ایک دریافت نے اگلی کا راستہ کھولا، اگلی نے اگلی کا۔ دریافتوں سے ٹیکنالوجی بنی۔ ٹیکنالوجی نے رہن سہن کا طریقہ بدلا۔ معاشرت بدلی اور مسائل۔ یہ صنعتی انقلاب تھا۔ ان مسائل سے نئی معاشرتی کہانیوں نے جنم لیا۔ فاشزم کی کہانی، کمیونزم کی کہانی، لبرلزم کی کہانی۔ کوئی جیتی، کوئی ہاری، کچھ حصے ایک دوسرے میں ضم ہو گئے۔ بیسویں صدی کے آخر پر ایک بڑا سراب تھا۔ تاریخ کے خاتمے کا سراب۔ تاریخ لکھی جا چکی۔ ایک کہانی جیت گئی۔ لیکن دنیا کو “ختم شد” کا لفظ پسند نہیں۔ دوسری طرف دریافتوں، ٹیکنالوجی، معاشرت کی دوڑ جاری تھی۔ صنعتی انقلاب پرانا قصہ تھا۔ بڑی تبدیلیاں خاموشی سے آتی رہیں۔ سیاست کو سب سے زیادہ بدل دینے والی ایجاد انٹرنیٹ تھی۔ اس کو آنے کے لئے کسی سے پوچھنا نہیں پڑا۔ کسی پارلیمنٹ میں بحث نہیں ہوئی۔ عوام نے ووٹ نہیں دیا۔ فلسفی انتظار کر سکتا ہے، انجینئر نہیں۔ اور سرمایہ کار تو بالکل بھی نہیں۔ ہونے والی چیزیں ہوتی رہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی چھلانگ، بائیو ٹیکنالوجی کی چھلانگ نئی دنیا، نئے مسائل اور نئی کہانیاں لے کر آ رہی ہے۔
مثال کے طور پر، استحصال بیسویں صدی کے مکالموں میں استعمال ہونے والا ایک لفظ تھا۔ لیکن اس کہیں زیادہ اہم لفظ اکیسویں صدی میں “لاتعلقی” ہو گا۔ کیا ذہین ایجنٹ بڑی تعداد میں لوگوں کو غیرمتعلقہ کر دیں گے؟ پیشوں کو اور پوری قوموں کو ہی۔ ہم قصوں کو سمجھتے ہیں، قدرت کو، زندگی کو سمجھ رہے ہیں لیکن ہم خود کون ہیں۔ یہ اکیسویں صدی کے مباحث ہیں، جو سائنس، ٹیکنالوجی، معاشرت، تمدن و تہذیب کی دوڑ سے نکل رہے ہیں۔ یہ دوڑ اور سمت کسی کے اختیار میں نہیں۔
ہم میں سے ہر شخص کی اپنی ذاتی کہانیاں ہیں۔ بچے کی دیکھ بھال کرنے کی، اپنے کام پر جانے کی، بیماری سے لڑنی کی، والدین کا خیال رکھنے کی۔ روز کے ان اہم معاملات میں ہمارے پاس وقت نہیں ہوتا کہ بدلتی تاریخ کو دیکھ سکیں۔ مصروفیت میں یہ نظر نہیں آتا۔ لیکن تاریخ رعایت نہیں کرتی۔ اگر کوئی صرف اپنے بچوں کے کھانے پینے اور کپڑوں کی فکر میں ہے تو بھی نتائج سے چھوٹ نہیں ملتی اور زیادہ خطرے میں ہے۔ یہ ناانصافی ہے مگر اس دنیا میں انصاف حق نہیں۔ تاریخ سنانے والا لوگوں کو تصویر دکھا سکتا ہے تا کہ تیاری کی جا سکے۔
آج گزرے ماضی کا آخری دن ہے اور آنے والے مستقبل کا پہلا۔ یہ کل اور کل کے درمیان کا سنگم ہے۔ جو گزرا کل تھا، وہ اچھا تھا یا برا، اس میں رہا نہیں جا سکتا۔ آنے والا کل اچھا ہو گا یا برا، کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن صرف آج موقع ہے کل سے سیکھ کر کل کا مقابلہ کرنے کا۔ تاریخ میں اس سے پہلے “غیرمتعلقہ” جتنا خوفناک لفظ نہیں آیا لیکن تاریخ میں اس سے پہلے اتنی امید بھی نہیں آئی۔ ہم کس کیٹیگری میں ہوں گے؟ کونسی نئی معاشرتی کہانیاں بنیں گی۔ یہ اکیسویں صدی کے سوال ہیں۔