کل کون سی زبان قائم رہے گی، کون سے ختم ہو جاے گی، آج یہ کہنا آسان نہیں ہے۔ ایک سادہ سا اصول تو یہ ہے، کہ جو اقوام ترقی کرتی ہیں، اُن کی زبان ترقی کر جاتی ہے۔ اگر ترقی نہ کہیں، تو کَہ لیں، جو اقوام معاشی ترقی کرتی ہیں، اُن کی زبان کی ترویج ہوتی ہے۔ معاشی ترقی کیسے ہوتی ہے، یہ الگ سے مضمون بنتا ہے، مختصرا یہ کہ جو اقوام علم و ہُنر میں سائنس میں ترقی کر جائیں، ان کی معیشت مضبوط ہوتی ہے۔
زبانیں بنتی بھی ہیں، اور زبانیں ختم بھی ہو جاتی ہیں۔ اس میں فکر مندی کی کوئی بات نہیں۔ جس کی ضرورت نہ رہے، اس کے ہونے کا کیا جواز؟ اُردو زبان کے لیے خدشے کا اظہار کیا جاتا ہے، کہ یہ مستقبل قریب میں ختم ہو جاے گی، تو مجھے کبھی ایسا محسوس نہیں ہوا۔ جن کا یہ دعوا یہ ہے کہ ”اُردو زبان نہیں، ایک تہذیب کا نام ہے“، بس اُنھیں خبر دے دی جاے، کہ وہ تہذیب کب کی ختم ہوئی؛ اب محض اردو زبان باقی ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں، بل کہ کسی حد تک جنوب ایشیا میں کل ”ضرورت کی زبان“ اُردو تھی، آج بھی اردو ہی ہے، اور آنے والا کل بھی اُردو کا ہے۔
ہند و پاک سائنس اور ٹیکنالوجی میں ایسی ترقی نہیں کر رہے کہ ہم کہنے پر مجبور ہوں، کہ یہاں کی زبانیں ان اقوام کی ترقی کی بدولت باقی رہیں گی۔ اس لیے کہا جا سکتا ہے، کہ یہاں کی مقامی زبانوں کی بقا کو خطرہ ہے، لیکن اردو یا ہندی؛ در اصل یہ دونوں ایک ہی زبان کے دو نام ہیں، انھیں انگریزی زبان یا کسی اور زبان سے اس طرح کا خطرہ لاحق نہیں، جیسا بتایا جاتا ہے۔
کوئی شبہہ نہیں کہ انگریزی زبان، دُنیا کی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے، لیکن برصغیر میں طویل انگریزی راج کے باوجود، یہاں کی اقوام کے بیچ میں انگریزی رابطے کی زبان نہیں بن سکی۔ عوامی سطح پہ اُردو ہی ہے، جو مختلف اقوام کے بیچ میں ابلاغی ضرورت کو پورا کرتی آئی ہے، اور مستقبل قریب کیا مستقبل بعید میں بھی ایک یہی زبان ان کے درمیان ”رابطے کی زبان“ دکھائی دیتی ہے۔
پاکستانی ریاست نے کسی زبان کی ترقی کے لیے کوئی ”کارنامہ“ انجام نہیں دیا؛ اُردو کی بھی قطعا کوئی خدمت نہیں کی؛ اُس پہ یہ احوال کہ ایک ان پڑھ بلوچ، پختون، پنجابی، کشمیری، گلگتی، بلتی، سندھی، اردو میں اظہار کر لیتا ہے، سمجھ لیتا ہے، خواہ کتنی ہی ٹُوٹی پھُوٹی زبان بولے۔ کیا رابطے کی زبان کے طور پہ پاکستان میں انگریزی کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے، کہ دو قوم کے افراد آپس میں ابلاغ کے لیے انگریزی زبان استعمال کرتے ہوں؟ میرے مشاہدے میں ایسا نہیں ہے۔ اُردو عوام کی زبان ہے اور اُس وقت تک باقی ہے، جب تک عوام کی ضرورت پورا کرتی رہے گی۔
اب اس نکتے کی طرف آتے ہیں، جس کے لیے اتنی طویل تمہید باندھی ہے۔ لسان کو عوام برتتے ہیں، لیکن لسان کی بحث عوامی نہیں ہوتی؛ یہ لسان کے طالب علموں ہی کی بحث ہے۔ اُردو کی بابت دیکھیے، تو کس لفظ کا دُرست تلفظ کیا ہے، صحیح املا کیا ہے؛ اس طرح کا مکالمہ بھی لسان کے طالب علموں کے بیچ میں ہوتا ہے۔ شاعر ادیب جب اظہار کے لیے اس زبان کا انتخاب کرتے ہیں، تو ان پہ فرض ہے، وہ اس زبان کی صحت کا خیال رکھیں۔ غلطیاں تو سبھی کرتے ہیں، اور غلطیوں کرنے پر مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ خُوب سے خُوب تر کی تلاش ہو، تو غلطیوں کا امکان کم ہونے لگتا ہے۔ زبان کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہے۔ جو لسان کے بنیادی اصول ہی سے نا واقف ہو، یا اساتذہ کی راے نہ جانتا ہو؛ ”لفظ کی سند“ مانگنے پر جواب دے، کہ ”میں نے ایسا ہی پڑھا تھا“، کہاں پڑھا تھا، یہ بتانے سے بھی معذور ہو، یعنی وہ خود ہی اپنی ”سند“ ہے، تو بات وہیں ختم ہو جاتی ہے۔
لسان پہلے جنم لیتی ہے، اُس کی (کا) گرائمر بعد میں لکھی جاتی (لکھا جاتا) ہے۔ ظاہر سی بات ہے، جس کی جو زبان ہے، اسے اُس زبان کی (کا) گرائمر سیکھنے کی ضرورت نہیں؛ گرائمر اُن کے لیے ہے، جو اس لسان کو سیکھتے ہیں۔ رابطے کی زبان کے طور پہ تذکیر و تانیث کی غلطیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں؛ غلط تلفظ, غلط املا کی چھُوٹ دی جاتی ہے۔ یہی احوال کچھ شعبوں کا ہے۔ مثلا؛ ایک رپورٹر اندرون سندھ میں متعین ہے، وہ وہاں سے کوئی خبر رپورٹ کرتا ہے، اس کے لہجے میں سندھی کی چاشنی ہے، تو اس سے یہ مطالبہ کرنا کہ جب تک دُرست شین قاف سے اُردو نہیں بولتا، رِپورٹنگ کا اہل نہیں، تو یہ زمینی حقائق کی نفی ہوگی؛ بی بی سی اُردو کا مقامی رپورٹر آکسفورڈ کے لہجے میں رِپورٹنگ کرنے کا پابند نہیں ہوتا۔ ہاں! اُسے صحافتی ضابطوں کا پابند رہنا ہوتا ہے۔ لیکن نیوز رُوم میں بیٹھے نیوز کاسٹر سے یہ مطالبہ کرنا دُرست ہے، کہ وہ جس زبان میں خبریں پڑھتا ہے، اُس زبان کی صحت کا خیال رکھے۔
اسی طرح سوشل میڈیا پر اظہار کرنے والے کا احوال اُس رپورٹر کا سا ہے، جس کی مثال دی؛ ہر ایک پر پابندی عائد کرنا دُرست نہیں، لیکن ادب تخلیق کرنے والے، یا شاعر سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ صحت زبان کا خیال رکھے یہ جائز مطالبہ ہے۔ کیوں کہ ایک شاعر، ایک ادیب زبان کی صحت، زبان کی ترقی کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ ہیچ مدان کی راے میں، بڑی زبانیں بڑے ادب کو جنم نہیں دیتیں، بڑا ادب زبانوں کو بڑا کرتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔