ہم جانتے ہیں کہ زندگی کے لئے پانی کس قدر ضروری ہے۔ زمین پر زندگی کی ابتدا سمندروں میں ہوئی۔ آج سے 3.8 ارب سال قبل، زمین پر پہلے خلیے بنے جو خود کو تقسیم کر سکتے تھے۔ انہی سے آگے چل کر زندگی پھیلی اور ارتقاء سے مختلف انواع کے جاندار نمودار ہوئے جن میں ایک حضرتِ انساں تھا۔
وہ زندگی جسے ہم جانتے ہیں اسکے لئے تین بنیادی شرائط ہونا ضروری ہیں۔
1. پانی
2. زندگی کے ضروری اجزا (کاربن، نائیٹروجن ، ہائیڈروجن، آکسیجن وغیرہ)
3. توانائی
زمین پر یہ تینوں موجود ہیں۔ سورج کی روشنی کم و بیش تمام زندگی کو توانائی مہیا کرتی ہے۔ سمندر پانی سے بھرے ہیں اور ہوا اور مٹی میں تمام اجزائے زندگی موجود ہیں۔ مگر کیا زندگی محض زمین پر ہے اور کیا یہ محض ایک اتفاق ہے؟
آج ہم دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش میں ہیں۔ اعتراض کرنے والے یہ کہتے ہیں کہ اگر دوسرے سیاروں پر زندگی مل بھی گئی تو کیا فرق پڑے گا؟
تو فرق یہ پڑے گا کہ ہم جان جائیں گے کہ کائنات میں ہم اکیلے نہیں ہیں۔زندگی یہاں عام ہے اور ہم زیادہ بہتر طور پر کائنات میں عقل رکھنے والی دیگر مخلوقات کو ڈھونڈ اور اُن سے رابطہ کر سکیں گے۔ ہم جان سکیں گے کہ ہم زمین کے علاوہ بھی کہیں رہ سکتے ہیں اور نسلِ انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مٹنے سے بچا سکیں گے۔ سائنس کیا ہماری پوری زندگی لاشعوری طور پر موت کے خلاف مزاحمت کا نام نہیں ہے؟ بقا کی کوشش انسان کی سرشت میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آج اتنی ترقی کر رہے ہیں۔
مگر دوسرے سیاروں پر زندگی کیسی ہو گی؟
آج ہم جانتے ہیں کہ نظامِ شمسی کے کسی سیارے یا چاند پر کوئی مخلوق ایسی نہیں بستی جو انسانوں جیسی ہو مگر ہم یہ نہیں جانتے کہ ان سیاروں پر کوئی بنیادی زندگی کی صورتیں جیسے کہ مائکروبس یا بیکٹیریا یا وائرس موجود ہیں؟
مریخ اور مشتری کا چاند یوروپا زندگی کی تلاش کے لیے موضوع جگہ ہیں۔ مریخ اس لیے کہ اسکے مشاہدے سے معلوم ہوتا ہے کہ آج سے اربوں سال پہلے یہاں سمندر تھے۔ یہاں کی فضا کثیف تھی، اسکے گرد مقناطیسی حصار تھا اور ممکن ہے یہاں زندگی پنپتی ہو ۔ اگر ایسا ہے تو یہ ممکنات میں سے ہے کہ مریخ پر مائیکروب کی صورت زندگی اب بھی موجود ہو۔
اسی طرح مشتری کا چاند یوروپا جہاں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ سطح پر پانی کی برف اور اسکے نیچے بہت بڑے سمندر ہیں۔ یہاں بھی زندگی ممکن ہے اور اسکے لئے ناسا 2024 میں Clipper نامی سپیس کرافٹ بھیجے گا جو کئی دفعہ اسکے قریب سے گزر کر اسکی فضا اور سطح پر مختلف سائنسی آلات می مدد سے زندگی کے آثار ڈھونڈے گا۔
انسان کو خلا میں گئے ایک صدی سے بھی کم عرصہ ہوا ہے اور کائنات بے حد وسیع ہے۔ اس میں اتنے کم عرصے میں محدود زمینی وسائل کے ساتھ زندگی کو ڈھونڈنا ایک مشکل عمل ہے۔ اور اس بات میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ شاید ہمیں زمین کے علاوہ زندگی ڈھونڈنے میں کئی سال یا صدیاں لگیں۔ مگر یہ امکان ہر صورت موجود ہے کہ کائنات اور ہماری کہکشاں ملکی وے میں کہیں نہ کہیں زندگی کسی صورت ضرور موجود ہو گی۔۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔