کل ضرور ہوگی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے ایک دوست ہیں امیرزادہ بلوچ۔ ہوت قبیلے کے بلوچ ہیں اس لیے ہم اکثر انہیں چھیڑنے کے لیے کہتے ہیں کہ تم لوگوں نے سسی کے ساتھ دھوکا کیا تھا۔ بہت جی دار انسان ہیں۔ اُن کا خاکہ لکھنا مقصود نہیں، صرف ایک واقعہ شیئر کرنا مقصود ہے۔ گزشتہ کچھ دنوں سے وہ ایک بزنس، ایک خیراتی ادارہ اور ایک پالیٹکل سیٹ اپ قائم کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔ گزشتہ تمام ملاقاتوں میں ان کا موضوع ِ گفتگو تقریباً یہی منصوبہ تھا۔ وہ چونکہ بڑے نظم و ضبط اور طریقے سے چلنے والے بندے ہیں اور کچھ اصلی ڈگری کا کارنامہ بھی کہ وہ اپنے پورے منصوبہ کی تمام تر جزیات پر نہایت باریک بینی سے کام کرتے اور اسے زمانی ترتیب کے علاوہ استعداد اور صلاحیت کے لحاظ سے بھی پوری طرح ماپتے ہیں۔ انہوں نے اپنا پلان میرے سامنے رکھا تو اس کا دورانیہ دیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ میں نے کہا،
’’خدا کی پناہ! امیر زادہ! تم نے تیس سال کا پلان بنایا ہے؟ تم پینتالیس کے ہوچکے ہو۔ کیا تم تیس سال زندہ رہوگے؟‘‘
تو امیر زادہ نے نہایت سادگی سے جو کچھ کہا اُس کا مفہوم پیش کرتاہوں،
’’گزشتہ پینتالیس سال سے تمہارے جیسے کاہنوں نے ڈرا ڈرا کر مار دیا ہے کہ ’کل تو جیسے ہونی ہی نہیں‘۔ سامان سو برس کا ہے پل کی خبر نہیں، جیسے اشعار سنا سنا کر اچھے بھلے انسان سے اس کی زندگی کی سچی خوشیاں چھین لیتے ہو۔ آخرت کے لیے کچھ اعمال اکھٹے کرتے کرتے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ دنیا میں بھی ایک زندگی ہمیں دی گئی ہے۔ صرف آخرت کی زندگی ہی تو زندگی نہیں۔ یہ جو ابھی ہمارے پاس ہے۔ یہ جس کو ہم جی رہے ہیں اور محسوس کررہے ہیں اس کی بے ثباتی کی تکرار کا کیا فائدہ؟
گزشتہ پینتالیس سال سے سنتا آرہا ہوں کہ ’کل کی کوئی خبر نہیں‘۔۔۔۔۔۔یار! پینتالیس سال سے تو روزانہ ویسی ہی کل ہوجاتی ہے؟ مجھے تو ان امکانات میں سے ایک بھی سچا نہیں لگا جو پینتالیس سال سے میرے سامنے لائے جاتے رہے۔ اور لوگ مرجاتے ہونگے۔ میں تو نہیں مرا نا؟ پینتالیس سال ہوگئے۔ ابھی تک ہر روز صبح اُٹھ کر کھڑا ہوجاتاہوں۔ اگر میں صرف تمہاری منطق کو ہی لوں تو کیا پینتالیس سال کی گواہی کافی نہیں یہ دعویٰ کرنے کے لیے کہ آئندہ تیس سال بھی میں زندہ رہونگا؟ تو میں کیوں نہ اُن تیس سالوں کے لیے پہلے منصوبہ بندی کرلوں؟ سردرست تو میری آخرت یہی ہے نا؟
باقی آخرت کے لیے اس زندگی کو خراب کرنا میرے نزدیک تو اُس زندگی یعنی آخرت کو بھی خراب کرنا ہی ہے۔ تم ہر وقت ’’مرنا مرنا‘‘ لگے رہتے ہو تو تم لوگ مت بناؤ لمبے پروگرام۔ کیونکہ تم خود مرنا چاہتے ہو۔ اگر جینا چاہتے ہوتے تو اسی دنیا میں رہنے کے پروگرام بناتے۔ پہلے ایک دنیا میں رہنا تو سیکھ لو! تاکہ دوسری میں رہنے کے قابل ہوسکو!۔ اب بتاؤ! کیا میں غلط منصوبہ بنا رہا ہوں۔ میں تیس سال جیونگا۔ کیونکہ میں پینتالیس سال سے یہی سنتا آرہا ہوں کہ مر جانا ہے لیکن میں ابھی تک نہیں مرا۔ اس لیے ’کل ہو نہ ہو‘۔۔۔۔۔۔۔ جیسے محاورے تمہارے لیے ہیں۔ میری لیے تو کل ضرور ہوگی‘‘۔
میں دوسری بات نہ کرسکا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“