میں دریائے تاپتی کے کنارے امانتاً دفن کر دیا گیا اور چھ ماہ بعد دسمبر 1631 میں آگرہ لے جا کر دریائے جمنا کے کنارے اس کی باقاعدہ تدفین کی گئی۔ جلد ہی شاہ جہاں نے اس کی قبر پر مقبرے کی تعمیر شروع کروا دی جس کی تكمیل میں 22 سال کا طویل عرصہ لگا۔ اس شاندار مقبرے کو دنیا آج "تاج محل" کے نام سے جانتی ہے۔
قدرت کی ستم ظریفی دیکھیں کہ 31 جنوری 1666 کی دهند میں ڈوبی ہوئی سرمئی و سوگوارصبح کو نہایت بے بسی کے عالم میں ہندوستان جیسی عظیم الشان سلطنت پر جاہ و جلال سے بتیس سال تک حکومت کرنے والے شاہ جہاں کی نعش کو اس کی ملكہ کی قبر کے ساتھ بغیر کسی گنجائش اور پیشگی منصوبہ بندی کے دفن کیا جا رہا ہے۔
تاج محل کا ڈیزائن کچھ اس طرح سے بنایا گیا تھا کہ اس میں ممتاز محل کی قبر کے ساتھ کسی دوسری قبر کے بنائے جانے کی کوئی گنجائش ہی نہیں رکھی گئی تھی کیوںکہ اس طرح اس کی ازلی خوبصورتی برقرار نہیں رہ سکتی تھی۔ تاج کی تعمیر اور ڈیزائن میں کامل توازن کا بہت خیال رکھا گیا ہے۔ یہ ہندوستان کے صنعاء کاروں کے تخیل کی بلندی کا اعلیٰ نمونہ ہے جس میں عمارت سازی سے زیادہ سنگتراشی کا ہنر کار فرما ہے جو انتہائی نزاكت اور تخلیقی خوش مذاقی سے کی گئی ہے۔ ممتاز محل کی قبر کا تعویز مركزی ہال کے عین وسط میں ہے۔ شاہ جہاں کی قبر کا محلِ وقوع تاج محل کے اندرونی ماحول اور ڈیزائن سے مطابقت نہیں رکھتا۔ شاہ جہاں کی قبر کا حجم بھی خاصا بڑا ہے۔
افسوس کہ جس مغل بادشاہ کو مغلیہ سلطنت کا عظیم ترین معمار شہنشاہ یا انجنئیر شہنشاہ بھی کہا جاتا ہے کہ مغل بادشاہوں میں سب سے زیادہ شاندار عمارات شاہ جہاں نے ہی تعمیر کرائیں تھیں، اسے اپنی ملكه کے مقبرے میں بڑے بے ڈھنگے طریقے اور مجبوری کے عالم میں دفن کیا گیا- اس کی شاہکار تعمیرات میں سرِفهرست تاج محل ہے۔ اس کے علاوہ دہلی کا لال قلعہ، دہلی کی شاہی مسجد، لاہور کا قلعہ، لاہور کی بادشاہی مسجد، ٹھٹھہ کی بادشاہی مسجد، تختِ طاؤس اور موتی مسجد وغیرہ شامل ہیں۔
تو کیا یہ ایک حقیقت ہے کہ شاہ جہاں نے کبھی اپنی ملکہ کے پہلو میں دفن ہونے کا ارادہ نہیں کیا تھا؟ ظاہری شواہد تو اس امکان کی تائید کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہندوستانی مؤرخین اس معاملے میں بالکل خاموش ہیں۔ تاہم ایک فرانسیسی سیاح نے اپنی کتاب میں اس بارے میں نہ صرف اپنا نظریہ پیش کیا ہے بلکہ اس حوالے سے کچھ تفصیلات بھی بیان کی ہیں۔
اس کی بیان کردہ کہانی کے مطابق مغل بادشاہ شاہ جہاں نے دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر ایک بالکل ویسا ہی تاج محل سیاہ سنگ مرمر سے تعمیر کروانے کا منصوبہ بنایا تھا اور دونوں تاج محل دریائے جمنا پر ایک چاندی سے تیار كرده پُل کے ذریعے آپس میں جوڑ دیے جانے تھے۔
"سیاہ تاج محل" کا ذکر فرانسیسی سیاح جین بپٹسٹے ٹورنیر نے اپنے سفرنامے لیس سکس وائیجز ڈی جین بپٹسٹے ٹورنیر میں کیا ہے۔ جین بپٹسٹ ٹورنیئر سن 1605 میں ایک پروٹسٹنٹ عیسائی خاندان میں پیدا تھا جو رومن کیتھولک انتہا پسند عیسایئوں کے مذہبی ظلم وستم بچنے کے لیے پیرس سے اینٹورپ بھاگ گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب یورپ میں مذہبی انتہاپسندی عروج پر تھی اور مذہب کے نام پر پورے یورپ میں قتل و غارت گری اور افرا تفری پھیلی ہوئی تھی ہندوستان مکمل طور سیکولر اور پُرامن ملک تھا اور یہاں مذہبی راواداری کا دور دورہ تھا۔ یہاں تک کہ شاہ جہاں کی ماں ہندو تھی جن کا نام مان متی عرف جگت گو سائیں تھا۔ ٹیورنیئر نے 1632 اور 1668 کے درمیان یورپ سے مشرق کی جانب چھ سفر کیے اور اس دوران وہ دو دفعہ ہندوستان بھی آیا۔ٹیورنیئر نے 1640 اور 1655 میں اُس وقت کے مغل دارالحکومت آگرہ کا دورہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شاہ جہاں اپنے پورے جاہ و جلال کے ساتھ ہندوستان پر حکومت کر رہا تھا۔ ٹیورنیئر لکھتا ہے کہ سفید تاج محل کی تعمیر کے مکمل ہونے کے تین سال بعد دلّی میں ایک وبائی مرض پھوٹ پڑا، جس کی وجہ سے شاہ جہاں کو عارضی طور پر دلّی شہر کو چھوڑنا پڑا۔ غالب گمان یہ ہے کہ اسی دوران اس کو اپنی ذاتی قبر اور مقبرے کا بھی خیال آیا۔ چنانچہ شاہ جہاں نے "سیاہ تاج" تعمیر کروانے کا فیصلہ کیا ہو گا۔ وباء کے خاتمے پر اپریل 1657 میں شاہ جہاں دارالسلطنت واپس آیا اور غالباََ اس زمانے میں دریائے جمنا کے دوسرے کنارے پر "سیاہ تاج" کی تعمیر شروع کروائی گئی جس کی بنیادوں کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ بد قسمتی سے ستمبر 1657 میں شاہ جہاں کی طبیعت ناساز ہو گئی۔ وہ پروسٹیٹ کے مرض میں مبتلا تھا جس کی وجہ سے اسکا پیشاب بند ہوگیا۔ آج بھی پروسٹیٹ کا کامل علاج سرجری ہی ہے اور اس زمانے میں اس قسم کی سرجری کا کوئی تصور تھا نہ ہی کوئی سہولت موجود تھی ۔ایک ہفتہ شاہی طبیب کوشش کرتے رہے لیکن طبیعت میں کوئی افاقہ نہیں ہوا۔
شہنشاہ کی شدید علالت کی خبر سے سلطنت میں بڑی سراسیمگی پیدا ہوئی کہ اب شاہ جہاں کا جانشین کون ہو گا۔ شاہ جہاں کے چار بیٹے تھے۔ بڑا بیٹا دارا شکوہ، بادشاہ کے ساتھ ہی دارالسلطنت میں مقیم تھا، تین بیٹے دُور افتاده صوبوں میں بادشاہ کے نمائیندوں کے طور پر انتظام سنبھالے ہوئے تھے۔ اپنی علالت کے پہلے ہفتے میں شاہ جہاں نے دارا شکوہ کو اپنا جانشین مقرر کر دیا، جب یہ خبر باقی بھائیوں تک پہنچی تو انہوں نے یہ فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا اور سارے بھائی اپنے لشکر تیار کر کے دارالسلطنت کی طرف کوچ کرنے کی تیاری کرنے لگے۔ اگرچہ وسط نومبر 1657 تک شاہ جہاں حیرت انگیز طور پر بالکل صحت یاب ہو چکا تھا لیکن تمام بھائیوں کی باغیانہ سرگرمیاں جاری رہیں یہاں تک کہ شاہ جہاں ان سب کی سرکوبی کے لیے فوجیں بھیجنے کی تیاری کرنے لگا لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی۔ شاہ جہاں کا بیٹا اورنگزیب نہ صرف شاہ جہاں پر بلکہ اپنے تمام بھائیوں پر بھی غالب آگیا۔
ابن انشاء اپنی تصنیف "اردو کی آخری کتاب" میں لکھتے ہیں کہ اورنگ زیب عالمگیر نے کوئی نماز چھوڑی تھی نہ ہی کوئی بھائی۔
شاہ جہاں آگرہ کے قلعہ میں اپنے بیٹے اورنگ زیب کے ہاتھوں معزول اور قید ہو گیا۔ اس مقبرے کی تعمیر جس نے مستقبل قریب میں کالے تاج کا روپ دھار لینا تھا اور جس کی تعمیر خود شاہ جہاں نے شروع کروائی تھی، رک گئی۔ مقامی لوک کہانیوں میں بھی اس بات کا تذكره ہے کہ شاہ جہاں نے دونوں مقبروں کو دریائے جمنا کے درمیان ایک پُل سے جوڑنے کا منصوبہ بنایا تھا جو کہ ممکنہ طور پر چاندی سے بنایا جانا تھا۔
شاہ جہاں نے قید کے بعد اپنی موت تک تقریباً آٹھ سال آگرہ کے قلعے میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزاری اور اپنی آخری سانس تک "قلعے" کی کھڑکی سے تاج محل کو دیکھتا رہتا تھا۔ انیسویں صدی میں ایک برطانوی ماہر آثار قدیمہ ACL Carlleyle نے دریا کی دوسری جانب سیاه سنگِ مرمر سے بنے ایک تالاب کی نشاندہی بھی کی تھی۔ جو ممکنہ طور پر سیاه تاج کا حصّہ ہو سکتا ہے۔
لیکن مزید تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ یہ شاہ جہاں کے پردادا شہنشاہ بابر کے تعمیر کردہ مہتاب باغ (مون لائٹ گارڈن) کے آثار ہیں۔
قطع نظر اس کے کہ شاہ جہاں نے کالا تاج محل بنانا چاہا یا نہیں، بہرحال اس کہانی نے بہت سے فنکاروں کو سیاہ تاج محل کے ریت کی نقلیں اور چھوٹے ورژن بنانے کی ترغیب دی۔ آج بھی تاج محل کے اطراف میں موجود گایئڈ سیاحوں کو دریائے جمنا کی دوسری جانب کالے سنگِ مرمر کے بکھرے ہوئے کھنڈرات دکھا کر کالے تاج محل کی تفصیلات بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ کالا تاج افسانہ ہے یا حقیقت بہرحال یہ جس کے بھی دماغ کی اختراع ہے، اس کے تخیل کی بلندی کو داد تو دینی ہی پڑے گی۔
“