ہجر زدہ گھر میں بیٹھا روز تجھے یاد کرتا ہوں۔
بے رونق مکان کی خستہ دیواروں کو تکتا ہوں۔
اداسیوں سے ہم کلام ہوتا ہوں۔
مسلسل فراق سے گبھرا کے جینے کا حوصلہ ڈھونڈتا ہوں۔
پھر تجھے سوچتا ہوں۔
زندگی کے وہ سہانے پل جو تیرے وجود سے معطر تھے، جو تیری دید سے روشن تھے،
ان کو سوچتا ہوں تو ان سے وابستہ ساری خوبصورت اور حسین یادیں چبھن اور تکلیف دیتی ہیں۔
اداس گھر کا نوحہ سماعتوں میں تپش گھولتا ہے، تیری دید سے محروم آنکھیں درد سے دُکھتی رہتی ہیں اور پرسکون نیند کو ترستی ہیں۔ کیونکہ میرا سارا سکون اور چین تو تمہارے ساتھ ہی رخصت ہو چکا ہے۔
یہ حقیقت اپنی جگہ اٹل ہے کہ تم اب کبھی لوٹ کر نہیں آؤ گی لیکن اس دل کا کیجئے جو خیال کرتا ہے کہ اگر تو اچانک کہیں سے آ جائے تو کیسا منظر ہو گا۔
اک تیرے آنے سے میرے سوئے بھاگ کھل جائیں گے۔
جب تیرا عکس میری آنکھوں میں اترے گا۔
اور میں کانپتے ہاتھوں سے تمہیں چھو کے دیکھوں گا تو اس عظیم لمحے پر مین اپنی کل کائنات کی خوشیاں وار دوں گا۔
اک تیرے آنے سے پت جھڑ میں بہار آجائے گی۔
دور کہیں کسی مندر کی گھنٹی بجے گی۔
تیرے پیر جیسے ہی میرے گھر کی اداس اور ویران زمین کو چھوئیں گے تو اوپر آسمان پہ قوس قزح جگمگا اٹھے گی اور تیری ہنسی سے میرا سونا آنگن کھلکھلا اٹھے گا۔
تیرے آتے ہی پرندے طربیہ گیت گائیں گے، پیڑ جھومنے لگیں گے اور گلاب سر دھنیں گے۔
آہ مگر میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے۔
ہجر زدہ گھر میں بیٹھا روز تجھے یاد کرتا ہوں۔
اسی گھر میں بیٹھا، وحشتوں سے لڑتا میں، دل پہ ہاتھ رکھے بھیگی آنکھوں سے ابھی بھی سوچ رہا ہوں کہ کیسا منظر ہو گر تو آئے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...