تصور کرتے ہیں کہ ایک گہرے سمندر کی تہہ میں رہنے کچھ ذہین مچھلیاں سائنس پڑھ رہی ہیں۔ اپنے ارد گرد کے پانی کی ہر وقت موجودگی سے ناواقف وہ یہی سمجھتی ہیں کہ بس حقیقت ایسی ہی ہے اور اس سمندر کے پانی کو وہ خلا کہتی ہیں۔ لیکن ترقی کرتے ساتھ ساتھ انہیں پتا لگتا ہے کہ یہ پانی اسی طرح ایک میٹیرئیل ہے جیسے دوسرے چیزیں۔ ان میں سے ایک آئن سٹائن مچھلی یہ دریافت کرتی ہے کہ انہوں نے جو حرکت کے قوانین ابھی تک پڑھے ہیں، وہ پیچیدہ اس وجہ سے ہیں کہ وہ جسے خلا سمجھتی ہیں، وہ ایک ایسا میٹیرئیل ہے جو حالت بدل سکتا ہے، ابل سکتا ہے، جم سکتا ہے۔ اس پانی کو ٹھیک سے سمجھ کر وہ مچھلیاں اپنے گرد پائی جانے والی حقیقت کو بہت بہتر سمجھ سکتی ہیں۔
ہم بھی انہی مچھلیوں کی طرح ہیں۔
آئن سٹائن نے 1905 میں فوٹون کا تصور دیا جو شروع میں متنازعہ رہا لیکن اب فزکس کا بنیادی حصہ ہے۔ اس کے بعد آئن سٹائن نے 1907 میں ایک اور تصور دیا جو اتنا مشہور نہیں اور وہ فونون کا تھا۔ فونون کواسی پارٹیکل ہے جو کرسٹل میں وائبریشن کی اکائی ہے۔ روشنی خلا میں الیکٹرومیگنیٹک ڈسٹربنس ہے، جبکہ فونون ایک ٹھوس چیز جیسا کہ سلیکون میں۔ اس میں دلچسپ چیز یہ ہے آئن سٹائن نے اندازہ لگایا کہ خلا میں فوٹون اور ٹھوس چیز میں فونون کے اصولوں میں کوئی فرق نہیں۔ دونوں ہی ڈسکریٹ یونٹ اور پارٹیکل ہیں۔ اگر کوئی ذہین مخلوق سلیکون میں رہ رہی ہوتی تو وہ اس سلیکون کو خلا سمجھتی اور فونون کو بنیادی پارٹیکل جیسے ہم فوٹون کو سمجھتے ہیں۔ ہم اس ذہین (یا بے وقوف) مخلوق کو اگر یہ بتائیں کہ وہ جسے خالی سپیس سمجھ رہے ہیں، وہ سلیکون ہے تو وہ شاید ہنس کر ٹال دیں۔
ہم بھی اسی سلیکون میں رہنے والی فرضی مخلوق کی طرح ہیں۔
ہماری حسیات حقیقت کا صرف ایک چھوٹا حصہ دیکھ سکتی ہیں مگر جدید فزکس میں ہم سائنسی آلات اور تجربات سے اس کی ہیئت کو سمجھتے جا رہے ہیں۔ اسے زیرو پوائنٹ ماس کہیں، ورچوئل پارٹیکلز کا بننا ٹوٹنا کہیں یا کوانٹم فلکچوئیشن، خلا خود ایک میٹیرئیل ہے۔ خلا کی شکل پوسٹ کی پہلی تصویر کے رنگین ڈبے جیسی ہے۔ ہماری تمام کیلکولیشنز ہمیں اب خلا کی ایسی ہی تصویر دیتی ہیں۔ اس میں زیادہ روشن رنگ وہ جہاں انرجی ڈینسٹی زیادہ اور مدھم وہ جہاں انرجی ڈینسٹی کم ہے۔ اس میں ہونے والی فلکچوئیشنز ہر وقت اور ہر جگہ پر ہیں، میرے اور آپ کے اندر بھی اور وہ پارٹیکلز جس سے میں اور آپ بنے ہیں، وہ صرف اس کے اندر ہونے والی ڈسٹربنس ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ ان مسلسل ہوتی فلکچوئشن کی اوسط سے جو بچ جاتا ہے، وہ پارٹیکل ہے اور انہی سے پھر میں اور آپ بھی بنے ہیں۔ اس کی تصویر پوسٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر۔ تمام پارٹیکل اسی طرح ان فلکچوئیشنز میں ڈسٹربنس ہیں۔
اگر اسے پڑھ کر ذہن میں میکسول کے بتائے گئے ایتھر کا تصور آ رہا ہے تو ہاں، یہ ویسا ہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے جدید فزکس کا ایتھر نیوٹونین مکینکس کے بجائے ریلیٹویٹی کے قوانین پر ہے۔
سپیس ٹائم کی بہت سی خصوصیات ہیں جو میٹیرئیل کی خصوصیات سمجھی جاتی ہیں۔ یہ وزن رکھتی ہے، مڑ سکتی ہے، اس میں شکنیں بن سکتی ہیں۔ اس کا وزن اس کی توانائی کی کثافت ہے جس کی کچھ برس پہلے پیمائش کی گئی۔ جنرل تھیوری آف ریلیٹیوٹی کے مطابق یہ مڑ سکتی ہے۔ گریویٹیشنل لہریں اس پر پڑنے والی شکنیں ہیں۔
لیکن اس میں اور بھی کچھ موجود ہے۔ کوانٹم کروموڈائنمکس کے حساب سے اس میں کوارکس اور اینٹی کوارکس کے جوڑوں کا ملغوبہ یا کنڈنسیٹ بھرا ہوا ہے جیسا کہ تیسری تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ یہ پائی میزونز سے بنا سپرکنڈکٹر ہے جو اپنی حالت بھی توانائی کی مختلف حالتوں میں بدل لیتا ہے۔
اس میں پھر ایک اور چیز بھی موجود ہے جو ہگز کنڈنسیٹ ہے۔
ساتھ لگی چوتھی تصویر میں وہ ٹیبل ہے جو یہ بتاتا ہے کہ توانائی کے وہ کونسے لیول ہیں جہاں پر مختلف میٹیرئیل اپنی حالت تبدیل کرتے ہیں۔ کوارک اینٹی کوارک کنڈنسیٹ ایک درجہ حرارت پر اپنی حالت بدل لے گا اور ہگز فیلڈ ایک اور توانائی کے لیول پر۔
کائنات کی ابتدا میں بگ بینگ کے بعد جب درجہ حرارت ان سے زیادہ تھے تو کیو کیو بار کنڈنسیٹ اور ہگز کنڈنسیٹ دونوں مختلف حالتوں میں تھے، جس کی وجہ سے اس وقت تمام ذرات مختلف حالتوں میں تھے۔
جس طرح پانی مختلف درجہ حرارت پر حالت بدل لیتا ہے اور برف یا بھاپ میں بدل جاتا ہے، ویسے ہی خلا بھی مختلف درجہ حرارت پر مختلف حالتیں رکھتی ہے۔ خلا کی اس سمجھ سے ہمیں کاسمولوجی میں بھی نئے آئیڈیا ملے۔ خلا منفی پریشر ڈالتی ہے یعنی کہا جا سکتا ہے کہ پھیلنا چاہتی ہے۔ منفی پریشر والا ہر میٹیرئیل پھیلے گا۔ جب درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ خلا مختلف حالت میں تھی تو یہ پریشر بھی زیادہ تھا اور پھیلاؤ کی رفتار بھی۔ یہ فیز کاسمک انفلیشن کا تھا۔ کم درجہ حرارت پر اس کی حالت بدلی تو پھر کاسمک انفلیشن کا فیز بھی بدل گیا۔
فوٹون عام طور پر ماس نہیں رکھتا لیکن جب یہ سپر کنڈکٹر میں ہوتا ہے تو یہ کمیت رکھنے والا ذرہ بن جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح بنیادی ذرات کو ماس دینے کی وجہ بھی وہی سپرکنٹر ہے جسے ہم خلا کہتے ہیں۔
اگر لیول ٹو کی ملٹی ورس موجود ہے تو اس میں خلا کا میٹیرئیل مختلف ہو گا یا اگر تھیں اور کولیپس کر چکیں تو اس کی وجہ ان کے میٹیرئیل کی خاصیت ہی تھی۔
مختصر یہ کہ جسے ہم خلا کہتے ہیں وہ دراصل ایک تہہ دار، رنگین سپرکنڈکٹر ہے۔ یہ تصور حیرت انگیز لگے، عجیب، خوبصورت یا غیر معمولی، یہ سائنسی آوارہ خیالی نہیں، جدید فزکس کے مطابق حقیقت کے بارے میں ہماری اب تک کی سمجھ ہے۔