کائنات کس رفتار سے پھیل رہی ہے؟
ہم تقریباً سو سال سے اس حقیقت سے واقف ہیں کہ کائنات مسلسل پھیل رہی ہے- اگرچہ زمین سے دیکھنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ زمین کائنات کا مرکز ہے اور جو کہکشاں ہم سے جتنی زیادہ دور ہے اتنی ہی تیزی سے وہ ہم سے دور جا رہی ہے لیکن ہم جانتے ہیں کہ زمین کائنات کا مرکز نہیں ہے- اگر ہم کسی اور کہکشاں میں جا کر وہاں سے کہکشاں کا مشاہدہ کریں تو ہمیں یہ محسوس ہوگا کہ وہ کہکشاں ہی کائنات کا مرکز ہے- حقیقت یہ ہے کہ کائنات میں تقریباً ہر کہکشاں ہر دوسری کہکشاں سے دور جا رہی ہے
کائنات کے پھیلاؤ کا مشاہدہ سب سے پہلے ماہرِ فلکیات ایڈون ہبل نے کیا تھا- اس کے نام پر کائنات کے پھیلاؤ سے متعلق قانون کے ہبل کا قانون کہا جاتا ہے- اس قانون کے تحت کسی بھی دو کہکشاؤں کے درمیان پھیلاؤ کی شرح کو Hubble's constant سے معلوم کیا جا سکتا ہے جو تقریباً 70 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک ہے-
اب ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانسڈ ہو چکی ہے کہ ہم ہبل کے کانسٹینٹ (یعنی کائنات کے پھیلاؤ کی شرح) کی مختلف طریقوں سے پیمائش کر سکتے ہیں- لیکن اس نئی صلاحیت سے اس شرح میں اعتماد بڑھنے کے بجائے اعتماد کم ہو گیا ہے- اس کی وجہ یہ ہے کہ مختلف طریقوں سے پیمائش کے نتائج مختلف آ رہے ہیں- جب ہم کاسمک بیک گراؤنڈ شعاعوں سے اس کانسٹینٹ کی پیمائش کرتے ہیں تو جواب 67.4 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک آتا ہے جبکہ پلسار ستاروں کے مشاہدے سے اس کائنسٹینٹ کی پیمائش کی جائے تو جواب 73.4 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک آتا ہے- ان دونوں پیمائشوں میں جو ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے اسے انتہائی precise ٹیکنالوجی سمجھا جاتا ہے- اگرچہ ان دونوں پیمائیشوں کا اوسط تقریباً 70 کلومیٹر فی سیکنڈ فی میگا پارسیک ہے جو پہلے کی گئی پیمائشوں کے قریب تر ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حال ہی میں کے گئے دونوں مشاہدات ماضی کے مشاہدات سے کہین زیادہ accurate ہیں اس لیے ان میں اتنے زیادہ فرق کی توقع نہیں تھی- اگر اس فرق کی وجہ پیمائش کی غلطی نہیں ہے (جس کا امکان بہت کم ہے) تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ دونوں مشاہدات کچھ مختلف مظاہر کی پیمائیشیں کر رہے ہیں جنہیں سائنس دان ایک ہی مظہر سمجھتے رہے ہیں- اگر ایسا ہے تو کائنات کے بارے میں فزکس کے ماڈلز میں ترمیم کرنا ہوگی- یہ ترمیم کیا ہوگی اس بارے میں فی الحال ہمیں کچھ معلوم نہیں ہے-
https://phys.org/news/2018-08-universe-expansion-dispute-physics.html
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔