تکلیف دہ واقعہ کہیں کسی کے ساتھ بھی ہو اسے تسکین آور قرار نہیں دیا جا سکتا مگر حقیقت میں ایسا ہے کہ جو بات بہت سوں کے لیے تکلیف دہ ہو وہ بہت سارے دوسروں کے لیے اگر تسکین آور نہ بھی ہو تو اطمینان بخش ضرور ہوتی ہے۔ ہزاروں ریڈ انڈینز سے پوچھ لو وہ ماضی کو تکلیف دہ بتائیں گے مگر سفید فام امریکیوں میں آج بھی لاکھوں ہونگے جن کے نزدیک ریڈ انڈینز کا صفایا کیا جانا اگر تسکین آور یا اطمینان بخش نہ تھا تو وہ اسے اس وقت کی ضرورت ضرور قرار دیں گے۔
تسکین پانے والوں کو اذیت پسند تو کہا ہی جا سکتا ہے لیکن اس واقعے کے ضمن میں جسے بہت سے مذموم مانتے ہوں ان کو بایقین، نظریے پر کاربند یا باعقیدہ بھی خیال کیا جاتا ہے، مطمئن ہونے والوں کو آپ چاہے کٹھور کہہ لیں لیکن وہ اپنی سوچ کی سی نہج رکھنے والوں کے اخلاقی طور پر ساتھی ہوتے ہیں اور ایسے مذموم واقعہ یا واقعات کو وقت کی ضرورت قرار دینے والے جواز گر ہوتے ہیں جنہیں انگریزی زبان میں Apologists کہا جانے لگا ہے۔ افراد کی یہ تینوں اقسام ایک ہی ہجوم کا حصہ ہیں۔ ہجوم میں صف بندی نہیں ہوتی چنانچہ ان کے مقام اور انداز بدلتے رہتے ہیں۔
میں چند بار لکھ چکا ہوں کہ مجھے سفاکی کی نفسیات سمجھ نہیں اتی جس کے لیے میں نے بارہا مختلف طرح کے ماہرین سے رجوع کیا۔ ان ماہرین میں ماہرین عمرانیات، پولیس کے اعلٰی تفتیش کار، ماہرین نفسیات اور دیگر شامل رہے۔ سفاکی کی کھوج دہشت گردی کے پروان چڑھنے کے بعد شروع نہیں ہوئی تھی بلکہ بہت پہلے جب اخبارات میں پڑھنے کو ملتا تھا، "قاتلوں نے لاش کے گرد بھنگڑا ڈالا" یا " لاش کو گھسیٹتے پھرے" اور اسی قبیل کی دوسری سرخیاں۔ سماجی علوم کے طالب علم کے طور پر اس بارے میں جاننے کی جستجو ہوئی تھی۔ کچھ نے کہا کہ یہ نفرت کی انتہا ہوتی ہے۔ کچھ نے کہا مخالف گروہ کو خوفزدہ کرنے کا طریقہ، کچھ نے اسے حیوانی جبلت کہہ کر جان چھڑائی، کچھ نے اس کی وجہ جہل بتائی غرض کوئی ایک خاص وجہ نہیں تھی۔ بعض اوقات بہت پڑھے لکھے بھی بہت سفاک ہوتے ہیں۔ سی ایس ایس کرکے ایس پی ڈی آئی جی بننے والے ہی تو پولیس مقابلے کی زبانی اجازت دیتے ہیں۔ حیوانی جبلت ہے تو سبھی سفاک کیوں نہیں ہوتے؟
قدیم عربوں میں لاش کو مسخ کرنے کا ایک رواج ہوا کرتا تھا جسے "مسلہ کرنا" کہا جاتا تھا۔ اس عمل میں لاش کے ابھرے ہوئے اعضاء جیسے ناک، کان، ہونٹ، عضو تناسل کاٹ دیے جاتے تھے۔ اس کا مقصد اپنی قدرت کا اظہار اور مارے جانے والوں کے اقرباء کو انتہائی اذیت دینا ہوتا تھا۔ جب حضور کے چچا اور دوست حضرت حمزہ کا "مسلہ" کیا گیا تب حضور نے مسلہ کیا جانا منع کر دیا تھا۔ اس سے پہلے تک ایسا کیے جانے کی مناہی نہیں تھی تاہم عربوں کا ایک قابل مذمت عمل روک دیا گیا تھا اگرچہ بہت بعد میں اسلام کے داعی طالبان نے افغانستان کے صدر ڈاکٹر نجیب کے ساتھ ایسا ہی کیا تھا۔
جب ہجوم کسی ایک شخص یا کئی اشخاص کو تشدد کر کے ہلاک کر دے اسے انگریزی زبان میں Lynching کہا جاتا ہے۔ Lynching کا ایک واقعہ چند برس پہلے سیالکوٹ میں ہوا تھا جب دو بھائیوں کو ڈاکو قرار دے کر ڈنڈے مار مار کر جان سے مار دیا گیا تھا۔ پھر ان کی لاشوں کو شہر میں گھمایا گیاتھا اور بعد میں لاشیں کھمبے سے الٹی ٹانگ دی گئی تھیں۔
کسی کو مجرم جان کر یا نسل اور رنگ کی بنیاد پر Lynching کے واقعات لاتعداد ہیں البتہ مذہب کے نام پر Lynching کا عمل چند برس پہلے سے ہی دیکھنے میں آنے لگا ہے جس پر ہمارے دوست جلیل لاشاری کا شعر:
جانے کب کون کسے مار دے کافر کہہ کر
شہر کا شہر مسلمان ہوا پھرتا ہے
زبان زد عام ہوا ۔ متلاشی تو اس شعر کے دوسرے مصرعے کو بھی متنازعہ بنا سکتے ہیں کہ ہم تو ہیں ہی مسلمان یہ ہوا پھرنا کیا ہوا؟ جی ہاں شاعر کی مراد ہی یہ ہے کہ مسلمان ہونا اور بات ہے اور مسلمان ہوئے پھرنا اور بات۔
مذہب اسلام پر اس انداز میں کاربند لوگوں نے ہی چند روز پہلے ایک طالبعلم کو پہلے گولیاں مار کر قتل کیا پھر اس کی لاش برہنہ کرکے لاش کی توہیں کی۔ ہم پھر آتے ہیں تسکین، اطمینان اور امر ضرورت کی جانب۔ فوری طور پر ( ممکن ہے عارضی ہی ہو) تسکین انہیں ملی جنہوں نے اسے قتل کیا۔ اطمینان انہیں ہوا جو یہ جان لینے کے بعد کہ وہ مر چکا ہے، بڑھ بڑھ کے اس کی لاش کی توہین کر رہے تھے۔ لاش کا سر کچلنے کو اینٹوں اور پتھروں کا استعمال کر رہے تھے۔ باقی سارا ہجوم جو پیچے تھا وہ اسے ضرورت قرار دینے والا تھا جسے وہ تب شاید "فرض" ہی قرار دے رہے ہونگے۔
مذہب کے نام پر Lynching کے واقعات وہاں ہوتے ہیں جہاں حکومت یا تو ہو ہی نہ یا ازحد کمزور ہو۔ ایسی حکومت قانون پر عمل درآمد کروانے سے عاری ہوتی ہے۔ یہ واقعہ اس حقیقت کی بین مثال تھا جہاں پہلے سے موجود پولیس کے دستے نے یہ کہہ کر نظریں چرائیں کہ ہجوم میں شامل لوگوں کی تعداد ان کی نفری سے کہیں زیادہ تھی۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ نے یہ کہہ کر نگاہیں چرائیں کہ مرنے والا اور زخمی ہونے والے تھے ہی توہین مذہب کرنے والے یعنی ان کے خیال میں ہجوم کو حق تھا کہ جس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ اسی لیے کوئی استاد اس قبیہہ عمل کو روکنے کے لیے آگے نہیں بڑھا۔ مگر میں آنکھیں کیسے چراؤں؟ اس بات سے کہ حکومت کس قدر بے بس ہے یا کس قدر بے بس ہونے کا کھیل کھیل رہی ہے۔ اور تو اور یہ کہ پکڑے جانے والوں میں یونیورسٹی کے اہلکاروں کے ہونے کے باوجود جوڈیشل کمیٹی بنا دی گئی ہے جسے "مٹی پاؤ کمیٹی" کہا جانے لگا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“