Dust is the Most important Stuff in the UNIVERSE۔۔۔
یہ مشہور کائناتی فن فیکٹ (Fun Fact) جسے 1980 کی دہائی کے کوسمک آئیکن کارل سیگن نے اور پھر اس کے جانشین کہلانے کے قابل نیل ڈی گراس ٹائسن نے دنیا کے سامنے پیش کیا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے جسم میں موجود زیادہ تر عناصر۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہوا(جو ہماری سانسوں کی دھونکنی کو سرگرم رکھتی ہے),,, ہمارے پاؤں کے نیچے چٹانی سیارہ زمین کی سطح اور پانی (ہائیڈروجن کے علاوہ) کسی نہ کسی ستارے کے اندر ہی پک کر تیار ہوئے۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔
سب سے پہلے ستاروں کے کائناتی اُفق پر اُبھرنے سے پہلے کائنات میں زیادہ تر ہائیڈروجن، تھوڑی سی ہیلیم اور بہت ہو کم مقدار میں لیتھیم موجود تھی اور کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔۔
اور موجودہ تمام عناصر جیسے اکسیجن، کاربن نائٹروجن، سلکان اور آئرن وغیرہ،
ستاروں کی پیدائش کے بعد تھرمو نیوکلیئر ری ایکشن کے ذریعے سورج اور دیگر لاکھوں کروڑوں ستاروں کے اندر وجود میں آئے اور خلا میں بکھرے۔۔۔
یہی عناصر زندگی کے بنیادی ستون ہیں
زندگی کی شروعات کے یہ اولین مراحل تھے جو اربوں سال قبل ابتدائی کائنات میں شروع ہوئے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک اور حیران کن بات یہ ہے کہ ایسے عوامل اب بھی جاری ہیں۔۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ بھی کسی نئی مخلوق کی تخلیق کے اولین اور پیچیدہ مراحل ہیں؟؟؟
ماہرین کو ان عوامل کے مشاہداتی ثبوت
ملکی وے سے باہر موجود ایک خوبصورت بادل لارج میجلینک کلاؤڈ (جو در اصل ملکی وے کی ایک سیٹلائٹ کہکشاں ہے) کے اندر ملے ہیں۔۔۔۔
یہ ایک سپرنووا ہو کر بکھرنے والا ستارہ تھا
جسے سپرنووا A1987 کا نام دیا گیا ہے۔۔۔
اس مردہ ستارے کی باقیات کے مشاہدات ماہرین کو کائنات میں زندگی کے شروعاتی مراحل و عوامل کی ایک نادر جھلک دے رہے ہیں کہ یہ عوامل کیسے شروع ہوتے ہیں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شمالی چلی کے ایک اونچے صحرا اٹاکاما میں واقع اٹاکاما لارج ملی میٹر_سب ملی میٹر ارے ٹیلیسکوپ(ALMA) کے ملٹی اینٹیناز کا استعمال کرتے ہوئے ماہرین نے اس ستارہ کے شدید دھماکے سے بلاسٹ ہونے کے بعد اس سے بکھرنے والی اور وقت کے ساتھ ٹھنڈی ہوجانے والی دھول کے منجمد بادلوں کی تصویر کشی کی ہے
اس کائناتی دھماکہ کو 1987 میں دیکھا گیا تھا۔۔۔
ننگی آنکھ سے نظر آنے والا یہ سپرنووا ایک دہائی سے کچھ کم عرصہ پر محیط رہا۔۔۔
ماہرین نے ہر قسم کی دوربینوں کو اس مرتے والے ستارے پر فوکس کیا
انہوں نے دیکھا کہ دھماکے کے بعد کی انتہائی تیز چمک دھندلی ہونا شروع ہوئی اور دھماکے کے مرکز سے اٹھنے والی شاک ویوز ستارے کے اردگرد ہر طرف پھیل گئیں۔۔
جب یہ شاک ویوز پوری توانائی کے ساتھ آنجہانی ستارے کے گرد موجود گیسوں اور دھول سے ٹکرائیں تو ایک جھماکا ہوا اور تیز ترین روشنی کا ایک دائرہ بن گیا
ماہرین نے اس دھول کے اندر دیکھنا جاری رکھا وُہ توقع کرتے ہیں کہ سپرنووا کا ٹھنڈا اور گھنا(ڈینس) ہوتا ہوا بہت سا مواد کاربن مونو آکسائیڈ اور سلکان مونو آکسائیڈ جیسے مرکبات (کمپاؤنڈز) میں تبدیل ہوجائے گا
پھر یہ مواد ( مرکبات سمیت) دھول اور گیسوں کے ان بادلوں میں مل جائے گا جو اس سپرنووا سے بہت پہلے مرنے والے ستاروں کی وجہ سے بنے تھے۔۔۔
پھر (لاکھوں کروڑوں یا شاید اربوں سال بعد) یہ بادل ٹوٹ کر (کولیپس ہو کر) نئے ستاروں، سیاروں کی تشکیل کریں گے اور شاید یہ نئی مخلوقات کی تخلیق کے اولین مراحل بھی ثابت ہوں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کائنات کے یہ دلچسپ اور محیر العقول حقائق اپنی جگہ مگر دھول کے اس بادل کی دریافت بہت سے کائناتی اسرار سے بھی پردہ اٹھاتی ہے، اور بہت سی الجھنوں کو بھی سلجھاتی ہے۔۔۔۔
اکثر کہکشائیں ایسی ہی دھول سے اٹی پڑی ہیں ۔۔۔۔کہکشاؤں کے اس گرد آلود ماحول کو دیکھ کر ماہرین مفروضہ پیش کرتے تھے کہ اس دھول کے بننے اور بکھرنے کا سبب سپرنووا دھماکے ہیں۔۔۔۔
اور سپرنووا A1987کے مشاہدات کے بعد
ماہرین کے ایک مفروضے کو حقیقت کا روپ ملا ہے۔۔۔۔
یونیورسٹی کالج لندن کے میکاکو ماتسورا نے اپنے ایک بیان میں کہا
کہکشائیں ناقابل یقین حد تک دھول سے بھری ہوئی ہیں اور یہ دھول کہکشاؤں کے ارتقاء میں نہایت اہم کردار نبھاتی ہے۔۔۔ آج ہم دیکھتے ہیں کہ دھول کئی طرح سے بنتی ہے ، لیکن ابتدائی کائنات میں یہ زیادہ تر سپرنووا کے باعث بنی اور بکھری تھی۔۔ کیونکہ ہمارے پاس اس نظریے کے براہ راست ثبوت موجود ہیں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
تصویر:
سپر نووا A1987 کی ایک تخیلاتی تصویر
ستارے کی باقیات کے ٹھنڈے اندرونی علاقے (جنہیں سرخ رنگ سے ظاہر کیا گیا ہے) جہاں دھول کی زبردست مقدار پائی گئی ہے
تصویر کشی ALMA کے ڈیٹا کو مد نظر رکھ کر کی گئی ہے۔۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...