::: "کاجل احمد : {ان کا نام کردی تلفظ میں کژال ہے] کرد ستان کی انقلابی حسیّت اور رومانیت گریز شاعرہ " :::
کاجل احمد ۱۹۶۷ میں عراق کے متنازعہ شہر " کرکک" میں پیدا ہوئی۔ اس شہر میں کرّد آبادی کی اکثریت ہے۔ وہ شاعرہ ہونے کے علاوہ صحافی معاشرتی اور سیاسی ناقدہ بھی ہیں ۔ انھوں نے ۱۹۸۶ میں اکیس [۲۱] سال کی عمر میں شاعری کی ابتدا کی ۔ ۱۹۹۲ میں صحافت کا پیشہ اختیار کیا۔ وہ ایک جریدے" کردستّانی نو" کی مدیرہ ہیں۔ کاجل احمد ٹیلی وژن کے ایک معروف شو " کردّ اسٹا" کی میزبانی بھی کرتی ہیں۔ وہ جرائد میں معاشرتی اور سیاسی موضوعات پر لکھتی ہیں۔ ان کی تحریریں اور تجزیات بڑے بے باک اور منطقی ہوتے ہیں۔ ان کواکثر مذھبی انتہا پسند تنظیموں کی طرف سے موت کی دھمکیان ملتی رہتی ہیں۔ ان کی شاعری میں احتجاجی مزاحمت، کے علاوہ قنوطیت، گریزیت، انحراف، زندگی کی لایعنیت، محبت کی مشکوکیت اورانسانی رشتوں سے بیزاری نمایاں ہے۔ ا کاجل احمد بنیادی طورپر ایک "کرّد قوم ہرست شاعرہ" ہیں ن کی شاعری عربی، فارسی، ناروجین، اور ا انگریزی میں درّیا علی، نیورن ناہارو اورلیوں سن لا بروس نے ترجمہ کیا ہے۔
ان کی کتابیں چار[۴] چھپ چکی ہیں۔
Benderî Bermoda, 1999.
Wutekanî Wutin,1999.
Qaweyek le gel ev da, 2001.
Awênem şikand, 2004
کاجل احمد آج کل " سلیمانیہ" میں قیام پذیر ہیں۔
۔۔*۔*۔*۔**۔*۔*۔*۔
*** " جہاں میں شہید ہوئی" ***
–۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔-۔–
شاعرہ : کاجل احمد [کّردستان]
تعارف اور ترجمہ : احمد سہیل
مجھے کوئی پھول نہیں چاہیے
یونین [مرکز] سے دور
یونین شکنی کا کوئی طلوع فجر
مجھے پھول نہیں چاہے
اس لیے کہ میں ایک " گل محبت " ہوں
مجھے کوئی چومنا نہیں چاھتا
میری سچی " کلائی" کے لیے
میں کچھ دلیر ہوجاتی ہوں
شادی کا کوئی زمانہ نہیں ہوتا
طلاق کو زوال نہیں
کسی بیوہ کا مزار
میں بوسے لینا نہیں چاھتی
اگر میں محبت کے ساتھ تہنا ہوں، تو میں شہید بن جاوں گی
مجھے آنسو نہیں چاہیے
میری لاش کے تابوت پر
میں چیری کے درختوں کی ہمدردی نہیں چاھتی
مجھے میری قبر کی دیوار پر گھسیٹنا
نہ کوئی پھول نہ کوئی بوسے
کوئی آنسو یا مصائب
کچھ بھی نہیں
کچھ بھی نہ رکھو
میں ایک آواز کے بغیر اور ایک پرچم کے بغیر مر جاتی ہوں
میں شکر گزار ہوں
میں کچھ نہیں چاھتی
میں کچھ قبول نہیں کروں گی
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔