سب سے پہلے تو یہ جان لیجئے کہ سائنس کا بنیادی مقصد فطرت کے مظاہر کو سمجھنا اور انکے پیچھے کارفرما اُصولوں کو جاننا ہے۔ اکثر یہ پوچھا جاتا ہے کہ سائنسدان کیا سورج اور دیگر سیاروں ستاروں پر جا کر چیک کرتے ہیں کہ انکا ماس کیا ہے یا انکا قطر کیا یے یا وہ کتنے فاصلے پر ہیں؟ وغیرہ وغیرہ
جب ہم بنیادی سائنس کے اُصولوں کو نہیں سمجھیں گے تو اسی طرح کے سادہ لوح سوالات کریں گی جہاں ہم یہ فرض کر رہے ہونگے کہ چونکہ ہمارے مشاہدے میں تو مستری جمشید اینٹیں دیوار میں چننے سے پہلے انچی ٹیپ سے یا دھاگے سے اسکی لمبائی ماپتا ہے تو دنیا میں کسی شے کی لمبائی کو ماپنے کے لیے انچی ٹیپ ہی واحد طریقہ کار ہے جو انسانوں نے ایجاد کیا ہے۔ یا پھر جب ہم یہ دیکھتے ہیں حاجی قدوس کریانہ سٹور پر جب حاجی صاحب ناپ تول برابر کرنے کے لیے ترازو پر ایک طرف چاول اور دوسری طرف کلو یا دو کلو کے باٹ رکھتے ہیں تو یہی وہ واحد طریقہ ہے جس سے کسی شے کا وزن معلوم کیا جا سکے۔
تاہم سائنس محض کامن سینس یا عام مشاہدے پر نہیں ٹھہری۔ ایسا ہوتا تو آج آپکو دور کے فاصلے ناپنے کے لیے یا بھاری اجسام کا وزن معلوم کرنے کے لیے جمشید مستری کی انچی ٹیپیں اور حاجی قدوس کے ترازو سے بڑی بڑی انچی ٹیپیں اور ترازو درکار ہوتے۔ تو کیا ایک ستارے کا ماس یا عرفِ عام میں وزن معلوم کرنے کے لیے کوئی ترازو موجود ہے جبکہ ستارا تو زمین سے بھی لاکھوں گنا بڑا ہوتا یے اور کیا زمین سے سورج کا فاصلہ معلوم کرنے کے لیے کوئی ایسی انچی ٹیپ بن سکتی یے جو کئی کروڑ کلومیٹر کی ہو جسے بنانا تو دور کی بات اسے ایک جگہ سے دوسری جگہ اس قدر فاصلہ ماپنے کے لیے کون جائے گا؟
آپکی عقلِ سلیم کیا کہتی ہے؟
اس سب کا جواب ہے سائنس کے بنیادی اصول جس سے ہم ایک شے کا تعلق دوسری شے سے جوڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم جانتے ہیں کہ کسی شے کا جس قدر زیادہ ماس(عرفِ عام میں وزن جو سائنسی طور پر غلط اصطلاح ہے مگر سمجھانے کے لیے) زیادہ ہو گا اسکی گریویٹی اس قدر زیادہ ہو گی۔ تو گریویٹی کے بدلاؤ سے یا اسکے اثر کو بڑے ستاروں اور انکے گرد مدار میں موجود سیاروں کی رفتار یا راستے میں حساس سائنسی آلات سے بدلاؤ کے باعث ہم دور کے ستاروں کو ہاتھ لگائے بغیر انکا ماس معلوم کر سکتے ہیں۔ ایسے ہی روشنی کی رفتار اور ریاضی کے چند سادہ اصولوں سے ہم گھر بیٹھے کائنات کے مختلف ستاروں اور کہکشاوں کا فاصلہ زمین سے معلوم کر سکتے ہیں۔
یہاں یاد رکھنے کی بات محض یہ ہے کہ جب آپ سائنس کے بنیادی اصولوں اور مخلتف چیزوں کے درمیان مثال کے طور پر ماس اور گریویٹی کا تعلق، روشنی اور فاصلے کا تعلق ، روشنی کے رنگوں اور درجہ حرارت کا تعلق ایک بار جان لیں تو یہ کائنات کے ہر گوشے پر ہر جگہ پر لاگو ہو گا۔ چاہے آپ زمین پر ہوں یا خلا میں۔ پھر اس تعلق کی بنا پر آپ کسی معلوم سے نامعلوم کاسفر طے کرتے ہیں۔
اسی تناظر میں نیچے ایک مثال سے اسے واضح کرتے ہے۔
ہر طرح کی موج کی ایک ویویولینھ ہوتی ہے۔ ویویولینھ دراصل کسی موج کے دو متواتر اُاتار یا چڑھاؤ کے بیچ کا فاصلہ ہوتا ہے۔ کسی موج کی ویویولینھ کم ہو گی تو یہ زیادہ تواتر سے کسی میڈیم سے جیسے کہ ہوا وغیرہ سے گزرے گی۔ سو اسکی فریکوئنسی زیادہ ہو گی۔ اسی طرح اگر کسی موج کی ویویولینھ زیادہ ہو گی تو یہ کم تواتر سے کسی میڈیم سے گزرے گی۔ یعنی اسکی فریکوئنسی کم ہو گی۔
چیختی آواز کی فریکوئنسی زیادہ ہوتی ہے۔ بھاری آواز کی فریکوئنسی کم۔ اگر ایک ٹرین دور سے آ رہی ہو تو اسکی آواز چیختی ہوئی محسوس ہوتی ہے اور جب یہ ہمارے پاس سے گزرکر دور ہونے لگتی ہے تو اسکی آواز بھاری ہونے لگتی یے۔ یہ دراصل ڈوپلر شفٹ ہوتی ہے۔ بلیوشفٹ کا مطلب آواز کی فریکوئنسی زیادہ ہو رہی ہے اور ریڈ شفٹ کا مطلب کم۔
یہ اصول صرف آواز کی لہروں پر لاگو نہیں ہوتا۔ روشنی کی لہروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ اسی اصول کے تحت ہم دور سے کسی ستارے کی آتی روشنی کو دیکھ کر جان سکتے ہیں کہ اسکے ویویلینتھ میں کیا بدلاؤ آ رہا یے اور اس سے ہم دو چیزیں معلوم کر سکتے ہیں۔ ستارا ہماری زمین کے قریب آ رہا ہے یا ہم سے دور جا رہا یے۔ دوسرا یہ کس رفتار سے ہماری طرف یا ہم سے مخالف سمت میں بڑھ رہا یے۔
ایسے ہی ہم اسی اُصول کے تحت نوری سالوں کی مسافت پر موجود ستاروں کے گرد سیارے ڈھونڈتے ہیں۔ جن میں سے ممکن ہے مستقبل میں کوئی زمین بھی مل جائے۔
کائنات کے پھیلاؤ کے بارے میں بھی ہم اسی اُصول کے تحت جانتے ہیں کہ کائنات کس تیزی سے پھیل رہی ہے۔ کہکشائیں ہم سے کتنی دور ہو رہی ہیں۔
سائنس کتنی دلچسپ ہے۔ چند سادہ سے اُصولوں کی مدد سے ہم نوری سالوں کی مسافت کی کہکشاؤں اور کائنات کے بارے میں کتنی سہولت سے جان سکتے ہیں۔ سائنس سیکھیں، یہ بے حد دلچسپ ہے۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...