تاریخ اور فوسلز کے ریکارڈ سے آج ہم جانتے ہیں کہ زمین پر آخری برفانی دور یعنی آئس ایج تقریباً 12 ہزار سال پہلے ختم ہوا۔ ہوا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کے بڑھنے اور درجہ حرارت کے موافق ہونے سے کئی اناج کے پودے جیسے کہ گندم وغیرہ کے اگنے میں مدد ملی۔ تب ہی انسان نے کھیتی باڑی شروع کی۔ مشرقِ وسطیٰ میں دجلہ و فرات کی تہذیبوں نے جنم لیا۔ برِ صغیر میں سندھو تہذیب نے۔
دریا کنارے زمینیں زرخیز تھیں۔ تمام انسانی تہذیبوں کم و بیش دریاؤں کے پاس بسیں۔ کھیتی باڑی سے انسان کو شکار سے وقت بچا۔ خوراک کو ذخیرہ کرنے سے آبادی بڑھی, تہذیبوں نے جنم لیا اور کائنات اور زمین کو سمجھنے کا موقع ملا۔
پرانے دور میں ٹیلیوژن، انٹرنیٹ ، موبائل فون تو تھے نہیں کہ وقت گزاری کی جاتی اور نہ ہی بجلی۔ جب وقت گزارنے کو کچھ نہ ہو تو وقت آہستہ سے گزرتے محسوس ہوتا ہے۔ آج کے دور میں وقت تیز نہیں ہوا۔ وقت گزاری کے ذرائع بڑھ گئے ہیں۔ تو پرانے دور کے لوگ کیا کرتے تھے ؟
آسمانوں کو تکتے۔ آسمان پر ستاروں اور سیاروں کی چالیں دیکھتے۔ ستاروں سے راہیں تلاش کرتے۔ قصے اور کہانیاں بناتے جن سے اپنی دانست میں وہ کائنات کو سمجھنے کی کوشش کرتے۔
آج سے قریب پانچ ہزار سال پہلے انسان نے لکھنا شروع کیا۔ لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ جوں جوں انسانی ابادی بڑھی، تجارت کے راستے کھلے تو زبانی کلامی کاروبار کرنا مشکل ہوتا گیا۔ قدیم کتبے اُتھائیں تو سومیرین کتبوں پر بھیڑ بکریوں کا حساب رکھتے انکی تصویرں یا نشانیاں بنانے کے کتبے ملیں گے مگر آہستہ آہستہ کھنے کا عمل پیچیدہ اور دلچسپ ہوتا گیا۔
پرانے زمانے میں اور اب بھی “لکھے ہوئے” کی اہمیت بتدریج قائم ہے۔ اگر آپ نے غور کیا ہو تو زیادہ تر اہم تہذیبں زمین کے شمالی کرے پر ہیں۔ وجہ یہ نہیں کہ یہ تہذیبں بہت خاص تھیں، وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ہی سب سے پہلے لکھنا شروع کیا اور یہ ہی زیادہ تر زمینی راستوں سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔ لہذا انہی تہذیبوں کے تصورات آج بھی ہم میں پائے جاتے ہیں۔ چاہے وہ انسان کے متعلق ہوں یا کائنات کے متعلق ۔ انہی تصورات میں بابل و نینوا کے فلکیات کے تصورات بھی شامل ہیں۔۔قدیم بابل کے لوگ جو پانچ ہزار سال سے بھی پہلے کے تھے، کے مطابق زمین کائنات کا مرکز تھی۔ تمام اجرام اور ستارے اسکے گرد گھومتے۔ بابل اور نینوا کے لوگوں کے لیے زمین کے اوپر سات گنبد نما آسمان تھے۔ ہر آسمان ایک راستہ تھا اُن سات اجرام کا جو سارا سال آسمان میں باقی ستاروں کی نسبت اپنی جگہ بدلتے۔ ان میں سے دو تو سورج اور چاند تھے۔ باقی پانچ دراصل نظامِ شمسی کے آنکھ سے دکھتے سیارے تھے۔ جن میں عطارد، زہرہ، مشتری، مریخ اور زحل شامل تھے۔ ان لوگوں کے نزدیک ان میں سے ہر ایک کا اپنا آسمان تھا جس پر وہ چلتا تھا۔ بابل اور نینوا سے یہ تصورات کئی تہذیبوں مں کئی اشکال میں سرایت کر گئے اور آج بھی مختلف انسانی تہذیبوں میں موجود ہیں۔ مثال کے طور پر ہفتے کے سات دن انہیں سات اجرام کے نام سے منسوب ہیں۔ سنڈے یعنی اتوار سورج کا دن۔۔مون ڈے یعنی سوموار مون یا چاند کا دن۔۔سیچرڈے یعنی ہفتہ سیٹرن یعنی زحل کا دن وغیرہ وغیرہ ۔
قدیم دور سے انسان آسمانوں کی سمت دیکھ کر کائنات کو سمجھنے کی کوشش میں لگا رہا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ کائنات کو سمجھ کر ہی وہ خود کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہے مگر اسکے لئے ضروری ہے کہ عقل و شعور کے راستوں پر کسی بچے کیطرح کائنات سے سوال کرے۔ کائنات ضرور جواب دے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...