(Last Updated On: )
بہو نے کوئی ایسی بات کی جس سے کاکی کو غصہ آیا، شدید غصہ، اس کا دل چاہا کہ کچھ توڑ پھوڑ دے لیکن اب تو گھر کے برتن بھی زیادہ تر وہ تھے جو بہو اپنے جہیز میں لے کر آئی تھی، انھیں بھلا کیسے توڑتی۔ آخر کچھ بن نہ پڑا تو وہ حسبِ معمول اپنے کمرے میں چلی گئی اور اپنے جہیز کے اس کھیس میں سر منہ چھپا کر لیٹ گئی جو اس کی بڑی بہن نے خاص طور پر اس کے لیے ملتان سے منگوایا تھا، یہ کسی جادو کے کھیس سے کم نہیں تھا۔ اسے اس میں اپنا پورا میکہ مجسم محسوس ہوا کرتا تھا۔
ایسی ہی ایک چھوٹی سی رنگ برنگی کھیسی اس کی ماں نے اس کی پیدائش سے پہلے اپنے ہاتھوں سے اس کی لیے بنائی تھی اور ایک عرصے تک وہ کھیسی ہی اس کی ماں کا نعم البدل رہی تھی۔ وہ اس لیے کہ ماں تو اس وقت اگلے جہان سدھار گئی تھی جب ابھی وہ صرف چند ماہ کی تھی۔ اس کے باپ اور بڑے بہن بھائیوں نے اسے بڑی محبت سے پالا پوسا تھا۔ سب ہی اس سے بہت پیار کرتے تھے۔ لیکن کاکی میں جانے کیا تھا کہ وہ ہمیشہ اپنے اندر ایک وسیع خلا محسوس کرتی، ایسا خلا جسے صرف محبت کا بے پایاں احساس بھر سکتا تھا۔ اسی لیے وہ اکثر چاہتی کہ اپنے پیاروں کے پیار کی انتہا کو دیکھے۔ وہ زود رنج تھی اور غصے کی تیز۔ غصہ اس کے حواس کو معطل کر دیا کرتا جیسے آج بہو کی کسی بات پر ۔۔۔۔
ہاں تو ۔۔۔۔ آج بھی اس نے وہی کیا جو وہ بچپن سے کرتی آ رہی تھی۔ کھیس میں اپنے سارے وجود کو چھپا کر وہ اپنے خفیہ دوا خانے میں پہنچ گئی۔ وہاں وہ نہیں اس کی میت بے حس و حرکت ایک چارپائی پر پڑی تھی اور اس کے ارد گرد اس کے پیارے اس کے لیے دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ اس کے بیٹے بیٹیاں، پوتے پوتیاں۔ اور تو اور بہو بھی۔ بچپن میں وہ اپنی سانسیں روک کر مر جایا کرتی تھی۔ بعد میں اس نے اور بھی کئی طریقے ایجاد کر لیے۔ کبھی چھت سے گر کر مرتی، کبھی زہر کھا کر اور کبھی اپنی رگ کاٹ کر، یعنی وہ قدرت کی منشا سے نہیں بلکہ اپنے مرضی سے مر جاتی، صرف یہ دیکھنے کے لیے کہ اس کے پیاروں کو اس سے کتنی محبت تھی۔ بچپن میں یہ پیارے اس کا باپ اور بہن بھائی تھے، پھر ان کی جگہ شوہر اور بچوں نے لی اور اب تو اس سے محبت کرنے والوں میں اس کی تیسری پیڑھی بھی شامل ہو گئی تھی۔ ہر بار جب وہ مرتی تو اس کے پیاروں کی محبت اسے واپس زندگی کی طرف لے آتی۔ ان کی چیخ و پکار اس کا دل دہلا دیتی، ہائے وہ سب تو اسے بے پناہ چاہتے تھے، یہ سوچ کر وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ رونے لگتی۔ کھیس اس کے آنسووں سے بھیگ جاتا۔ دل کشادہ ہو جاتا۔ اسے اب افسوس ہوتا کہ اس نے اپنے دلاروں کو ناحق اتنا دکھ دیا۔ وہ اپنی جان لینے کے مجرمانہ خیال پر اپنے رب سے بھی صدق دل سے معافی مانگتی۔ آنسو اس کی طبیعت کو ہلکا پھلکا کر دیتے۔
ہماری کاکی جسے بچپن میں پیار سے کاکی کہا جاتا تھا بعد میں یہی اس کا نام بن گیا۔ حتیٰ کہ اس کے پوتے پوتیاں بھی اسے اسی نام سے پکارا کرتے تھے۔ وہ آج بھی پیار کی پھوار میں بھیگی، اپنے آنسو پونچھ کر اس وقت تک کھیس میں چھپی بستر پر لیٹی رہے گی، جبتک کہ کوئی اسے بلانے نہیں آئے گا۔ یا تو اس کا چھوٹا پوتا اسے ڈھونڈتا ہوا اس کے کمرے میں آئے گا اور اس کے کھیس میں گھس کر اس سے لپٹ جائے گا یا پھر ہمیشہ کی طرح گھر والوں میں سے کسی کی محبت بھری آواز اسے بلائے گی: "کاکی اٹھو، کھانے کا وقت ہو گیا۔"